تاریخ شائع کریں2024 3 April گھنٹہ 16:17
خبر کا کوڈ : 630429

ترکی میں میونسپل الیکشن،حکمران جماعت کو شدید شکست

گذشتہ دس مہینے، یعنی رجب طیب اردگان کی تیسری مدت صدارت میں ڈالر کی قیمت 20 لیرہ سے 32 لیرہ تک جا پہنچی ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں شہری افراط زر اور غربت کا شکار ہو گئے ہیں۔
ترکی میں میونسپل الیکشن،حکمران جماعت کو شدید شکست
تحریر: علی احمدی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز

 
حال ہی میں ترکی میں میونسپل الیکشن منعقد ہوئے ہیں جس میں رجب طیب اردگان کی سربراہی میں حکمران جماعت کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکمران پارٹی کے امیدوار تمام تر حکومتی سہولیات اور حمایت سے برخوردار ہونے کے باوجود اس الیکشن میں ناکامی کا شکار رہے ہیں۔ گذشتہ دو عشروں میں یہ پہلی بار ہے کہ حکمران جماعت انصاف و ترقی پارٹی میونسپل الیکشن میں برتری کھو چکی ہے اور کامیاب امیدواروں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ ترکی میں منعقد ہونے والے میونسپل الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف و ترقی پارٹی اور اردگان حکومت کے دعووں کے برعکس، ترکی کے عوام نے حکمران جماعت کے امیدواروں پر دوبارہ اعتماد کرنے سے گریز کیا ہے۔ میونسپل الیکشن میں 77 فیصد افراد نے حصلہ لیا جو گذشتہ 20 سال کے دوران الیکشن میں سب سے کم سطح کی شرکت ہے۔
 
کہا جا رہا ہے کہ حالیہ الیکشن میں کم ٹرن آوٹ کی بڑی وجہ مہنگائی، غربت اور حکومت اور حکمران جماعت کی ناقص کارکردگی پر عوام کا غم و غصہ ہے۔ حالیہ الیکشن میں حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کی کامیابی نے سب کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ الیکشن کے نتائج رجب طیب اردگان اور ان کی کابینہ کے حق میں سامنے نہیں آئے۔ اگرچہ حکمران جماعت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود اسے ایک بار پھر انقرہ اور استنبول کے میونسپل الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کے علاوہ دیگر کئی اہم اور اسٹریٹجک شہروں میں بھی حکومت مخالف سیاسی جماعتیں کامیاب ہوئی ہیں۔ انقرہ، استنبول، ازمیر، آنتولیا، مرسین اور دیگر کئی صوبوں میں رجب طیب اردگان کی سربراہی میں حکمران جماعت کو شکست ہوئی ہے۔
 
حکمران جماعت کی شکست کے باعث ترکی کی سب سے قدیم سیاسی جماعت، پیپلز ریپبلک پارٹی، ایک بار پھر طاقتور پوزیشن میں آ گئی ہے۔ سو سالہ تاریخ کی حامل پیپلز ریپبلک پارٹی اب یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ حتی مرکز میں بھی حکمران سیاسی جماعت کو شکست دے کر آئندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ انصاف و ترقی پارٹی یا آک پارٹی، اس وقت تشکیل پائی جب اسلام پسند جماعت، فضیلت، سے کچھ مغرب نواز عناصر علیحدہ ہوئے اور انہوں نے اپنی الگ جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ عناصر درحقیقت نجم الدین اربکان کے شاگرد تھے جو خود کو روشن خیال کہتے تھے اور ان کا جھکاو مغرب کی طرف تھا۔ وہ اپنے استاد کے برعکس، سیاسی اسلام کی ایک لبرل تفسیر پیش کرنے کے خواہاں تھے۔ ان کی نظر میں نجم الدین اربکان بنیاد پرست تھے اور وہ خود کو تجدد پسند سمجھتے تھے۔
 
یوں 2001ء میں عبداللہ گل، رجب طیب اردگان، بلینت آرنچ اور چند دیگر سیاسی رہنماوں نے نجم الدین اربکان سے علیحدگی اختیار کر کے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی جس کا نام آک پارٹی یا انصاف و ترقی پارٹی رکھ دیا گیا۔ 2002ء میں انصاف و ترقی پارٹی نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر کے حکومت تشکیل دے دی۔ گذشتہ 22 برس کے دوران انصاف و ترقی پارٹی ملک پر قابض ہے اور ترکی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ لیکن اب گذشتہ دو عشروں کے دوران پہلی بار انصاف و ترقی پارٹی کی پوزیشن متزلزل ہونا شروع ہو گئی ہے اور حالیہ الیکشن میں عوامی ووٹ حاصل کرنے کے لحاظ سے وہ ملک کی دوسری بڑی جماعت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ پیپلز ریپبلک پارٹی میونسپل الیکشن میں 37.74 فیصد ووٹ حاصل کر کے پہلی پوزیشن پر آ چکی ہے۔
 
دوسری طرف انصاف و ترقی پارٹی صرف 35.49 فیصد ووٹ حاصل کر پائی ہے۔ جبکہ 2019ء کے میونسپل الیکشن میں صورتحال یہ تھی کہ انصاف و ترقی پارٹی نے 43 فیصد اور پیپلز ریپبلک پارٹی نے صرف 26 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اسی طرح 2019ء میں انصاف و ترقی پارٹی نے 818 شہروں میں کامیابی حاصل کی اور اس کے میئر بنے لیکن حالیہ الیکشن میں صرف 505 شہروں میں کامیابی حاصل کر پائی ہے۔ 2019ء میں پیپلز ریپبلک پارٹی صرف 232 شہروں میں کامیاب ہوئی تھی لیکن حالیہ میونسپل الیکشن میں 420 شہروں میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ ترکی کے کل 81 صوبے ہیں جن میں 30 شہر بڑے اور اہم شہر تصور کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے 14 شہروں میں پیپلز ریپبلک پارٹی جبکہ 12 شہروں میں انصاف و ترقی پارٹی کامیاب ہوئی ہے۔
 
اس وقت رجب طیب اردگان کی سربراہی میں انصاف و ترقی پارٹی دو بڑے چیلنجز سے روبرو ہے؛ ایک اسے درپیش شدید اقتصادی بحران ہے۔ گذشتہ دس مہینے، یعنی رجب طیب اردگان کی تیسری مدت صدارت میں ڈالر کی قیمت 20 لیرہ سے 32 لیرہ تک جا پہنچی ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں شہری افراط زر اور غربت کا شکار ہو گئے ہیں۔ دوسرا چیلنج میونسپل الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونا اور انصاف و ترقی پارٹی کا ملک کی پہلی سیاسی جماعت سے گر کر دوسری پوزیشن میں آ جانا ہے۔ حکمران سیاسی جماعت کو ایسے حالات میں شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب تمام تر حکومتی سہولیات اور اختیارات اس کے حق میں تھے۔ لیکن اس کے باوجود آک پارٹی کو اپنی 23 سالہ تاریخ میں بدترین شکست کا سامنا ہوا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ لوکل الیکشن میں انصاف و ترقی پارٹی کی اس شکست کا ملک کے سیاسی حالات پر کیا اثر پڑتا ہے؟
https://taghribnews.com/vdcdxz09nyt0so6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ