تاریخ شائع کریں2024 22 March گھنٹہ 15:15
خبر کا کوڈ : 629140

یمن سے جنگ میں واشنگٹن کے الٹے اندازے

بنومار کہتے ہیں کہ مغربی کی جانب سے اس گروہ کے ساتھ ایک عشرے سے جاری شدت پسندی غلطی ہے۔ ان کی نظر میں مغربی ممالک کی جانب سے 2015ء میں یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کی مداخلت کی حمایت کرنا اہم ترین غلطی تھی۔
یمن سے جنگ میں واشنگٹن کے الٹے اندازے
تحریر: علی احمدی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز

 
ایسے وقت جب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک انصاراللہ یمن کی جانب سے بحیرہ احمر میں اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک کی کشتیوں پر ڈرون اور میزائل حملے روکنے کیلئے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لا رہے ہیں، یمنی مجاہدین نے اپنی برتری برقرار رکھی ہوئی ہے اور جیسا کہ خطے کے حالت پر نظر رکھے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے، اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے تو انصاراللہ یمن کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کا زمینہ ہموار ہو جائے گا۔ یمن سے متعلق امور کیلئے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی ایلچی نے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی، بحیرہ احمر میں اپنی کشتیوں پر انصاراللہ یمن کے حملوں کے مقابلے میں انتہائی نقصان دہ غلطیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں کیونکہ یہ گروہ مغربی ممالک کے فضائی حملوں کے نتیجے میں زیادہ طاقتور ہتھکنڈے بروئے کار لائے گا۔
 
جمال بنومار، جو 2011ء سے 2015ء تک یمن میں اقوام متحدہ کے نمائندے تھے اور اس ملک میں جاری تباہ کن خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے انجام پانے والے مذاکرات میں بھی شریک رہے تھے، نے امریکی اخبار نیوزویک کو بتایا کہ صرف غزہ میں جنگ بندی ہی بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی جانب سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر انجام پانے والے حملوں کو روک سکتی ہے۔

واشنگٹن کے الٹے اندازے

جمال بنومار کہتے ہیں: "تاریخی لحاظ سے اور 2011ء سے امریکہ کی سربراہی میں انصاراللہ یمن کے خلاف انجام پانے والے اقدامات کے پیش نظر، یہ کہنا بجا ہو گا کہ واشنگٹن مسلسل غلط اندازے لگا رہا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس وقت ایک ٹیکٹیکل سانحے سے روبرو ہیں۔ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کے خلاف ایک اور محاذ کھولا جانا بھی ایک اور غلط اندازہ ہے۔
 
انصاراللہ یمن نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے حماس کی نابودی کیلئے مسلسل حملوں پر اعتراض کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں فوجی کاروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ وہ بھی ایسے حالات میں جب اسرائیل غزہ کی پٹی میں 31 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کا قتل عام کر چیا ہے اور غزہ کی وزارت صحت کے بقول ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی کل 23 لاکھ آبادی کی اکثریت کو جلاوطن کر چکا ہے اور غزہ کا بڑا حصہ تباہ کر کے مٹی میں ملا چکا ہے۔ انصاراللہ یمن کے سربراہان نے کہا ہے کہ جب تک "غزہ میں اسرائیلی جرائم" جاری ہیں اس وقت تک وہ بحیرہ احمر میں بھی کشتیوں پر حملے جاری رکھیں گے۔ اس یمنی گروہ نے اب تک اپنی بات پر عمل کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد چھ ماہ کے دوران دسیوں تجارتی اور فوجی کشتیاں حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔
 
انصاراللہ یمن کے میزائل حملوں کا نشانہ بننے والی کم از کم ایک کشتی غرق ہو چکی ہے، ایک پر انصاراللہ نے قبضہ کر رکھا ہے اور ایک اور کشتی کا عملہ اسے چھوڑ کر جا چکا ہے۔ ملاحوں کے جانی نقصان کی پہلی رپورٹ اس مہینے کے شروع میں موصول ہوئی جب True Confidence نامی تیل بردار جہاز انصاراللہ کے میزائل کا نشانہ بنا۔ جنوری میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے یمن پر ابتدائی فضائی حملوں کا نتیجہ انصاراللہ یمن کے حملوں میں اضافے کی صورت میں نکلا۔ مغربی ممالک بدستور دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر انصاراللہ یمن نے مغربی ایشیا کی معیشت کو ماحولیاتی نقصان پہنچانے والے اور یمن اور دیگر ممالک تک انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے والے حملے بند نہ کئے تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن انصاراللہ نے اپنی کاروائیوں کی وسعت اور شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔"
 
انصاراللہ یمن کی برتری

 گذشتہ چند عشروں کے تناو میں انصاراللہ یمن کا عزم مزید پختہ ہو گیا ہے۔ یہ گروہ، سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی سربراہی میں مرکزی حکومت سے 6 جنگیں انجام دے چکا ہے۔ البتہ یہ جنگیں اس طویل جنگ سے پہلے انجام پائیں جس کے نتیجے 2011ء خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔ انصاراللہ یمن ملک میں پیدا ہونے والی انارکی سے بہت حد تک کامیابی سے باہر آئی ہے۔ یہ گروہ 2015ء سے سعودی عرب کی سربراہی میں انجام پانے والے فضائی حملوں کا مقابلہ کرتا آیا ہے جن کا مقصد اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنا تھا۔ ریاض گذشتہ دو سال سے ایسی جنگ سے باہر نکلنے کیلئے انصاراللہ یمن سے مذاکرات کر رہا ہے جو جیتی نہیں جا سکتی تھی۔ اسرائیل اور حماس میں جنگ کا آغاز اور اس کے بعد بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کے حملوں نے ان مذاکرات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
 
بنومار کہتے ہیں کہ مغربی کی جانب سے اس گروہ کے ساتھ ایک عشرے سے جاری شدت پسندی غلطی ہے۔ ان کی نظر میں مغربی ممالک کی جانب سے 2015ء میں یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کی مداخلت کی حمایت کرنا اہم ترین غلطی تھی۔ وہ کہتے ہیں: "امریکہ اور برطانیہ نے انہیں ترغیب دلائی، یہ ایک غلطی تھی۔" وہ مزید کہتے ہیں: "بحیرہ احمر کے تناو میں ایک چیز واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا کردار کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ دو ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ انصاراللہ کس قدر مسلح ہے۔" بنومار کے بقول مغرب سے جنگ، انصاراللہ کی حیثیت کیلئے فائدہ مند ہے۔ وہ کہتے ہیں: "اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نتیجہ یمن میں اس گروہ کی محبوبیت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ آج انصاراللہ، 2000ء کے عشرے کی ابتدا میں حزب اللہ لبنان جیسی دکھائی دیتی ہے۔"
https://taghribnews.com/vdcba9b0grhb58p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ