تاریخ شائع کریں2012 4 July گھنٹہ 20:28
خبر کا کوڈ : 100869
اتحاد اسلامی کے منشور کی روشنی میں:

ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام02 دوسری نشست

تنا(TNA)برصغیر بیورو
جے کے چینل اور نالج چینل کشمیر پر جمعہ ۲۲جون ۲۰۱۲سے عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کی طرف سے اتحاد اسلامی کے منشور کی روشنی میں ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام کے نام سے آغاز ہوا ۔ محفل مذاکرہ کے میزبان کشمیر میں تقریب مذاھب اسلامی جمہوری اسلامی ایران کے نمایندے اور برصغیر کیلئے تقریب خبررساں ادارے(تنا) کے بیورو چیف حجت الاسلام والمسلمین حاج عبدالحسین موسوی کشمیری نے درس اسلام کی دوسری محفل کی دوسری اور آخری نشست مباحثے کو آگے بڑھایا۔
ھفتہ وار محفل مذاکرہ درس اسلام02 دوسری نشست
درس اسلام کی دوسری محفل کی دوسری نشسست:
عبدالحسین: جس طرح ابھی سید محمد حسین صاحب نے یہ کہا کہ جو نائب امام کے حکم سے سر پیچی کرے اس کو ایک شیعہ نمائند تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ میں یہ چاہوں گا کہ جناب میر واعظ صاحب ہمیں بتائے کہ اہلسنت حضرات میں بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جو شیعہ مقدسات کی اس طرح توہین کرتے ہیں جس سے صرف انتشار کو ہی جنم ملتا ہے اور اس اسلامی معاشرے کو خراب کرنے کے لئے بگاڑنے کے لئے ایک فضا قائم کی جاتی ہے اس کی روک تھام کے لئے کیا کچھ کرنا چاہئے؟ 

میر واعظ سید عبدالطیف: بات یہ ہے کہ چاہئے سنی ہو یا شیعہ ہو ہمیں ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ نہ سنی کو اجازت ہے نہ شیعہ کو اجازت ہے جیسا کہ آپ نے وضاحت فرمائی، تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ اب اگر کوئی اس کا مرتکب ہوتا ہے اور اس بنیاد پر تفرقہ پیدا کرتا ہے تو وہ قرآن کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے، حکم کی عدولی کرتا ہے۔ قرآن میں جس طرح یہ حکم ہے کہ"َ أَقيمُوا الصَّلاةَ" یعنی نماز قائم کرو۔ اسی طرح یہ حکم بھی ہے کہ"وَ لا تَفَرَّقُوا" جس طرح یہ حکم ہے کہ"وَ لا تَقْرَبُوا الزِّنى‏ " زنا کے قریب مت جاؤ۔ اسی طرح یہ حکم بھی ہے کہ"وَ لا تَفَرَّقُوا" تفرقہ برپا مت کرو۔ اور تفرقہ برپا کرنا حرام ہے۔ تو جب کوئی حرام کا ارتکاب کرے چاہئے وہ سنی ہو یا وہ شیعہ ہو تو اس کا یہ کام مذمت کے قابل ہے۔ تو جب ہم دیکھتے ہیں اس وقت ہمیں اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے اور اسلام نے جو اتحاد کو ایک بنیاد کی حیثیت سے مذہب میں رکھا ہے۔ یہ کوئی فروعی چیز نہیں کہ ہم باہم متفق رہیں نہ رہیں بلکہ یہ ایک اساسی بات ہے، بنیادی بات ہے۔ کیونکہ قرآن میں جگہ جگہ ہے کہ "وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا "یہ بھی بار بار ہے کہ تنازعہ مت کرو ۔ تو یہ قرآن کے جو احکام ہمیں ملتے ہیں بار بار قرآن میں ملتے ہیں، احادیث میں ملتے ہیں مثلاً نبی کریم (ص) نے فرمایا کہ"الجماعۃ الرحمہ و الفرقۃ عذاب" یعنی جماعت رحمت ہے اور فرقت و تفرقہ برپا کرنا یہ تو ایک عذاب ہے۔ اس سے قوم کی جو مجموعی طاقت ہے یہ تو کمزور ہوجاتی ہے ۔ 

عبدالحسین:پکڑ کہاں پر ہوگی!
میر واعظ :اور پکڑ کے بارے میں یہ ہے کہ ہم کو عوام کو جاگروپ کرنا ہے، عوام کو ہوشیار کرنا ہے کہ جو لوگ تفرقہ برپا کرتے ہیں وہ اسلام کے دشمن ہیں، وہ اسلام کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ تو جس طرح آپ کہتے ہیں کہ وہ شیعہ نہیں ہے۔ 

عبدالحسین: شیعہ نہیں ہے سےمراد یہ ہے کہ وہ شیعہ نمائندہ نہیں ہے وہ تشیع کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔
میرواعظ: تو ہم یہ کہتے ہیں کہ جس طرح ایک مکھی ہے وہ گندھگی پر ہی پلتی ہے تو اسی طرح کچھ لوگ نفرت سے ہی غذا لیتے ہیں اس لئے وہ لوگوں میں نفرت ہی پیدا کرتے ہیں ،لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں اور یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو ارشادات ہیں اس کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ میں نے پچھلی نشست میں بھی کہا کہ ایمان کی تکمیل تب تک نہیں ہوتی جب تک نہ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ تو جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو معاشرہ تشکیل دیا ہے جب ہم اس پر نظر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جُٹ جانے کی یعنی اشتراک کی بہت سی وجہ ہیں۔ مثلا کہیں رنگ کا اشتراک لوگوں کو جمع کرتا ہے ، کہی نسل کا اشتراک لوگوں کو جمع کرتا ہے، کہی وطن کا اشتراک لوگوں کو جمع کرتا ہے لیکن جو مسلمان ہے ان میں اشتراک کی جو چیز ہے وہ کلمہ"لااله اله اللہ محمّد الرّسول اللہ" تو اسی پر ہم کو متفق ہونا ہے اور ہمیں ایک مثبت طریقہ اپنانا ہے، ہمیں دوسرے مسلک اگر ہم اپنا موقف واضح کرنا ہو یا اپنے مسلک کی وضاحت کرنی ہو تو ہمیں ایک مثبت طریقہ اختیار کرنا چاہئے ، کوئی اشتعال انگیز جس سے دوسرے کی جذبات مجروح ہوجائے یا دوسرے لوگ مشتعل ہوجائیں تو ایسے بیانات سے ایسی باتوں سے ہمیں گریز کرنا چاہئے۔ 

عبدالحسین: کیونکہ ہمیں دراصل ان مسائل کی طرف مرکوز ہونے کی ضرورت ہے کہ جن سے جو معاشرے میں غیر اسلامی ثقافت کہئے ،ماحول کہئے جسے اسلام کا دور کا بیو واسطہ نہیں ہے۔ جو خرابیاں ہمارے سماج میں پائی جاتی ہیں ان کی اصلاح کے لئے فکر مرکوز کرنی ہے اس سے پہلے کہ جو بنیادی باتیں ہیں جو فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔ میں مولانا غلام محمد صاحب آپ سے جاننا چاہوں گا کہ میں نے میر واعظ صاحب سے یہی سوال کیا تھا کہ آپ بتائیے کہ جس طرح ہم نے ابھی شیعوں کی بات کی کہ اگر کسی ایک شیعہ نےگرچہ ہر چند عالم نما کی شکل میں، اس پر ایک پکڑ رہی اسکی بات شیعہ عقیدے کی ترجمانی کہلانے کیلئے اور پرکھنے کیلئے معیار سامنے آیا گیا کہ جو کچھ اس نے کہا کیا اسے شیعہ عقیدہ کہا جاسکتا ہے کہ نہیں ۔اگر اہلسنت ایسا کچھ کرتا ہے اس کو اکاؤنٹیبل بنانے کے لئے ، اس کے لئےایسا کوئی ہے فارمولہ؟ 

امام جمعہ مسجد امام اعظم لاوے پورہ: میں عرض کرونگا یہ کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عرصے سے ہمارے یہاں پر اسلامی نظام قائم نہیں ہے۔ نظام سے مراد حکومتی نطام۔ تو اگر ایسا کچھ ہوگا حکومتی نظام میں اسلام کا نظام ہوگا۔ تو یہ لوگ سزا کے مستحق ہیں۔ چونکہ ایسا نہیں ہے۔اوریہی تو سب سے بڑی بات ہے کہ ہم افتراق کا شکار ہوگئے ہیں ۔ اب میری جو دانستہ ہے ایسا ہے کہ حضرت رسول اکرم (صیا اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان ہے"الفاطمۃ بضعۃ منی فمن آذاہ فقد آذانی" میرے جسم کا ٹکڑا فاطمہ (علیہا السلام) ہیں جس نے اس کو تکلیف پہنچائی تو اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔"الحسن و الحسنی سیدا شباب اھل الجنۃ" حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ یہ تو اہلسنت عقائد ہیں، اہلسنت نظریات ہیں۔ تو اس موقع پر ضرورت اس بات کی ہے علماء کی میں بات کرتا ہوں ، ان کا یہ فرض بنتا ہے ، بڑی تاکید کے ساتھ یہ لوگوں تک یہ بات پہنچائیں کہ اگر کوئی بھی یہ کرتا ہے تو شاید یہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ 

عبدالحسین: تو کیا ایک علمی مرکزیت کی ضرورت ہے جس سے تفرقہ کا سلسلہ تھم جائے اور اتحاد ویکجہتی کا سلسلہ شروع ہو جائے،اس سلسلہ کے لئے کیا کچھ کرنا چاہئے؟ 

مولانا غلام محمد پرے صاحب: بالکل کوششیں ہونی چاہئے ایسا کچھ وجود میں لایا جائے۔ 

عبدالحسین: جیسے کہ میں نے ابھی آپ سے علمی مرکزیت کے بارے میں پوچھا،کیا جس طرح شیعوں کے پاس ایک علمی مرکزیت ہے اہلسنت کے پاس اس کا فقدان ہے کہ نہیں۔ 

مولانا غلام محمد پرے صاحب: دیکھئے ابھی آپ نے علامہ یوسف قرضاوی کا بھی ذکر کیا،ہیں تو ضرور۔ لیکن ابھی یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ شیعہ حضرات سید علی خامنہ ای جو آج کے مرجع ہیں عالم اسلام میں تو ہمارے یہاں بھی بہت سے لوگ ہیں ، یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اہلسنت والجماعت اپنے اپنے فرقوں میں بٹ گئی ہے، اب اپنے اپنے مولویوں اور اپنے اپنے عالم کا مانتے ہیں۔ تبھی تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اسٹیج پر ، اس موقع پر ، تو کہیں پر بیٹھنے کی، کہیں پر جمع ہونے کی اور ان مسائل کا حل نکالنے کی یہ جو لےمین ہوتے ہیں عام لوگ ہوتے ہیں ۔ 

عبدالحسین: لیکن یہ پہلو ہمارے مباحثے سے خارج ہے میں یہ ایک سوال آپ تینوں حضرات سے کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ ہمیں شیعہ ہو ںیا سنی ، ہم نے یہاں ایک ایسا فرہنگ اور ثقافت بنائی رکھی ہے۔جسطرح کہ پچھلی ایک نشست میں ایک ایسی بات بھی چلی مفتی اعظم صاحب نے کئی اشارے کئے کہ ہمارے جوار میں ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں کہ جس سے اسلام اور مسلمانوں کا سر شرم سے جھکتا ہے ۔ مگر الحمد للہ کشمیر میں ویسی فضا نہیں ہے ،یہاں ایک دوسرے کا احترام شیعہ سنی بہت اس کا خیال رکھتے ہیں ۔ اس بات پر میں تینوں حضرات سے سوال کرونگا کہ ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے۔ وقفہ

درس اسلام کی دوسری محفل کی آخری نشسست:
عبدالحسین :ابھی(وقفے سے پہلے) ہم نے بات کی کہ تینوں حضرات سے سوال کریں گے کہ ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے۔ابھی جو کچھ ہم دیکھتے ہیں کہ میں شیعہ محفل میں بیٹھا ہوں مگر سنی مسلک کی توہین کرتا ہوں کہ وہ یہاں پر غلط کرتے ہیں وہاں پر غلط کرتے ہیں آپ اپنی سنی محفل میں بیٹھ کے کتے ہیں کہ شیعہ وہاں پر غلط ہے یہاں پر غلط ہے ۔ ہونا کیا چاہئے تھا اور کیا کچھ کرنا ضروری ہے اس بارے میں عملی طور پر ۔جی پہلے جناب میر واعظ صاحب سے؟ 

میرواعظ وسطی کشمیر سید عبدالطیف بخاری صاحب: میں نے پہلے ہی کہا کہ علماء کی ایک شوریٰ منعقد کرنی چاہئے ، کوئی محفل منعقد کرنی چاہئے، تو جہاں پر ہم پہلے جو اتفاق کے دائرے ہیں ان کی نشاندہی کریں، مشترک باتوں کی نشاندہی کریں، پھر ہمیں ایک حکمت عملی طے کرنی ہے کہ ہم اس پروگرام پر کیسے عمل کریں۔ تو جب اس طرح کا کوئی پروگرام بنے گا علماء اس میں پیش قدمی کرینگے ۔ تو میرا خیال ہے کہ پھر ایسی باتیں نہیں ہونگی۔ تو دراصل ہم برسوں سے تنزل کے شکار ہیں ہمارے پاس ایسا کوئی نظم و ضبط نہیں ہے ، کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے کہ جو ہم سب کو متحد کر لے۔ اس لئے ہم بار بار انتشار کے شکار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ میں نے پچھلی بار بھی کہا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ مسلمانوں کو جماعت بن کے رہنا ہے جس میں سمع و اطاعت اسلام نے لازم قرار دیا ہے اور جماعت سے جو الگ رہے تو حدیث میں ہے کہ وہ جاہلیت کی موت مرے گا تو اس لئے ہم کو اگر ہم بڑی سطح پر نہیں تو کم از کم ہم کشمیر کی سطح پر تو کوئی ایسی مجلس ہونی چاہئے ،کوئی ایسا بااختیار ادارہ ہونا چاہئے جس میں علماء بیٹھیں اور وہ اختلافی امور کے سلسلے میں ایک دائرہ کار متعین کریں اور کہاں ہم کو اختلاف کرنا ہے ، کہاں اشتراک کرنا ہے، جو اشتراکی باتیں ہیں ہم کو ان ہی پر زور دینا چاہئے ، انہی کو بنیاد بنانا چاہئے اور اگر کہیں اختلاف بھی رہے تو اس کے باوجود ہم کو متحد ہو کر کام کرنا چاہئے۔ 

عبدالحسین: بہت عمدہ ،یہی سوال مولانا سید حسین صاحب سے آپ سے جاننا چاہوں گا کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ 

حجت الاسلام والمسلمین سید محمد حسین موسوی صاحب: میں عرض کرتا ہوں اس بارے میں کہ اولاً" قُومُوا لِلَّهِ قانِتينَ" برائے خدا ہونا چاہئے۔ اس میں مجھے اپنی شیعیت کا غرض نہیں ہونا چاہئے کسی دوسرے کو اپنی سنیت کا بلکہ"لِوَجْهِ اللَّهِ" ہونا چاہئے۔ جب کوئی بھی مجلس شوریٰ لوجہ اللہ ہو ، آپس میں شوریٰ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں قوم میں جانا ہوگا مجلسوں میں جانا ہوگا،اہلسنت کے علماء کرام ہمارے مجلسوں میں آئینگے اور ہمارے لوگوں کے سامنے خطابت کرینگے اور ہم کو یہ بلائینگے ہم ان کے مجلسوں میں جائینگے تاکہ جو عوام کے ذہن خراب کئے گئے ہیں کچھ لوگ یا ان میں کچھ زہر بھر دیا گیا ہے اس کو نکال کر یہ آپسی رنجش اور فتنہ ختم ہوجائے گا۔ 

عبدالحسین:بہت خوب، مولانا(غلام محمد پرے صاحب) آپ سے جاننا چاہوں گا؟ 

امام جمعہ مسجد امام اعظم لاوے پورہ مولانا غلام محمد پرےصاحب:انہوں نے بجا فرمایا یہ سب چیزیں تو اخلاص کے بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اسلئے ہونا چاہئے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے۔ نہیں تو زبانی خرچ ہو تو اس سےکوئی کام بننے والا نہیں ہے۔ نہیں تو کہا گیا ہے علامہ اقبال نے کہا ہے: 

شجر ہے فرقہ آرائی تعصب ہے ثمر اس کا--------یہ وہ پھل ہے جو آدم کو نکلواتا ہے جنت سے 

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کوشش ہونی چاہئے ۔ اگر بڑی سطح پر نہ ہو لیکن نچلی سطح پر ہو ، خلوص سے ہو۔ بس اللہ کو راضی کرنے کے لئے اور عوام میں جا کر کے ان سے دست بستہ یہ عرض کیا جائے کہ اب اختلافات اور افتراقات کا زمانہ گیا ہے اب اتحاد کا زمانہ ہے۔ اب تو اگر آپ کے اعتقاد کے مطابق امام مہدی (عج) یا ہمارے اعتقاد کے مطابق وہ آنے والے ہیں وہ آنے والے ہیں ضرور ہم بھی اللہ تعالیٰ کے نصرت سے ان کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ پورے عالم میں اسلام کی ہوائیں چلے گی۔ 

عبدالحسین:"الھم عجل لولیک الفرج" میں آپ حضرات کا بہت شکر گذار ہوں آپ نے جس طریقے سے روشنی ڈالی ظاہر سی بات سامنے آگئی ہے کہ اگر شیعہ اپنے ماحول میں بیٹھ کے دوسرے مسلک کی تنقید کرے یعنی وہ تخریب کا کام کر رہا ہے تعمیری کام نہیں کر رہے ہیں ، اگر سنی اپنے ماحول میں بیٹھ کر شیعہ مسلک کی توہین کر رہا ہے وہ تخریب کا کام کر رہا ہے۔ ایسے عناصر سے عوام کو ان سے خبر دار رہنا چاہئے اور وہ بات عوام کو بھی قبول کرنی چاہئے کہ یہ جو دلوں کو جوڑے ،اورجو دلوں کو توڑ دے ان کو عوام کو بھی قبول نہیں کرنا چاہئے کیونکہ قرآن نے بھی اسے قبول نہیں کیا ہے۔ وما علینا الی البلاغ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
https://taghribnews.com/vdcd9z0fnyt0zj6.432y.html
منبع : تنا کشمیر بیورو
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ