تاریخ شائع کریں2024 11 April گھنٹہ 15:49
خبر کا کوڈ : 631435

اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم

اس مسئلے کی وجہ سے میکڈونلڈ کے بہت سے صارفین نے کمپنی کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے میک ڈونلڈز کا بائیکاٹ کیا اور فلسطین کا دفاع کرنے والے کارکنوں نے بھی اس "برانڈ" کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔
اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم
تحریر: اتوسا دیناریان
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


غزہ کے خلاف جارحیت جاری رہنے اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد دنیا کے بہت سے ممالک نہ صرف اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم میں شامل ہوگئے ہیں بلکہ وہ اسرائیل کی حمایت کرنے والی بہت سی امریکی اشیاء اور کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی کرچکے ہیں۔ تازہ ترین اقدام میں، ڈنمارک کے ریسٹوران نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف احتجاج میں کوکا کولا کی مصنوعات کو ترک کر دیا ہے۔ ڈنمارک میں اس مہم کے منتظمین نے اعلان کیا ہے کہ ان مشروبات کو تیار کرنے والا ملک (امریکہ) فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے ظلم و ستم میں مدد کر رہا ہے۔

اس مہم کے ارکان میں سے ایک فریڈی ایکبولوت کہتے ہیں: "اس مہم میں حصہ لینے والے کوکا کولا کی مصنوعات کو اپنی فہرست سے نکال کر فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔" ڈنمارک کے ریسٹوران کوکا کولا کا بائیکاٹ کرکے غزہ کے عوام کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سے قبل، "میکڈونلڈ" کی کئی شاخوں کا اسلامی اور حتیٰ کہ یورپی ممالک کے صارفین نے  بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کمپنی نے جس کی مقبوضہ فلسطین میں بہت سی شاخیں ہیں، غزہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی صیہونی حکومت کی بالواسطہ اور بالواسطہ حمایت کی ہے۔

اس مسئلے کی وجہ سے میکڈونلڈ کے بہت سے صارفین نے کمپنی کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے میک ڈونلڈز کا بائیکاٹ کیا اور فلسطین کا دفاع کرنے والے کارکنوں نے بھی اس "برانڈ" کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔ اس سلسلے میں میکڈونلڈز نے گذزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا: ’’وہ مقبوضہ علاقوں میں اپنی تمام شاخوں کی نمائندگی صہیونی کمپنی سے واپس لے لے گا۔‘‘ اسرائیلی جرائم کے تسلسل اور غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی ناکامی کے باعث نہ صرف صہیونی اشیائے صرف کے اقتصادی بائیکاٹ کا دائرہ وسیع ہوا ہے بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے قیام کی کوششوں کی ناکامی کے بعد اب امریکی کمپنیوں کو بہت سے صارفین کی طرف سے مسترد کیا جا رہا ہے۔

درحقیقت امریکہ غزہ جنگ کے آغاز سے ہی فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کا سب سے بڑا حامی رہا ہے اور صیہونی حکومت کی مالی، فوجی اور سیاسی مدد کرتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل کو امریکی فوجی امداد کی رقم تقریباً 3.8 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ غزہ کی جنگ میں واشنگٹن نے صیہونی حکومت کو ہر قسم کے لڑاکا طیارے، طاقتور گائیڈڈ بم اور جدید ہتھیار بھیجے اور یہ امداد جاری ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کو ویٹو کرکے غزہ جنگ کے خاتمے کو عملی طور پر روکا ہے۔ اس تناظر میں ایک آزاد امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے ایکس نیٹ ورک پر لکھا: "ہمیں اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کرنا چاہیئے۔ اسرائیل کو مزید بم نہ بھیجے جائیں۔"

اس وقت غزہ میں شہداء کی تعداد 33 ہزار سے زائد ہوچکی ہے اور بین الاقوامی رپورٹس نے غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور غزہ کے بہت سے باشندوں بالخصوص بچوں کی ہلاکت کا اعلان کیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر سنڈی میک کین نے اس حوالے سے خبردار کیا ہے کہ "غزہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور جو ابھی تک زندہ ہیں، وہ شدید غذائی قلت کی وجہ سے بہت کمزور ہیں اور ان کے جسموں کو ضروری غذائی اجزاء نہیں مل رہے ہیں۔" غزہ جنگ اور امریکہ کی حمایت جاری ہے جبکہ واشنگٹن حکام اس جنگ میں اسرائیل کی شکست تسلیم کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی کارکردگی سے متصادم بیانات میں اعلان کیا ہے کہ ’’وہ غزہ میں صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے طرز عمل کے خلاف ہیں۔‘‘

بائیڈن نے اعتراف کیا کہ غزہ میں اسرائیل کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ غزہ میں جنگ بند کرنے اور جنگ بندی کی تمام تر انتباہات اور درخواستوں کے باوجود صیہونی حکومت اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت جاری ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک کے شہری مختلف اقتصادی اور مصنوعات کے بائیکاٹ جیسی مہمات چلا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے قتل عام کے حوالے سے اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف سیاسی احتجاج اور واشنگٹن کی حمایت کے خلاف مذمتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈنمارک میں کوکا کولا کا بائیکاٹ بھی اسی سمت میں ایک قدم ہے۔
https://taghribnews.com/vdcbf8b0srhbfap.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ