تاریخ شائع کریں2024 14 April گھنٹہ 19:16
خبر کا کوڈ : 631807

اسرائیل کو ایک اور دھچکا

فلسطینی عوام سے ہمدردی کرنے والے اکثر یہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکل جانا چاہیئے، لیکن جب غزہ کے لوگوں سے بات کی جائے تو ان کا حوصلہ اور عزم غزہ سے باہر رہنے والوں سے ہزار گنا بلند ہے۔
اسرائیل کو ایک اور دھچکا
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


سات اکتوبر سے شروع ہونے والا طوفان الاقصیٰ کامیابیوں کا سفر طے کرتا ہوا آگے کی جانب اپنی منزلوں کو عبور کر رہا ہے۔ یقینی طور پر طوفان اقصیٰ فلسطین کی آزادی کا قدم ہے اور اس کی انتہاء فلسطین کی آزادی اور قدس کی بازیابی ہے۔ بہرحال ایک کے بعد ایک کامیابیوں کا ذکر پہلے بھی کئی ایک مقالہ جات میں کیا جاتا رہا ہے، لیکن آج تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں سپر پاور تسلیم کی جانے والی امریکی حکومت اس طوفان اقصیٰ کے سامنے اس قدر بے بس ہوچکی ہے کہ یمن جیسے ایک غریب ملک کی حکومت اور انصاراللہ کو معاشی پیکج کی لالچ دے کر خریدنا چاہتی ہے، لیکن سلام ہو یمن کے غیور عوام اور ان کی بہادر اور بہترین قیادت پر کہ جنہوں نے اس نام نہاد سپر پاور امریکی حکومت کی پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا ہے کہ جب تک غزہ پر جارحیت جاری ہے، یمن بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحیرہ ہند میں امریکی و برطانوی جہازوں سمیت بالخصوص اسرائیلی جہازوں کو گزرنے نہیں دے گا۔

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ یمن کے غیور لوگوں نے امریکی حکومت کی پیشکش کو صرف مسترد کرکے ٹھکرایا ہی نہیں بلکہ اگلے ہی روز خلیج عدن میں چار بڑی فوجی کارروائیاں کی ہیں، جس میں دو اسرائیلی جہازوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے اور دو امریکی جہازوں کو، جس میں سے ایک امریکی جہاز فوجی جنگی جہاز تھا۔ یہ یقینی طور پر یمن کی عظیم اور بہادر قوم کی ہمت اور جرات ہے کہ جنہوں نے غزہ کے ساتھ یکجہتی کا ایسا انداز اپنا لیا ہے، جس پر دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کو دنگ کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ سات اکتوبر کے طوفان اقصیٰ کی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی ہے کہ آج غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لئے مزاحمت کا محور صرف فلسطین میں ہی نہیں بلکہ لبنان، شام، عراق، یمن تک پھیل چکا ہے۔

دوسری طرف غزہ کے مظلوم عوام ہیں، جو مسلسل صبر اور استقامت کے ساتھ غاصب صیہونی حکومت کے جرائم اور ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ فلسطینی عوام سے ہمدردی کرنے والے اکثر یہ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکل جانا چاہیئے، لیکن جب غزہ کے لوگوں سے بات کی جائے تو ان کا حوصلہ اور عزم غزہ سے باہر رہنے والوں سے ہزار گنا بلند ہے۔ یہ بھی طوفان اقصیٰ کی کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی اور اسرائیل کے لئے بری خبر ہے کہ ترک صدر اردگان کو بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے بعد یکایک اردگان کو فلسطین کی حمایت کا بھوت سوار ہوچکا ہے۔ انہوں نے مسلسل فلسطین کی حمایت میں بیانات دینا بھی شروع کر دئیے ہیں اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلانا بھی شروع کر دی ہے، تاکہ وہ اپنی شکست کو چھپا لیں یا عوام کی ہمدردی حاصل کریں۔

افسوس کا مقام ہے کہ ترک صدر اردگان کو غزہ میں جاری نسل کشی پر کوئی رنج و الم نہیں، لیکن اپنی شہرت کی کمی پر اس قدر تکلیف ہے کہ فلسطین کو اپنے لئے ڈھال بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔ بہرحال اردگان اسرائیل کے لئے ایک مضبوط مہرہ ہیں، جو اب مستقبل میں شاید نہ ہوں۔ اردگان نے اپنی حکومت کو یہ احکامات بھی صادر کئے ہیں کہ اسرائیل کو ترکی سے جانے والی 54 اشیاء کی ترسیل یعنی برآمدات روک دی جائیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے ترک صدر کے ان احکامات کے بعد بہت ہی سادہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ترک صدر اردگان نے ابھی 185 دن گزرنے کے بعد برآمدات روکنے کا حکم جاری کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ میں گذشتہ 185 دنوں سے ہونے والی نسل کشی کے دوران یہ تمام 54 اشیاء بلا روک ٹوک اسرائیل اور اس کی فوج تک پہنچ رہی تھیں؟

اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو اس کا مطلب تو صاف ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ ترک صدر اردگان بھی غزہ کے ہزاروں بے گناہوں کے قتل مین برابر کے شریک جرم ہیں اور اس نسل کشی کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں، جتنے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل۔ خلاصہ یہ ہے کہ سات اکتوبر کے اقدامات کے بعد سے اب تک غزہ کے مظلوم عوام کی پائیدار استقامت کے ذریعے منافقوں کے چہروں سے نقاب اترتی جا رہی ہے اور اسرائیل کے لئے خطے میں مزید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اسرائیل جو غزہ میں بری طرح سے پھس چکا ہے، اب اس کو نکالنے والے ترک صدر اردگان اور دیگر عرب حکمران بھی اس قابل نہیں رہے کہ وہ خود اپنے آپ کو عوامی غصہ سے بچائیں یا پھر نیتن یاہو کو۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں غزہ کا مستقبل تو واضح ہے، لیکن اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں کا مستقبل کیا ہوگا، یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب خود امریکی حکومت اور اسرائیل کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔
https://taghribnews.com/vdce7z8pfjh8xvi.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ