تاریخ شائع کریں2024 31 March گھنٹہ 17:50
خبر کا کوڈ : 630083

مسئلہ فلسطین اور منڈیلا کے شاگردوں کا انسان دوست موقف

 جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں صیہونی حکومت پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا اور اس حکومت اور اس کے حامیوں کو درحقیقت ایک صدمے اور حیران کن قانونی حملے کا سامنا کرنا پڑا۔
مسئلہ فلسطین اور منڈیلا کے شاگردوں کا انسان دوست موقف
بشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی

جنوبی افریقہ نے نیلسن منڈیلا کی گراں قدر میراث سے الہام لیتے ہوئے صیہونی حکومت کے خلاف مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

2023ء میں افریقہ کے اہم ترین سیاسی واقعات میں سے ایک جنوبی افریقہ کی حکومت کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف شکایت درج کرانے کا قابل قدر اقدام تھا۔

 جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں صیہونی حکومت پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا اور اس حکومت اور اس کے حامیوں کو درحقیقت ایک صدمے اور حیران کن قانونی حملے کا سامنا کرنا پڑا۔

بین الاقوامی امور کے بہت سے ماہرین کے مطابق جنوبی افریقہ نے نیلسن منڈیلا کی گراں قدر میراث سے الہام لیتے ہوئے ایک مظلوم دوست اور ظالم ستیز ملک کے طور پر صیہونی حکومت کے خلاف شکایت درج کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

جنوبی افریقہ سے بھیجی گئی قانونی ٹیم نے صیہونی حکومت کی جانب سے 1948 کے نسل کشی کنونشن کی عدم تعمیل کا حساس مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھا کر اس رجیم کو عملی طور پر تباہ کن صورتحال میں ڈال دیا۔

مسئلہ فلسطین اور منڈیلا کے شاگردوں کا انسان دوست موقف

جنوبی افریقہ کی کارروائی کا ایک یادگار اور قابل تعریف پہلو یہ تھا کہ اس ملک کے صدر نے اپنی تقریر میں سیاہ فاموں کے خلاف مغربی ممالک کے ظلم و ستم کے شرمناک تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی حمایت میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر موقف اپنا کر دنیائے انسانیت کو جگایا۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کیپ ٹاؤن میں فلسطینی اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے "فٹ بال فار ہیومینٹی" کے نام سے کھیلے گئے میچ میں فٹ بال کے شائقین کے سامنے اعلان کیا کہ ہمارے ملک کے نسل پرستی کے مخالف رہنما نیلسن منڈیلا کے بیانات، ہمارے لیے ایک فکری اور روحانی ورثہ ہیں اور ہمیں ان کے الفاظ یاد ہیں جو انھوں نے کہا تھا: "جنوبی افریقہ کی آزادی فلسطینیوں کی آزادی پر منحصر ہے۔ جی ہاں! منڈیلا نے ہمیں سکھایا۔ ہماری آزادی اس وقت مکمل ہو گی جب فلسطین آزاد ہو گا۔

رامافوسا نے یہ بھی کہا کہ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور آزادی کے حصول کے لیے ان کی کوششوں اور جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مسئلہ فلسطین کے بارے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ملک کے عوام، حکومت اور افریقن نیشنل کانگریس آزادی کے راستے پر فلسطینی عوام کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔

منڈیلا کے پوتے نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم نے غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف میں شکایت درج کرکے ایک تاریخی اور غیر معمولی قدم اٹھایا ہے۔

نیلسن منڈیلا کے نوجوان پوتے زولولیلا منڈیلا نے بھی اپنے ملک کی قانونی کارروائی کے بعد فلسطینی اسکارف پہن کر صحافیوں سے بات گفتگو کرتے ہوئے کہا: "غزہ میں ہونے والے واقعات مغربی ممالک کے جابرانہ سامراجی طرز سیاست اور منافقانہ پالیسیوں کی واضح اور شرمناک مثال ہیں۔

 ان سب نے ولادیمیر پیوٹن اور روس پر پابندی عائد کرنے پر اتفاق کیا لیکن یہ اسرائیل کے نسل پرست نظام کے خلاف مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے جرائم پیشہ انتہا پسند وزراء کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی ہمت تک نہیں کی۔

منڈیلا کے پوتے نے بھی صیہونی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کے بارے میں کہا: "جنوبی افریقہ کی ٹیم ایک غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے اسرائیل کے مقدمے اور سزا کا مطالبہ کرنے میں کامیاب رہی۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے غزہ کی پٹی اور پورے فلسطین میں بڑے پیمانے پر قتل عام، نسل کشی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

اب میرے ملک میں ایک ایسی نسل ہے جو فلسطین کی آزادی کے لیے منڈیلا کے وعدوں اور نظریات پر کاربند ہے۔

جب صہیونیوں کا دباؤ کام نہ آیا

امریکہ، اسرائیل اور صیہونیت کے بعض یورپی حامیوں کے واضح دباؤ کے باوجود، جنوری 2024 میں ایک عارضی فیصلے میں اس عدالت نے جنوبی افریقہ کے مقدمہ کو قابل قبول شکایت قرار دیتے ہوئے صیہونی حکومت کو جلد از جلد نسل کشی روکنے کا حکم دیا۔ 

عدالت نے غزہ کے شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھی کہا۔

جنوبی افریقہ کے اس اقدام کے بعد بہت سے عالمی میڈیا کے تجزیہ کاروں کی طرف سے یہ یقین پیدا ہوا کہ جنوبی افریقہ کا قابل قدر اقدام فلسطینی کاز کے لیے افریقیوں کی حمایت کا وعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ جنوبی افریقہ نے مسئلہ فلسطین کی قانونی چارہ جوئی کے لئے عرب ممالک سے بھی زیادہ مؤثر طریقے سے کام کیا ہے۔

جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ محترمہ نالڈی پانڈور نے اعلان کیا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ ایک شاندار کامیابی اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک قابل قدر فتح ہے اور اس فیصلے کا جاری ہونا فلسطینیوں کے لیے انصاف کے حصول کی جانب ایک قدم ہو گا۔ پانڈور نے جنوبی افریقہ کے مغربی ناقدین کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہیگ ٹریبونل کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ درحقیقت غزہ کی پٹی میں شہریوں کے خلاف نسل کشی ہوئی ہے اور ہمیں اسے روکنا چاہیے۔ کیونکہ بین الاقوامی یکجہتی کے اصول کی بنیاد پر غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔

صیہونی حکومت کے حکام جنوبی افریقہ کے قانونی اور انسانی اقدام سے ناراض اور مایوس تھے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ اسرائیلیوں نے بھی جنوبی افریقہ کی کارروائی کی حمایت کی۔

ان لوگوں میں سے ایک صہیونی پارلیمنٹ میں اوفر کاسیف تھا جس نے کھلے عام اعلان کیا: جنوبی افریقہ کی قانونی ٹیم کی طرف سے تیار کردہ متن قابل قبول انسانی اور قانونی شقوں کا حامل ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان بیانات کی وجہ سے صیہونی حکومت کے مذہبی "قومی" اتحاد کے نمائندوں نے اس نمائندے کو ملک بدر کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن 120 نمائندوں میں سے صرف 85 افراد نے ووٹ دیا اور اس طرح مذکورہ نمائندے نے اپنا عہدہ برقرار رکھا۔

امریکہ کو جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست

جنوبی افریقہ کی حکومت کا دانش مندانہ اقدام بین الاقوامی ردعمل کی ایک مثال تھا جس کی صیہونی حکومت کے سب سے بڑے حامی ہونے کے ناطے امریکہ کو توقع نہیں تھی اور وہ حیرت زدہ تھا۔ 

یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن کی حکومت بہت جلد متحرک ہوگئی تاکہ جنوبی افریقہ کو شکایت درج کرنے سے باز رکھنے کے لئے سودے بازی، رعایتیں دینے یا دھمکیوں کی زبان استعمال کرکے اس کیس کی پیروی کرنے سے روکا جاسکے۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے جنوبی افریقی حکام سے بارہا کہا کہ وہ اپنے اقدامات سے باز آجائیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ تاہم، انہوں نے دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے سے چند گھنٹے قبل اپنی ہم منصب نالڈی پانڈور کے ساتھ بات چیت بھی کی تھی۔ لیکن یہ گفتگو کارگر ثابت نہ ہوئی اور پھر بلنکن نے میڈیا سے کہا: ’’انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں تل ابیب کے خلاف شکایت کامیاب نہیں ہوگی۔‘‘ امریکہ اور صیہونی حکومت کے دوسرے حامیوں کی خواہشات کے برعکس جنوبی افریقہ عدل و انصاف کی آواز پر توجہ دینے کا سبب بنا اور اس طرح غزہ کے مظلوم عوام کے لیے اس ملک کی حمایت ایک اہم سنگ میل بن گئی۔ 

بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کے بارے میں دنیا کے ذرائع ابلاغ نے جنوبی افریقہ کے دو سیاستدانوں کے دو اہم پیغامات شائع کیے جو بلا شبہ تاریخ میں ثبت ہوں گے۔

جنوبی افریقہ کی حکمراں افریقن نیشنل کانگریس پارٹی کے سیکرٹری جنرل فکیلے مبالولا نے کہا: "یہ فیصلہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک یادگار سنگ میل ہے جو فلسطین میں امن دیکھنا چاہتے ہیں۔"

اس کے علاوہ، جنوبی افریقہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان، کلیسن مونییلا نے اپنے ایکس اکاونٹ پر لکھا:  تاریخ کو یہ بات اپنے دامن میں محفوظ کرنے دیں کہ جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی سطح پر جرائم کی عدم تکرار کی شرط کو معنی دینے میں سبقت حاصل کی۔  جی ہاں! فلسطینی عوام کو جینے کا حق ہے۔"
https://taghribnews.com/vdcjoyemtuqetyz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ