تاریخ شائع کریں2023 26 February گھنٹہ 21:37
خبر کا کوڈ : 585364

شہنشاہ شجاعت حضرت عباس علمدار وفا ع

جس طرح آگ کے شعلوں میں جاتے ہویے کاسر الاصنام پیغمبر اطاعت کے مرحلہ طے کرتے تھے ویسے ہی خواہشوں کے شعلوں میں جاتے ہویے جری نے اطاعت عصمت پر جبین نیاز جھکا کر تربیت عصمت کو قوت اعجاز سے قریب تر کردیا۔
شہنشاہ شجاعت حضرت عباس علمدار وفا ع
تحریر: مولانا گلزار جعفری

بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی


اقلیم بیان کا سخنور وادی یاقوت کو جسکے چہرے کی چمک ماندہ کردے،سمندروں کی وسعت جسکی معرفت کا احاطہ نہ کر سکے آسمانوں کی رفعتیں جسکے معیار اطاعت کو نہ چھو سکیے آفتاب و مہتاب کی روشنی سے زیادہ جسکے شعور کی روشنی ہو کہکشاؤں سے زیادہ چمک جسکے دندان مبارک میں ہو ،جسکے لب و لہجہ کی شیرینی شہد سے زیادہ ہو جسکے تکلم کی دہلیز پر لسانیات کے ماہرین جبہ ساءی کرتے نظر آئیں،
جسکے تکلم کا صدقہ اسکی خاموشی اتارے اور جسکے سکوت پر متکلمین فخرو مباہات کریں جو صلب شجاعت سے رحم حکمت میں منتقل ہوا، دست امامت پر چشم تبسم واں کی ، وہاں سے آغوش عصمت کا سفر طے کرکے نگاہ عفت میں پروان چڑھا ، طہارتوں کے قلعہ حقیقت میں جو تربیت پایے قداست و فراست ،ذکاوت و ذہانت جس کو ورثہ میں ملی ہو نیزہ برداری کا ہنر شیر مادر سے ملا تو شمشیر زنی کا فن شہنشاہ شجاعت سے سیکھا ماں کی آغوش معرفت سے روش ادراک کا سفر جس نے صغر سنی میں مکمل کر لیا ہو اطاعت پر تمناء قلب مضطر کو مقدم کرنے والا ، خواہش نفس پر اطاعت امام کو آگے رکھنا ،تمناووں کو پیچھے ڈھکیل کر حکم امامت پر سر نیاز جھکا دینا ،آرزووں کے بحر بے کراں میں معرفت کی شناوری کوئی صحیفہ وفا سے سیکھے۔

فرمان تھا کہ آواز کا ساز جیسے ہی گوش احساس سے ٹکراءیے فورا داخل دربار ہو جانا، اسکا ظاہری مطلب تھا کہ گویا آواز کی رفتار سے طبل جنگ کی گونج سناءی دے تو شعور نے آغوش حکمت سے تربیت پاءی تھی لہذا فورا شیر شمشیر بکف ہو گیا مگر جب تلوار کی چمک پر حکیم کربلا کی حکمت کی کرنیں پڑی تو تلوار کی رجعت لمحوں میں نیام کی جانب ہو گءی لمحہ بھر میں ، چشم زدن میں تخت بلقیس کیسے آیا ہوگا اسکی محسوس مثال تھی دربار ولید میں شجاعت کے جوش کا شعور کی دہلیز پر سجدہ ادا کر لینا، بہادر و دلیر کی آگ بگولہ نگاہوں پر جیسے ہی ابر کرم کے موتی برسے سب کچھ لمحوں میں ٹھنڈا ہو گیا۔

یہ خنکی دلیل تھی کہ نفس کی آتشی اطاعت کے سامنے لمحہ بھر میں گلزار ہوگئی، عصاء موسی کا اک پل میں اژدھا بن جانا دربار میں اترنے کے مترادف ہے اور حالات کا جایزہ لیکر دوبارہ عصا بن جانا تلوار کا نیام میں چلا جانا ہے۔

بطن ماہی میں یونس کا صبر جمیل شرما گیا ہوگا اس ادا کو دیکھ کر جب جری کی تلوار حملہ کے بغیر پلٹ گئی تھی۔

راجپوت سماج میں کہا جاتا ہیکہ شمشیر اگر بے نیام ہو جایے تو اسے لہو پلانا ضروری ہوتا ہے،جسم کے زخم سے لہو پلانا آسان ہے مگر علی کے شیر کی نکلی ہوءی شمشیر کو نفس کی خواہش کی نیلامی کا لہو پلانا کوءی معمولی بات نہیں ہے اس کے لیے جس سلیقہ اور قرینہ کی ضرورت ہے اسے صرف آغوش تربیت عصمت سے ہی درک کیا جا سکتا ہے کچھ اسالیب حیات کلک قلم سے زیب قرطاس کیے جا سکتے ہیں مگر وادی احساس میں سمیٹ نے کی سعی کی جایے تو زبان کے کاسہ ادب میں الفاظ کا خزانہ خالی نظر آءیگا کیونکہ اس تعبیر کے بیان کے لیے کوءی لفظ لفظیات کے صحیفوں میں ضبط تحریر ہی نہیں کیا گیا۔

کہاں سے وہ لفظ لاؤں جو دربار کی اس کیفیت کو رقم کرسکے جہاں عصمت کی نگاہیں شجاعت کے دست زبردست پر پڑیں اور شعور نے عین اللہ کی چشم حکمت کے اسرار و رموز کو چشم زدن میں بھانپ لیا وقت کے کس حصہ میں شمشیر کا ظہور ہوا اور کس حصہ میں دوبارہ غیبت کے حجابوں میں چلی گی اسکا اندازہ لگانے کے لیے صرف علم لدنی کی ضرورت ہے معجزوں سے ضبط کی منزل اور ہے تربیت سے اطاعت کی راہ پیماءی اور ہے۔

جس طرح آگ کے شعلوں میں جاتے ہویے کاسر الاصنام پیغمبر اطاعت کے مرحلہ طے کرتے تھے ویسے ہی خواہشوں کے شعلوں میں جاتے ہویے جری نے اطاعت عصمت پر جبین نیاز جھکا کر تربیت عصمت کو قوت اعجاز سے قریب تر کردیا۔

حضرت موسی نے عصا کو دوبارہ تھاما تو خوف پیشانی سے چھلک رہا تھا ہاتھوں میں رعشہ تھا بدن میں کپکپاہٹ تھی مگر شیر نیستان حیدر کا غیظ و غضب پر قابو پانے والا اطمینان نفس کچھ اور ہی تھا اور یہاں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہیکہ جب غلام کے اطمینان نفس کا یہ عالم ہے تو آقا کے اطمینان کا حق ہی ہیکہ نداء غیبی نفس مطمءنہ کا تاج کرامت عین حالت سجدہ میں اس طرح پہنا دے کہ سر تن سے جدا ہو بھی جایے تو نوک نیزہ کی بلندی سے اسکی آنکھوں میں اطمینان کی عبارت خوانی کی جا سکے دست عباس میں تلوار کی برق رفتاری کے باوجود خاموشی اگر اطمینان کی علامت ہے تو کٹے ہویے سر کی خون آلود نگاہوں کی چمک ،جبین اقدس پر استقامت کی دھمک ، لب و لہجہ میں آیات کی تلاوت ، رگ حیات کے انقطاع کے بعد بھی زندگی کا شعور ادا کرنے والی ذات کے اطمینان کو کیسے ادراک کے مختصر سے زاویہ میں سمیٹا جایے۔

قلم کی نوک مرتعش ہے ، فکر لرزہ بر اندام ہے، ذہن پر سکتہ کی کیفیت طاری ہے ، کاسہ ادب میں الفاظ کی قلت دامن گیر ہے، روشنایی مایل بہ خشکی ہے ، زبان لکنت پزیر ہے ، کیا بولو؟ کیا لکھوں ؟ کیسے لکھوں ؟ اس منظر کا پس منظر جو صرف چشم تاریخ نے دیکھا ہے کلک قلم نے لکھنے کی کوشش کی ہے صفحہ قرطاس نے اپنے دامن میں سمونے کا ارادہ کیا ہے پر حقیقت تحریر سے سب کچھ عاجز نظر آتا ہے
اٹھارہ بنی ہاشم کے جوان
اٹھار ذوالفقاروں کا عفان
سب کے حوصلوں کا ترجمان
نمایندہ محمدی کا سلمان
ذات ولایت کا قرت العین
نسبی اعتبار سے شجاعتوں کا عمران
وادی ذر کا عہد و پیمان

عصمتوں طھارتوں میں جو بڑھا پروان چڑھا وہی بندہ رحمان جس نے ایک فرمان پر اپنی جان قربان کردی
اخوت و بھاءی چارگی کی لاج کیسے رکھی جاتی ہے چشم تاریخ کو غازی و غضنفر کا کردار دیکھنا چاہیے آج کا سماج جو حصول دولت وثروت، شہرت و عروج کی طلب ، آسایش حیات کے چکر میں رشتوں کی عظمت بھلا بیٹھا ہے اسے باب الحوایج کی ولادت کی تاریخ میں متوجہ ہونا چاہیے کہ بھاءی کو بھاءی کے لیے کیسا ہونا چاہیے بڑا ہو تو مولا حسین جیسا اور چھوٹا ہو تو چھوٹے حضرت جیسا
کہاں ہیں دعاؤوں اور مناجات میں چھوٹے حضرت سے گوہار لگانے والے ؟ کہاں ہیں آپ کی بارگاہ عالی وقار میں کاسہ طلب رکھنے والے ؟ کہاں ہیں آپ کے سخی دربار میں جھولیاں پھیلانے والے؟ کہاں ہیں آپ کی سلطنت وفا میں دامن پسارنے والے ؟

کیا انھوں نے طلب سے پہلے اپنے رشتوں کے لہو کی طلب کو پورا کیا؟ کیا انکی عطش کو سیراب کیا ؟ کیا انکی ضرورتوں کو پورا کرنے کی سعی پیہم کی ؟
کیا انھوں نے اپنے عزیزوں اقارب کے حقوق واجبہ ادا کیے؟
کیا انھوں نے اپنے چھوٹے بھاءی کی طلب کو بورا کیا ؟
کیا انھوں نے اپنے برادر بزرگ کا احترام واقعی کیا ؟
یہ سوالات میرے نہیں ہیں مگر شاید عدالت باب الحوایج میں کیے جاءیں جب ہم طلب کے لیے دامن پساریں دعا و مناجات کے آداب و اسلوب ہوں یا شرط و شروط رعایت تو سب کی کرنا ہی پڑیگی اگر آج کے دن بھی معاشرے میں بھاءیوں کے ادب و تہذیب کا رواج نہ ہوا آج کے دن بھی ہم بھاءیوں سے روٹھے رہے تو غازی سے نظریں کیسے ملاینگے لمحہ فکریہ ہے !

انا کے صنم کو توڑو اور ٹوٹے ہویے رشتوں کو جوڑو کے یہی چار شعبان کی حقیقی عیدی ہے بالخصوص برادران حقیقی و نسبی و ایمانی کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا تاکہ شجاعت کی ولادت پر محبت کے دیپ جلانے جا سکیں شہنشاہ وفا کی مملکت میں وفاداریوں کا چراغاں کیا جایے اور الفتوں کی شیرنی سماج میں بانٹ کر معنوی ولادت کا مفہوم سمجھا جا سکے دسترخوان اتحاد ملت پر سب کو نذر چکھنے کا حق ہونا چاہیے۔

جری و دلیر کی ولادت پر صبر و ضبط کا مظاہرہ ہی تاریخ کی طلب ہے۔ رب کریم ہم سب کو باب الحوایج کی بارگاہ عالی وقار سے شعور وادراک کی دولت عطا فرمایے رشتوں کی آبرو کا بھرم رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین یا رب العالمین
https://taghribnews.com/vdcaimnmy49nae1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ