تاریخ شائع کریں2023 24 February گھنٹہ 17:22
خبر کا کوڈ : 585090

3 شعبان ولادت باسعادت امام حسین ع

امام حسین علیہ السلام ہمارے تیسرے امام ہیں ، آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسے ، امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دوسرے فرزند ہیں۔
3 شعبان ولادت باسعادت امام حسین ع
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

بشکریہ: حوزہ نیوز ایجنسی


امام حسین علیہ السلام ہمارے تیسرے امام ہیں ، آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسے ، امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دوسرے فرزند ہیں۔

آپؑ کی مشہور کنیت ‘‘ابو عبداللہ’’ ہے اگرچہ جناب شیخ مفید ؒ نے اپنی کتاب ‘‘الارشاد’’ میں دیگر کنیتوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسے ابو علی، ابوالشہداء، ابوالاحرار، ابوالمجاہدین ۔

کتب تاریخ میں امام حسین علیہ السلام کے کثیر القاب ذکر ہوئے ہیں جنمیں سے ہر ایک آپؑ کی کسی ایک فضیلت یا خصوصیت کی جانب اشارہ ہیں ۔ جیسے عطشان (تشنہ)، مظلوم، قتیل العبرات (کشتہ گریہ)، سید الشہداء (شہداء کے سردار)، ثار اللہ (جس کے خون کا انتقام خدا لے گا۔)، خامس اصحاب کساء (پنجتن پاک میں پانچویں)، وارث (انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کے وارث)، موضع سِرّ اللہ (اسرار الہی کا خزینہ)، دلیل علی اللہ (وجود خدا پر دلیل)، مجاہد (راہ خدا میں جہاد کرنے والے)، شاہد، شہید، رشید، غریب الغرباء، حجت اللہ (اللہ کی حجت)، خازن الکتاب المسطور (قرآن کے خزانہ دار)، سفیر اللہ (اللہ کے سفیر)، عبد، عابد، سید شباب اہل الجنۃ(جوانان جنت کے سردار)، مصباح الہدیٰ (چراغ ہدایت)، سفینۃ النجاۃ (کشتی نجات)، قتیل الکفرہ (اہل کفر نے آپؑ کو شہید کیا)، قتیل الاشقیاء (بدبختوں نے آپؑ کو شہید کیا۔)، سریع العبرہ (جسکی یاد بہت جلد آنکھوں کو اشکبار کر دے)، ولی اللہ (اللہ کے ولی)، زکی، امام، سبط رسولؐ وغیرہ۔

امام حسین علیہ السلام 3؍ شعبان المعظم سن 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جب آپؑ کی ولادت کی خبر ہوئی تو امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور جناب اسماء کو حکم دیا کہ نومولود بچے کو میرے پاس لاؤ۔ جب جناب اسماء بچے کو لے کر آئیں تو حضورؐ نے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی ۔ اسی وقت جبرئیل امین ؑ نازل ہوئے اور بعد درود و سلام عرض کیا کہ خدا وند عالم نے اس بچے کا نام جناب ہارونؑ کے چھوٹے فرزند کے نام پر شبیر رکھا ہے جسے عربی میں ‘‘حسینؑ’’ کہتے ہیں۔ ولادت کے ساتویں دن بطور عقیقہ جانور ذبح کیا گیا اور سر منڈوا کر بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ دی گئی۔

قرآن کریم کی متعدد آیتیں امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت اور خصوصیت کا قصیدہ پڑھ رہی ہیں۔ جیسے آیہ تطہیر، آیہ مباہلہ، آیہ مودت وغیرہ

امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب اور پیارے تھے۔ آپؑ چھ سال چند ماہ اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زیر سایہ پروان چڑھے۔ شیعہ اور سنی دونوں کی کتابوں میں روایتیں موجود ہیں کہ حضورؐ امام حسین علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے۔ کبھی فرمایا: ‘‘حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔’’ کبھی فرمایا: ‘‘ بے شک حسینؑ! چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں۔’’ کبھی فرمایا: حسن ؑ و حسینؑ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سےافضل ہیں۔’’ کبھی فرمایا: ‘‘حسنؑ و حسینؑ امام ہیں چاہے جنگ کریں یا صلح کریں۔’’ کبھی فرمایا: ‘‘حسنؑ و حسینؑ میرے دو پھول ہیں۔ ’’

28؍ صفر سن 11 ہجری کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو امام حسین علیہ السلام کو شدید صدمہ ہوا ۔ لیکن جب شہادت رسول اکرم ؐ کے 75 یا 95 دن بعد والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومانہ شہادت ہوئی تو آپؑ کے غم میں مزید اضافہ ہوا۔

والدہ ماجدہ کی شہادت کے بعد تقریباً 29 برس اپنے والد ماجد امیرالمومنین علیہ السلام کے زیر سایہ زندگی بسر کی جنمیں 25 برس خانہ نشینی اور خاموشی کی زندگی تھی اور چار سال چند ماہ امیرالمومنین علیہ السلام کا دورہ حکومت رہا۔ امام حسین علیہ السلام امیرالمومنین جیسے عادل باپ کے فرزند اور انکی آغوش تربیت کے پروردہ تھے جنہیں کثرت عدالت کے سبب محراب عبادت میں شہید کر دیا گیا اور جنکی عدالت غیر تو غیر سگے بھائی بہن بھی برداشت نہ کر سکے۔ امام حسین علیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری میں نہ کبھی جان کی پرواہ کی نہ مال کی اور نہ ہی آبرو کی اور نہ کبھی اولاد کی بلکہ اپنی ہستی کو خدا کی راہ میں قربان کرنا انکی شخصیت کا خاصہ رہا۔

21؍ رمضان المبارک سن 40 ہجری کو جب امیرالمومنین علیہ السلام شہید ہو گئے اور امامت و حکومت کی ذمہ داری امام حسن علیہ السلام کو ملی تو امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کے مطیع محض بن گئے اور انکی ہاں میں ہاں اور نہیں میں نہیں کو اپنا نصب العین بنا کر رہتی دنیا کو بتا دیا کہ امام وقت کی اطاعت ہر ایک واجب ہے چاہے وہ مستقبل کا امام ہی کیوں نہ ہو۔ امام حسن علیہ السلام نے جنگ کا حکم دیا تو امام حسین علیہ السلام نے لبیک کہی اور جب انہوں نے صلح کی تب بھی آپ ؑ نے اطاعت ہی فرمائی۔ ماہ صفر سن 50 ہجری میں امام حسن علیہ السلام اپنی زوجہ جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ دئیے گئے شامی زہر سے شہید ہو گئے ۔ جس کے بعد امام حسین علیہ السلام امام ہوئے ، امام حسن علیہ السلام کی وصیت کے مطابق انکے جنازے پر تیر برداشت کئے اور مظلومیت پر صبر کیا ۔

جب کوفہ اور دیگر علاقوں سے چاہنے والوں نے حاکم شام کے خلاف قیام کی درخواست کی تو آپؑ نے صلح کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو صبر کی تلقین کی۔

یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ حاکم شام سے امام حسن علیہ السلام نے صلحنامہ کے شرائط میں ایک شرط یہ بھی رکھی تھی جسے حاکم شام نے وقت صلح قبول بھی کیا تھا کہ‘‘اسے اپنے بعد کے لئے کسی کو حاکم مقرر کرنے کا حق نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو اپنا ولی عہد بنا سکتا ہے ۔ ’’ لیکن حاکم شام نے مذکورہ شرط سمیت صلح نامہ کی کسی بھی شرط کی پابندی نہیں کی اور یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔

ماہ رجب سن 60 ہجری کو حاکم شام کی موت ہوئی تو نص الہی اور وصیت نبوی سے قطع نظر صلحنامہ کے شرائط کے مطابق یزید سمیت سارے لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی بعنوان خلیفہ اور حاکم کے بیعت کرنی چاہئیے تھی لیکن اس کے برخلاف یزید تخت نشیں ہوا اور اس نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو خط لکھا کہ امام حسین علیہ السلام سے بیعت لو اگر وہ انکار کریں تو سر قلم کر دو۔

ولید نے امام حسین علیہ السلام کو دربار میں بلایا اور اپنا مدعا پیش کیا تو مولا نے فرمایا: ‘‘نہ میرے لئے خفیہ بیعت مناسب ہے اور نہ ہی میری خفیہ بیعت کافی ہو گی۔ لہذا جب تم سب کو بیعت کے لئے بلانا تو مجھے بھی بلا لینا۔’’ اس نے اسی جواب میں عافیت سمجھی ، امام ؑ وہاں سے جانا ہی چاہتے تھے کہ وہاں موجود مروان نے ولید سے کہا انہیں جانے نہ دو ، ابھی ان سے بیعت لے لو ورنہ سر قلم کر دو۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ امام ؑ کی آواز بلند ہوئی، پسر زرقا! میرا سر تو قلم کرے گا یا تیرا امیر ولید ؟ امام ؑ کی آواز کا بلند ہونا تھا کہ بنی ہاشم ننگی تلواریں لئے ہوئے دربار میں داخل ہوئے جنہیں آپؑ نے صبر کی تلقین کی اور ولید سے مخاطب ہوئے : ‘‘ہم اہلبیت نبوت ہیں ، ہم معدن (کان) رسالت ہیں، ہمارے یہاں ملائکہ کی آمد ورفت ہے، ہمارے یہاں رحمت نازل ہوتی ہے، ہم سے ہی اللہ نے آغاز کیا اور ہم ہی پر ختم کرے گا۔ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سلسلہ ہدایت کا آغاز ہوا اور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف پر اختتام ہو گا) ۔ یزید فاجر، شرابی، نفس محترم کا قاتل اور کھلم کھلا فسق و فجور اور گناہ انجام دینے والا ہے۔ میرے (امام حسین علیہ السلام) جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔ صبح ہونے دو تو دیکھیں گے ہم میں سے کون خلافت و بیعت کا حقدار ہے۔’’

اس کے بعد آپ ؑ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دربار سے نکلے ۔ سب کو رخصت کر کے بیت الشرف میں تشریف لائے اور کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ پر گئے۔ ماں کے مزار اور بھائی کے مرقد پر تشریف لے گئے۔ المختصر امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد حنفیہ سے وصیت کی اور اپنے اہل بیت اور اصحاب کے ہمراہ 28؍ رجب سن 60 ہجری کو مدینہ سے کوچ کیا یعنی جان مدینہ نے مدینہ کو خیرباد کہا ۔

امام حسین علیہ السلام تین یا چار شعبان المعظم سن 60 ہجری کو بلد امین ، حرم الہی مکہ مکرمہ پہنچے۔ اہل کوفہ کو جب حاکم شام کی وفات اور آپؑ کی ہجرت کی خبر ہوئی تو خطوط لکھ کر نصرت کا وعدہ کرتے ہوئے آپ ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ آپؑ نے اپنے بھائی ، چچازاد اور معتمد جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو انکی جانب بھیجا ۔ اہل کوفہ نے جناب مسلم علیہ السلام کے دست مبارک پر امام حسین علیہ السلام کی بیعت کی۔ لیکن جب عبیداللہ بن زیاد کوفہ کا حاکم ہوا تو حالات بدل گئے۔ وفا کا وعدہ کرنے والوں نے دغا کی ، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ کوفہ تو مسلمانوں سے بھرا تھا لیکن مسلم ؑ تنہا تھے اور آخر سفیر حسینی اور انکے ساتھی جناب ہانی ؑ شہید کر دئیے گئے۔

دوسری جانب مکہ مکرمہ میں یزید پلید کے گورنر نے دوران طواف امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش کی کہ اگر دوران طواف امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے تو ان کی شہادت کو دہشت گردانہ حملہ قرار دے کر مجرموں کو سزا دے دیں گے اور یزیدی اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امام حسین علیہ السلام کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اللہ رے حکمت حسینی کہ عین حج کے دن 8 ؍ ذی الحجہ کو جب سارے حاجی مکہ میں ہوتے ہیں مولود کعبہ کے فرزند نے کعبہ کو خدا حافظ کہا اور عراق کی جانب روانہ ہوئے ، راستے میں مختلف لوگوں سے ملاقات ہوئی انہیں اپنے قیام سے باخبر کرتے ہوئے نصرت کی دعوت دی ۔ جو خوش نصیب تھے وہ ساتھ ہولئے اور جو محروم تھے محرومیت ان کا مقدر بن گئی۔ راستے میں حضرت مسلم علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی۔ کاروان حسینی اپنی منزل کی جانب رواں تھا کہ حرؑ کا پیاسا لشکر ملا جسے آپؑ نے سیراب کیا ، آخر دو محرم 61 ہجری کو کربلا پہنچ گئے۔ چار محرم سے پانی بند ہوا اور سات محرم سے حسینی خیام میں قحط آب ہو گیا ۔ نو محرم کو ہنگام عصر حملے کی آواز سنی تو ایک شب کی مہلت مانگی۔ 10؍ محرم کو پہلے اصحاب شہید ہوئے ۔ پھر بنی ہاشم نے شہادت پیش کی، حتیٰ آپؑ کے چھ ماہ کے معصوم بچے کو ظالموں نے پیاسا شہید کر دیا اور آخر میں آپؑ بھی حالت سجدہ میں شہید ہو گئے۔

آپ ؑ نے انسانی اور اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے قیام کیا تھا لہذا آپ ؑ کے بعد سے ہر تحریک انقلاب کے سربراہ نے بلا تفریق دین و مذہب، ملک و ملت اور رنگ و نسل آپؑ کو اپنا مقتدا سمجھا۔

آپ ؑ نے ایسا حکیمانہ اقدام کیا کہ جہاں واقعہ کربلا کے مجرم بے نقاب ہوئے وہیں خیانت کار بھی بے نقاب ہوئے۔ خدا ہمیں اپنی ، اپنے رسولؐ اور حجتؑ کی معرفت عطا فرمائے۔
https://taghribnews.com/vdcgyn9nzak97z4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ