تاریخ شائع کریں2021 24 April گھنٹہ 21:16
خبر کا کوڈ : 501258

چین اور امریکہ کی معیشتی جنگ

چین کی پھلتی پھولتی معیشت کی وجہ سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ درحقیقت دونوں ممالک کے مابین نئی تجارتی جنگ یا نئی سرد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
چین اور امریکہ کی معیشتی جنگ
بشکریہ: شفقنا اردو

کرونا وبا کے بعد یورپ، چین اور امریکہ کی معیشتوں میں غیر معمولی جوبن آیا جس سے تمام بڑی طاقتوں کےبین الاقوامی تعلقات پر اثر پڑا۔ چین کی پھلتی پھولتی معیشت کی وجہ سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ درحقیقت دونوں ممالک کے مابین نئی تجارتی جنگ یا نئی سرد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ کواڈ گروپ کی تشکیل جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔دوسری جانب یورپی یونین سے اخراج خے بعد برطانیہ کی توجہ بھی جنوب مشرقی ایشیا پر مرکوز ہو گئی ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے بہت واضح انداز میں اپنی خارجہ پالیسی کے خدو خال اپنی پارلیمنٹ میں پیش کیے جن میں انڈو پیسفک کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ بھارت بھی انڈو پیسفک میں نئے کواڈ گروپ کا ممبر ہے۔ یقینا جاپان اور آسٹریلیا کے ہمراہ بھارت خطی کردار کے طور پر بائیڈن کی سر براہی میں متحرک کردار ادا کرسکتا ہے۔ حلف اٹھانے کے فورا بعد جو بائیڈن نے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی سے فون پر بات چیت کی اور بعد میں چین کے صدر کو فون کر کے متنازعہ معاملات جیسا کہ ہانگ کانگ اور ژن جیانگ پر بحث کی۔ اگرچہ فون پر ہونے والی یہ گفتگو سخت نہیں تھی تاہم اس کو دوستانہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز درحقیقت اوبامہ دور میں ہوا۔

انڈو پیسفک میں دو خطی کھلاڑی جاپان اور چین ہیں۔ ٹوکیو واشنگٹن کا قریبی ساتھی ہے اور امریکہ کے ساتھ اس کے دفاعی تعلقات ہیں۔ تاہم امریکہ چین کی پھیلتی ہوئی معیشت کو اس کے خطی اور بین الاقوامی مفادات کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ تجارتی ٹیرف کے ذریعے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمل نے چین کی برآمدات کا رستہ روکنے کی کوشش کی اور مقامی انڈسٹری کو اوپر لانے کی کوشش کی تاکہ ملک میں روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ وبا کے آمد کے بعد سے چین کی شرح نمو اوسطا چھ فیصد سے زائد ہے۔ سرد جنگ کے دوران روس کی معیشت امریکی معیشت سے 40 گنا بڑی تھی تاہم یہ کبھی بھی امریکہ کے لیے خطرہ نہیں رہی تھی۔ مگر چین کی معیشت کا حالیہ جوبن امریکہ کے لیے دوررس نتائج کا حامل ہوگا۔ اب چین دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافہ کر رہا ہے اور جنوبی ایشیا ، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق قسطی میں ایک وسیع صارف مارکیٹ رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ افریقہ کے وسط میں دیگر مارکیٹوں کی تلاش میں بھی ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں چین اور ایران کے ایک بڑی تجارتی معاہدے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔  ایران نے چین کے ساتھ 400بلین ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ بعض لوگ اسے کو سی پیک پلس پروجیکٹ کا نام دے رہے ہیں۔

اس بات کا مشاہدہ دلچسپ ہوگا کہ اب ایران چین اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن لائے گا کیونکہ چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر بھارت کر رہا ہے جبکہ گوادر بندرگاہ پر چین کام کر رہا ہے جو پاکستان کا قریبی حلیف ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعےاور بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے باوجود دونوں ممالک کے مابین تجارتئ تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں امریکی پابندیاں ایران کو چین کے قریب لانے کا سبب بنی ہیں۔ تجارتی معاہدے کے بعد چین ایران سے سستا تیل خریدے گا اور ایران کے انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹیشن اور کمیونیکیشن کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ دونوں ممالک دفاع اور انٹلی جنس کے شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق چین ایران اور اس کے عرب حلیفوں کے مابین کسی قسم کے تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا کیونکہ چین نے ایران کی طرح عرب ممالک کے ساتھ بھی تجارتی معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ چین کے ساتھ معاہدے کے بعد ایران اب امریکہ کےساتھ ایٹمی معاہدے پر بات چیت کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے کیونکہ اس سے قبل ایران عالمی تنہائی کا شکار تھا۔

یہ معاہدے آنے والے برسوں میں ایران کی معیشت کو مضبوط بنائیں گے ۔ ایران نے ماضی میں روسی فیڈریشن کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدے کیے تھے۔ اس کے علاوہ ایران شام میں بشار الاسد کی حکومت اور مشرق وسطٰی میں فلسطین کے مقاصد کی حمایت کر رہا ہے۔ یہ نہ صرف خلیج فارس بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی ایک اہم کھلاڑی ہے ۔ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ کی نسبت ایران کے ساتھ سابقہ ایٹمی معاہدےکی از سر نو تجدید میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب مشرق وسطٰی میں امریکی پالیسی میں بھی تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ انسانی حقوق اور میڈیاکی آزادی پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہے جبکہ حال ہی میں سی آئی اے نے صحافی جمال کشوگی کے قتل کی رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ دوسرا، بائیڈن انتظامیہ فلسطین اور اسرائیل کے جھگڑے میں دو ریاستی حل کی حمایتی ہے ۔ اوبامہ انتظامیہ کے دوران جو بائیڈن محمود عباس سے ملاقات کر چکے ہیں اور انہوں نے اس وقت بھی دو ریاستی حل کی حمایت کی تھی۔ اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ بائیڈن ان دو ممالک کو مابین اوسلو معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرے گا۔

جنوب ایشیا کے خطی تناظر میں ، روس کے وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ پاکستان اور دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات ، خطے میں نئی جہتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلیاں اس طرف اشارہ کرتی ہیں۔ روس نے حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر معاہدے کی عملداری کو بھی خوش آئند قرار دیا ہے۔ روس پاکستان کی جیو سٹریٹیجک اور جیو پولیٹیکل اہمیت کا جانتا ہے اور بین الاقوامی امن اور خطے کے استحکام میں پاکستان ایک مثبت اورتعمیری کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسی جانب پاکستان بھی جو بائیڈن کے افغانستان سے افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لے رہا ہے ۔ خطی کھلاڑی امریکی خلا کو پاکستان کی مدد کے بغیر پر نہیں کر سکتے۔ چین بھی نئے کواڈ گروپ کا مشاہدہ کر کے اپنی خارجہ پالیسی کو اس حساب سے شکل دے رہا ہے۔ یہ بات تو طے ہے امریکہ اور چین کے مابین تجارتی یا سرد جنگ دنیا کے مفاد میں نہیں ہے۔ نئی سرد جنگ ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع کر دے گی جو نہ صرف انڈو پیسفک خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
 
https://taghribnews.com/vdcam6nma49nwu1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ