حتمی نقطہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کسی ملک کی اتھارٹی کا مطلب اس کی دفاعی طاقت کا عقلی استعمال ہے۔ دوسری صورت میں، یہ اختیار اور ابتکار عمل ایک ننگی طاقت اور قوت بن جاتا ہے.
سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں، ’یہ فلسطینیوں اور مسلم امہ کو ایک متاثر کُن پیغام بھی دیتا ہے کہ کم از کم ایک مسلم ملک تو ایسا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں کترائے گا‘۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کل رات کا حملہ یک جہتی نہیں تھا۔ کل سہ پہر ایک اسرائیلی تجارتی جہاز کو ایران نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ مقبوضہ علاقوں میں بجلی منقطع ہوگئی اور جہاز رانی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ نیز اس حملے میں ڈرون اور میزائل بیک وقت استعمال کیے گئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی اور سپریم کمانڈر انچیف نے تل ابیب کی اس کارروائی کو اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر حملہ قرار دیا اور تاکید کی کہ صیہونی حکومت کو "سزا" دی جائے گی۔
فلسطینی عوام سے ہمدردی کرنے والے اکثر یہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکل جانا چاہیئے، لیکن جب غزہ کے لوگوں سے بات کی جائے تو ان کا حوصلہ اور عزم غزہ سے باہر رہنے والوں سے ہزار گنا بلند ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت فقط حماس نہیں بلکہ غزہ کے تمام باسی اپنی سالمیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دو بدو جنگ، اسرائیلی افواج پر حملے آخری فلسطینی تک جاری رہیں گے۔
خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد انھی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے، جس نے شروع دن سے اسراٸیل کو تسلیم نہیں کیا اور اس کی عوام اپنے بعض حکمرانوں کے اسراٸیل کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے اور اپنے دل میں اس کے وجود کو تسلیم کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اسراٸیل کے وجود سے شدید نفرت کرتی ہے۔
آپ نے جوانی میں ایک گروہ بنام ’’حزب الدعوۃ الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ اقدام اس زمانے کی ظرفیت اور تقاضوں اور خاص طور سے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ان دنوں موجود سیاسی سطح فکر کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کے عمیق سیاسی شعور کی غمازی کرتا ہے۔
صیہونی قومی سلامتی کونسل کا سابق مشیر: ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔ اسرائیل اسٹریٹجک لحاظ سے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد سید حیدر صدر مرجع تقلید میں سے تھے۔ اپنے زمانہ کے یگانہ انسان اور زہد و تقویٰ کا مظہر تھے۔ ان کا انتقال 1356ھ میں ہوا۔ شہید کی والدہ مرحوم آیت اللہ شیخ عبدالحسین آل یسٰین کی بیٹی تھیں۔
لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور وہ اسراٸیل جو اس سے قبل عرب دنیا کی اجتماعی افواج کو شکست دے چکا تھا، حزب اللہ کے چند ہزار جوانوں کے ہاتھوں تار عنکبوت ثابت ہوا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یہ ہولناک حملہ شام کے دارالحکومت میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتی تنصیبات پر نسل کشی کرنے والی صیہونی حکومت کے نفرت انگیز دہشت گردانہ حملے کے صرف دو دن بعد ہوا ہے۔
لیکن نیتن یاہو بخوبی جانتا ہے کہ یہ زمینی حملہ ممکن ہے اس کی سیاسی زندگی کا اختتام اور حتی غاصب صیہونی رژیم کے وجود کے خاتمے کا آغاز ثابت ہو۔ اس بات کیلئے بہت سے دلائل پائے جاتے ہیں جنہیں مختصر طور پر درج ذیل صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
ایران تو پینتالیس برس سے پابندیوں کا عادی ہے، انہی پابندیوں میں اس نے اپنی فوجی و دفاعی ترقی کے مینار کھڑے کیے، جس کے باعث امریکہ و اسرائیل کو اس پر ڈائریکٹ حملہ کی جرات کبھی نہیں ہوسکی۔
دمشق میں صیہونیوں کے اس بے شرمانہ مجرمانہ اقدام کی وجوہات کے بارے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی عقلمند انسان اس دہشت گردانہ اقدام کو میدان جنگ میں اسرائیل کی فوجی برتری یا بہت بڑی کامیابی قرار نہیں دے سکتا۔
اگرچہ نیپالی حکومت کے پاس روس میں لڑنے والے نیپالیوں کی صحیح تعداد نہیں ہے، وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے اندازہ لگایا ہے کہ 2023 کے آخر تک 200 نیپالی روس میں لڑ رہے تھے۔
یہودیوں یا صہیونیوں کی فلسطین میں آبادکاری کا سلسلہ نیا نہ تھا، سلطنت عثمانیہ میں سلطان عبد الحمید کے زمانے سے ہی یہودی فلسطین کے علاقے میں آنا شروع ہوچکے تھے۔
عالمی یوم القدس کے موقع پر اپنی تیاریوں اور منصوبوں کا اعلان کیا ہے اور وہ اپنے پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوشل اور آزاد میڈیا کو بہترین طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔
شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر حسین اکبری کے مطابق صیہونی فوج نے تین میزائلوں سے ان کی رہائشگاہ کو نشانہ بنایا۔ حالیہ چند مہینوں میں غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے ایرانی کمانڈر شہید جنرل صادق امید زادہ اور ان کے نائب شہید حاج محرم تھے۔
الجزیرہ نے کہا ہے کہ امریکی تعلیمی اداروں میں صہیونی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شدت آرہی ہے۔ مظاہروں کا دائرہ پھیلتے ہوئے نارتھ کیرولینا تک پہنچ گیا ہے۔