تاریخ شائع کریں2024 26 May گھنٹہ 15:30
خبر کا کوڈ : 636889

عالمی برادری اور اسرائیل کی تنہائی/ ایرانی کی سفارتی کوشش

بلاشبہ غزہ کی پٹی پر غاصبانہ قبضے میں صیہونی حکومت کی ناکامیوں کی فہرست لمبی ہے اور اقتصادی بحران سرفہرست ہے۔ اگرچہ تل ابیب حکام اس معاشی بحران کے اعداد و شمار کو سنسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عالمی برادری اور اسرائیل کی تنہائی/ ایرانی کی سفارتی کوشش
ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کے اقدامات کے سائے میں صیہونی حکومت کی بین الاقوامی میدان میں تنہائی اور ایک عرب ملک کی ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش عرب دنیا کے اخبارات کی توجہ کا مزکز بن گئی۔

صیہونی حکومت کے خلاف عالمی اقدامات بالخصوص بین الاقوامی فوجداری عدالت میں امریکہ کی حمایت کی وجہ سے عمل درآمد نہ ہوسکا لیکن اس سے کم از کم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری اب صیہونیوں کی جھوٹی افواہوں اور تمام بین الاقوامی قوانین سے ان کے استثنی کے دعوے پر توجہ نہیں دیتی۔ 

 عراقی روزنامہ المقارب نے " طوفان الاقصی نے صیہونی حکومت کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا" کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں لکھا ہے: بلاشبہ غزہ کی پٹی پر غاصبانہ قبضے میں صیہونی حکومت کی ناکامیوں کی فہرست لمبی ہے اور اقتصادی بحران سرفہرست ہے۔ اگرچہ تل ابیب حکام اس معاشی بحران کے اعداد و شمار کو سنسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان نقصانات کا حجم اس قدر زیادہ ہے کہ اسے آسانی چھپایا نہیں جا سکتا۔

روزنامہ القدس العربی نے صیہونی حکومت کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کے اقدام کی سیاسی وجوہات ہیں، جن میں صیہونیت مخالف رجحانات کا پھیلاؤ نہ صرف افریقی ممالک تک محدود ہے بلکہ یہ ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک اور یورپ کے قلب تک جاتا ہے۔ یہ ممالک اب صہیونی نسل پرستانہ موقف پر یقین نہیں رکھتے۔ صیہونی حکام کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر جنرل کی کوششیں شاید عملی طور پر نافذ نہ ہو سکیں لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری اب "اسرائیل کے استثنی" نامی جھوٹ پر توجہ نہیں دیتی۔

تیونس کے روزنامہ رائ الیوم نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: تیونس کے صدر کا ایران کا سفر اور اس ملک کی ایک اعلیٰ سیاسی اور مذہبی شخصیت یعنی امام خامنہ ای سے ملاقات کئی اہم پیغامات کا حامل ہے۔ جن میں تیونس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی، مغرب کے ساتھ مکمل جانبداری کا خاتمہ، تیونس کی اپنے بین الاقوامی تعلقات کو متنوع بنانے کی خواہش، سیاسی فیصلوں میں زیادہ آزادی، مشرق اور مغرب کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنا اور تیونس کی آزادی کے حوالے سے مغربی ممالک کو پیغام دینا شامل ہے۔

لبنانی روزنامہ الاخبار نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے بارے میں لکھا کہ فوجداری عدالت کی کارروائی سے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی کابینہ پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ غزہ میں فوجی جارحیت کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔ اس اقدام کو صیہونی حکومت کے خلاف سیاسی اور سفارتی دھچکا سمجھا جاتا ہے۔ ایک ایسی حکومت جو ان دنوں شدید بین الاقوامی تنہائی کا مشاہدہ کر رہی ہے۔

روزنامہ الثورۃ نے "تسلیم ڈومینوز" کی سرخی کے تحت لکھا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عمل عالمی حلقوں میں سیاسی وزن رکھنے والے ممالک سمیت کئی ممالک میں ڈومینو کی طرح پھیل رہا ہے۔ اسپین، ناروے اور آئرلینڈ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے آخری ممالک نہیں ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ غزہ کے خلاف جنگ نے کئی پوشیدہ سچائیوں کو آشکار کر دیا ہے۔ اس ڈومینو نے صیہونی حکومت کے اندرونی بحرانوں کو اور بڑھا دیا ہے اور نیتن یاہو کی کابینہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

روزنامہ العربی الجدید نے بھی عالمی فوجداری عدالت کے بارے میں لکھا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی تاریخ میں پہلی بار ہم میڈیا کی لہر کا مشاہدہ کر رہے ہیں جب اٹارنی جنرل کی جانب سے مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی گئی۔

اس عدالت کے اٹارنی جنرل کا تعین امریکہ کی رائے اور حکم سے ہوتا ہے، اس لیے اس کی طرف سے کوئی ایسا اقدام جو امریکہ اور صیہونی حکومت کے خلاف ہو، واشنگٹن کی ہر جھنڈی کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اس کارروائی سے نیتن یاہو اور گیلنٹ کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ واشنگٹن رفح پر حملے کے خلاف تھا لیکن اس کے باوجود صہیونی حکام اپنے منصوبوں پر آگے بڑھ گئے۔ یہ بات واضح ہے کہ امریکہ رفح میں بڑے پیمانے پر مہم کے خلاف تھا اور لیکن "ہلکی" کشیدگی کو ترجیح دیتا تھا!

یمنی اخبار المسیرہ نے بھی آیت اللہ رئیسی کی شہادت کے بارے میں لکھا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ آیت اللہ رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ایران کے اندر تبدیلیوں کا سبب بنے گی اور مزاحمتی محور کی حمایت میں اس ملک کے کردار کو متاثر کر سکتی ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ایسے واقعات ایران کی سیاست کا رخ نہیں بدلیں گے۔ کیونکہ ملک کا نظام اور انقلابی تحریک افراد پر منحصر نہیں ہے بلکہ یہ ایک قرآنی اور الہی عمل ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ مزاحمتی قائدین کی شہادت اس راستے کو مزید تقویت دیتی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcjomemhuqetoz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ