تاریخ شائع کریں2017 16 December گھنٹہ 11:48
خبر کا کوڈ : 299660

ایرانی قیادت کیاسوچ رہی ہے ؟

ایرانی رہبر نے امریکہ اور اسرائیل کو عصر حاضر کے فرعون قرار دیا، انہوں نے ان کے ظلم و زیادتی کو شیطانی کھیل قرار دیا
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایرانیوں نے تو اقبالؒ کا فلسفہ خودی اپنا لیا مگر ہم اقبالؒ کے فلسفہ خودی کے پاس سے بھی نہیں گزرے
ایرانی قیادت کیاسوچ رہی ہے ؟
پچھلے کالم میں اقوام متحدہ کے دوغلے کردار کی نشاندہی کی تھی آج کچھ ایرانی قیادت کا احوال بیان کر رہا ہوں چونکہ مجھے تہران میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔تہران میں ایک یادگار کانفرنس تھی اس کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کی وحدت تھا اس کانفرنس میں تقریباً سو ملکوں سے نمائندگان نے شرکت کی۔اس دوران مسلمانوں کو درپیش مسائل پر سیرحاصل گفتگو بھی ہوئی، ان مسائل کے حل کیلئے تجاویز بھی سامنے آئیں اس پر بھی سوچا گیا کہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی معراج علم کو کیسے واپس لایا جائے؟

اس سے پیشتر کہ میں ایرانی قیادت کی سوچ پر کوئی تبصرہ کروں، ایک حیران کن بات بتانا چاہتا ہوں جس روز ہم ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای سے ملنے گئے وہاں تقریب کے آغاز میں قرآن پاک کی جو آیات تلاوت کی گئیں ان میں بڑا واضح پیغام تھا، تلاوت کرنے والے نے بھی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ پوری محفل پر رقت طاری ہو گئی، اس کی ساحری آواز نے سب کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا ۔میرے لئے حیرت یہ تھی کہ ایرانی لوگ تو فارسی بولتے ہیں عربی نہیں بولتے مگر اس کے باوجود اس قدر شاندار قرات کا مظاہرہ کیا گیا ۔واپسی پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کے استاد پروفیسر مسعود عالم کہنے لگے کہ ’’میں نے ماضی قریب میں اتنی شاندار قرات نہیں سنی‘‘ میں نے پروفیسر صاحب سے عرض کیا کہ آپ نے تو ماضی قریب میں نہیں سنی، میں نے تو پوری زندگی اتنی شاندار تلاوت نہیں سنی، پتہ نہیں یہ بات کیوں دل میں ٹھہرگئی ۔پاکستان واپس آکر میں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ افتخار حسین نقوی سے ایرانیوں کی شاندار قرات کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے ’’ایرانیوں نے پچھلے کچھ سالوں میں اس شعبے میں کمال کیا ہے کیونکہ ایران کے رہبر کی اس پر بہت توجہ ہے بلکہ ایرانی رہبر کا تو کہنا ہے کہ انہیں ایران سے بیس لاکھ حافظ قرآن چاہئیں ، گویا ایرانی رہبر نے اپنی قوم کو یہ ٹارگٹ دے رکھا ہے ،ایران میں آپ کو بہت سے حافظ قرآن ایسے ملیں گے جو محافل پر رقت طاری کر دیتے ہیں، ان کی ساحری آوازیں من موہ لیتی ہیں ‘‘ 
نئے عالمی حالات کے تناظر میں ایرانی قیادت کی سوچ بالکل وہی ہے جو ایک سچے اور کھرے مسلمان کی ہو سکتی ہے ۔پہلے روز ایرانی صدر حسن روحانی نے خاص طور پر خطہ عرب کے حالات کو بیان کیا، انہوں نے دکھی دل کے ساتھ ساری المناکی بیان کی۔انہوں نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کوبیان کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟صر ف اس لئے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک نہیں ہیں اگر وہ ایک ہوتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا ۔ایرانی صدر نے حالات اور وقت کی ضرورت کے مطابق امت مسلمہ کے اتحاد کو بے حد ضروری قرار دیا ۔

جس روز ایرانی رہبر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات تھی تو وہاں پر ایران کی سیاسی و عسکری قیادت بھی موجود تھی۔ایرانی رہبر نے امریکہ اور اسرائیل کو عصر حاضر کے فرعون قرار دیا، انہوں نے ان کے ظلم و زیادتی کو شیطانی کھیل قرار دیا۔ایرانی رہبر نے مسلمانوں کی بے بسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بے بسی اس لئے ہے کہ مسلمان ملکوں میں اتحاد نہیں ہے اگر مسلمان ملکوں میں اتحاد ہو تو ایسے ملکوں میں بھی مسلمانوں کو تنگ نہیں کیا جاسکے گا جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں ، ایرانی رہبر نے ایک مشترکہ حکمت عملی پر زور دیا ان کا کہنا تھا کہ مسلمان حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ انہیں قبر میں اللہ کو جواب دینا ہے، وہاں کوئی دولت، کوئی اقتدار کام نہیں آئے گا، مسلمان حکمرانوں کو سادگی اختیار کرنی چاہئے، انہیں وقتی مفادات سے ہٹ کر امت کا سوچنا چاہئے ۔جب ہمارا اللہ ایک، رسول ؐ ایک اور قرآن ایک ہے تو ہمیں ایک نظر آنا چاہئے ‘‘

ایرانی قیادت نے مسلمان ملکوں کے وسائل کا تذکرہ بھی کیا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح اغیار ان کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں کس طرح دشمن ان پر حاوی ہے، اس ساری صورتحال کو کس طرح بدلا جا سکتا ہے ۔ایرانی قیادت کی تقاریر بڑی پرمغز تھیں ان کے بعض جملے تو ایسے تھے کہ سوچنے پر بہت مجبور کر دیتے تھے ۔ ایرانی قیادت کو پاکستان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں ان کے خیال میں ایک طاقتور مسلمان ملک بہت کچھ کر سکتا ہے ، پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت بھی ہے اور طاقتور فوج بھی، سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ترکمانستان کے نوجوان ازار محمد کی یہ بات نہیں بھولتی جو اس نے پاکستان کے بارے میں کہی تھی۔

پاکستان عسکر قومی۔پاکستان کشور قوی

یعنی پاکستان کی فوج اور قوم دونوں مضبوط ہیں مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایرانیوں نے تو اقبالؒ کا فلسفہ خودی اپنا لیا مگر ہم اقبالؒ کے فلسفہ خودی کے پاس سے بھی نہیں گزرے، ہمیں اس بات کی زیادہ ضرورت تھی کہ ہم اقبالؒ کے فلسفہ خودی کو اپناتے آج بھی ضرورت اسی بات کی ہے کہ ہم جلد از جلد اقبالؒ کے فلسفہ خودی کو اپنالیں، ہماری بچت اسی میں ہے ہمیں تو ملک بننے سے پہلے خودی کا درس دے دیا گیا تھا مگر ہماری نالائق سیاسی قیادت نے فلسفہ خودی اپنانے کے بجائے ہاتھوں میں کشکول اٹھا لیا، یہی کشکول ہمارے لئے عذاب بنا ہوا ہے اب بھی وقت ہے ہم سلجھ جائیں۔مغرب کی غلامی سے نکل آئیں کیونکہ غلام ترقی بھی کر جائے تو غلام ہی رہتا ہے، آقا جب چاہے غلام سے سب کچھ چھین لیتا ہے۔

آخر میں امریکی غلامی سے تازہ تازہ نکلنے والے طیب اردگان کی باتیں سن لیں، یہ باتیں انہوں نے ایک تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہی ہیں وہ ایک تصویر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرے بہن بھائیو!کیا آپ کو یہ تصویر دکھائی دے رہی ہے یہ دہشت گرد ملک اسرائیل کی تصویر ہے، ایک فلسطینی بچے کو بیس فوجی لے جا رہے ہیں ایک معصوم چودہ سالہ بچے کو یہ بزدل فوجی آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جا رہے ہیں اور پھر لوگ پوچھتے ہیں میں کیوں اسرائیل کو دہشت گرد ملک کہتا ہوں، ایک بچے پر بیس بیس فوجی چھوڑنے والے بزدل نہیں تو اور کیا ہیں؟خدا کی قسم مسجد اقصیٰ میری آنکھوں کا تارا ہے، بخدا میں کبھی مسجد اقصیٰ ان ظالموں کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دوں گا، خدا کی قسم ہم بیت المقدس کو ان اسرائیلیوں کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑیں گے جن کا لوٹ مار اور دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور کام نہیں، ہم کمزور ضرور ہیں مگر ابھی ضمیر مردہ نہیں ہوئے، مسجد اقصیٰ لیکر دکھائیں گے‘‘

خدا کرے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہوش آ جائے اور خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کے ضمیر جاگ جائیں، بقول اقبالؒ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

تحریر: مظہر برلاس
بشکریہ: جنگ نیوز
https://taghribnews.com/vdcb09b5grhb90p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ