تاریخ شائع کریں2024 4 April گھنٹہ 14:57
خبر کا کوڈ : 630526

جمعۃ الوداع اور عالمی یوم القدس

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اپنی تحریک کے آغاز سے ہی فلسطین کے مظلوم عوام اور قدس شریف کی آرادی کی ضرورت پر زور دیا کرتے تھے اور اسرائیل کو "غاصب" اور "قابض" ریاست سمجھتے تھے اور مسلمانوں کے دلوں میں فتح و کامیابی کی امید کا چراغ روش کرتے تھے۔
جمعۃ الوداع اور عالمی یوم القدس
تحریر:تالیف: فرحت حسین مہدوی

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"قالَ اللّه‌َ عَزَّوجَلَّ: مَن زارَني في بَيتي أو مَسجِدِ رَسولي أو في بَيتِ المَقدسِ فَماتَ، ماتَ شَهيداً؛

خداوند متعال [حدیث قدسی] میں ارشاد فرماتا ہے: جو بھی میرے گھر (مسجد الحرام) میں، یا میر نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مسجد میں، یا بیت المقدس میں میری زیارت کرے اور جان سے جائے تو وہ شہادت کی موت مرا ہے"۔ (1)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"لَا تَزَاُل عِصَابَةٌ مِن أمَّتي يُقاتِلونَ عَلَى أبوَابِ دِمَشْقَ وَمَا حَولَهُ وَعَلَى أبوَابِ بَيتِ المَقدِسِ وَمَا حَولَهُ لَا يَضُرُّهُم خِذلانُ مَن خذَلهم ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ إِلَى أن تَقُومَ السَّاعةُ؛

میری امت کا ایک گروہ دمشق کے دروازوں اور بیت المقدس اور اس کے اطراف میں مسلسل لڑتا رہے گا رہا ہے اور اگر کوئی ان کی مدد کو نہ آئے تو اس سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ وہ قیامت تک حق کے حامی اور پشت پناہ ہیں"۔ (2)

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أربَعَةٌ مِن قُصُورِ الجَنَّةِ فِي الدُّنيا: المَسجِدُ الحَرامِ و مَسجِدُ الرَّسولِ و مسَجِدُ بَيتِ المَقدِسِ وَمَسجِدُ الكُوفَةِ؛  ‌

دنیا میں جنت کے چار محلات ہیں: مسجد الحرام [مکہ میں]، مسجد الرسول(ص) [مدینہ میں]، مسجد بیت المقدس [مسجد الاقصیٰ]، اور مسجد کوفہ، [کوفہ میں]"۔ (3)

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إنَّ رَسولَ اللّه‌ِ استَقبَلَ بَيتَ المَقدِسِ سَبعَةَ عَشَرَ شَهرا ثُمَّ صُرِفَ إلَى الكَعبَةِ؛

یقینا رسول اللہ نے [بعد از ہجرت] سترہ مہینوں تک بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا اور بعدازاں کعبہ کی طرف پلٹ آئے"۔ (4)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ غَشَّ الْمُسْلِمِينَ حُشِرَ مَعَ الْيَهُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِأَنَّهُمْ أَغَشُّ النَّاسِ لِلْمُسْلِمِينَ‌؛

جس نے خیانت اور غداری (اور ملاوٹ) سے کام لیا وہ روز قیامت یہودیوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا کیونکہ یہودی مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ خیانت اور غداری کرنے والے ہیں"۔  (5)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ؛

پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے انتہائی "مسجد الاقصی" (یا نہایت اونچے مقامِ سجدہ) تک جس کے گردو پیش ہم نے برکت ہی برکت قرار دی ہے تاکہ ہم انہیں دکھائیں اپنی کچھ نشانیاں یقینا وہ سننے والا ہے، بڑا دیکھنے والا"۔ (6)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ـ حدیث قدسی میں ـ ارشاد فرمایا:

"مَن زارَني في بَيتي أو مَسجِدِ رَسولي أو في بَيتِ المَقدسِ فَماتَ ، ماتَ شَهيدا؛

جو میرے گھر [مسجد الحرام] میں میری زیارت کرے، یا میرے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مسجد [مسجد النبی(ص)] میں میری زیارت کرے، یا جس نے بیت المقدس میں میری زیارت کرے اور مر جائے وہ شہید مرا ہے"۔ (7)

یہودیوں کی اسلام دشمنی

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

"لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ؛

اور آپ ضرور بضرور پائیں گے یہودیوں کو اہل ایمان کا بدترین دشمن پائیں گے اور ان کو جنہوں نے شرک برتا ہے"۔ (8)

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

"وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللّهِ هُوَ الْهُدَى؛

اور آپ سے یہودی اور عیسائی تو اس وقت تک کبھی خوش نہیں ہونگے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے"۔  (9)

یوم القدس اور اس کے اسلامی اصول

فلسطین کی حمایت اور یوم القدس کا انعقاد اسلام اور انسانیت کا تقاضا ہے جس کی جڑیں محمد و آل محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کی حدیثوں میں پیوست ہیں۔ جس اسلام کو نہج البلاغہ میں متعارف کرایا گیا ہے چنانچہ یہ اسلام کبھی بھی دنیا کے مظلوموں پر ہونے والے ظلم و ستم کے سامنے خاموش اور غیرجانبدار نہیں ہو سکتا۔

حجت الاسلام والمسلمین محمد خردمند، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سوالات و جوابات کے شعبے کے ماہر

یوم القدس کا اعلان کب اور کیسے؟

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اپنی تحریک کے آغاز سے ہی فلسطین کے مظلوم عوام اور قدس شریف کی آرادی کی ضرورت پر زور دیا کرتے تھے اور اسرائیل کو "غاصب" اور "قابض" ریاست سمجھتے تھے اور مسلمانوں کے دلوں میں فتح و کامیابی کی امید کا چراغ روش کرتے تھے۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اپنی الہی فطرت، انسانیت اور اپنے اعلیٰ اخلاقیات کی بنا پر، نیز اسلام اور قرآن کے حکم کے مطابق، فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی ہے۔

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے مورخہ 11 اکتوبر 1968ع‍ کو فلسطینی تنظیم الفتح کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے اسلامی جہاد اور ملت فلسطین کے جہاد کے بارے میں اپنے نظریات کی تشریح کی اور اسی مکالمے کے دوران زکٰوۃ اور شرعی واجبات کا ایک حصہ فلسطینی مجاہدین کے لئے مختص کرنے کا فتویٰ دیا۔ 21 اگست 1969ع‍ کو غاصب یہودیوں نے مسجد الاقصیٰ کا ایک حصہ نذر آتش کر دیا۔ شاہ ایران نے ـ جو مغرب کا دست نگر تھا ـ رائے عامہ کے دباؤ کے تحت اور مسلمانوں کا غم و غصہ گھٹانے کی غرض سے خرابیوں کے ازالے اور مسجد کی تعمیر نو کے اخراجات اپنے ذمے لے لئے! مگر امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے اپنے ایک پیغام میں، شاہ کے فریب کو فاش کرتے ہوئے تجویز دی کہ "جب تک کہ فلسطین مکمل طور پر غاصبوں سے آزاد نہیں ہؤا، مسلمانوں کو مسجد الاقصیٰ کی تعمیر نو سے پرہیز کرنا چاہئے، اور اسے اسی حالت میں چھوڑ دیں تاکہ صہیونیت کے جرائم ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے رہیں اور یہ صورت حال فلسطین کی آزادی کے لئے ایک بڑے اقدام کا سبب بنے"۔ (10)

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے پہلی بار ـ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے چند ماہ بعد ـ مورخہ سات اگست 1979ع‍ | بمطابق 13 رمضان المبارک سنہ 1399ھ کو، قم سے ایران اور دنیا کے مسلمانوں کے نام ایک پیغام لکھا اور رمضان المبارک کے آخری جمعے (جمعۃ الوداع) کو "یوم القدس" منانے کا اعلان کیا۔ آپ نے اس مختصر مگر تقدیر ساز پیغام میں غاصب اسرائیل کے خطرے اور جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا:

"میں دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے تسلط کے خاتمے کے لئے ایک دوسرے سے متحد و متفق ہو جائیں۔ اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو ـ جو ایام قدر میں سے ہے اور فلسطینی عوام کے تقدیر کا تعین بھی کر سکتا ہے ـ یوم القدس کے طور پر چن لیں اور مسلم عوام اور ان کے قانونی حقوق کی حمایت کی خاطر بین الاقوامی یکجہتی کی تقریبات منعقد کرکے، ان کی حمایت حمایت کا اعلان کریں"۔ (11)

فلسطین اور قدس کی حمایت کی اسلامی بنیادیں

یہ ایک تخلیقی اقدام تھا جو امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے سرانجام دیا اور آپ نے ماہ رمضان کے آخری روز جمعہ کو یوم القدس کا نام دیا جو درحقیقت رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سیرت سیرت سے ماخوذ ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عملی سیرت کی پیروی اور آنحضرت کے زندہ جاوید فرمان کی متابعت ہے جہاں آپ نے فرمایا:

"مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ؛

جس نے ایک انسان کو فریاد کرتے ہوئے سنا کہ اے مسلمانو! میری مدد کو آؤ، اور وہ اس کی اجابت نہ کرے [اور اس کی ندا پر لبیک نہ کہے] تو وہ مسلمان نہیں ہے"۔ (12)

یعنی یہ کہ ہر مسلمان کو مظلوم کی فریاد پر اس کی مدد کرے، ورنہ تو وہ مسلمان نہیں ہے۔

مسلمان، مسلمان ہے، جو کلمہ توحید و رسالت کا اقرار رکھتا ہے اور رو بہ قبلہ ہو کر نماز پڑھتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ وہ آپ کی جماعت کا رکن بھی ہو اور آپ کا ہم وطن بھی ہو اور آپ کے قبیلے سے بھی ہو۔

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے یوم القدس کا تعین کرکے مسلمانوں کو عدل پسندی اور عدل پسندی اور دشمنان اسلام کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے کا سبق سکھایا اور دوسری طرف سے آپ نے فلسطینی عوام کی حمایت کرکے، مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیا اور اسی بنا پر یوم القدس خالص محمدیؐ اسلام کے احیاء کا دن ہے۔ حقیقت ہے کہ یوم القدس کا اعلان دنیا کے مسلمانوں کی بیداری میں بنیادی موڑ تھا جس نے امت کی ناامیدیوں کا خاتمہ کر دیا اور کامیابی کی امید کا شعلہ دلوں میں روشن کر دیا۔

برسہا برس ہوئے کہ غاصب یہودی ریاست "اسرائیل" نے سرزمین فلسطین پر جارحیت کی ہے اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کردیا ہے اور لاکھوں کو زخمی کیا ہے، یا پھر اپنے عقوبت خانوں میں پابند سلاسل کر دیا ہے۔ معاصر تاریخ سے واقف لوگ غاصب ریاست کے غیر قانونی، قابض اور غاصب وجود اور ملک فلسطین کے عوام کی مظلومیت میں کسی قسم کے شک و تردد کا شکار نہیں ہوتا؛ کیونکہ یہ بدیہیات اور مسلماتِ حقائق ہیں۔

مظلوم کی حمایت انسانی فریضہ ہے

سعدی شیرازی کہتے ہیں:

بنی آدم اعضای یکدیگرند

که در آفرینش ز یک گوهرند

چو عضوی به درد آورد روزگار

دگر عضوها را نماند قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید که نامت نهند آدمی."۔ (13)

ترجمہ:

بنی آدم ایک دوسرے کے اعضاء و جوارح ہیں

کیونکہ خلقت میں ایک ہی جوہر سے ہیں

جب ایک عضو کو زمانہ دکھ درد دلائے

تو باقی اعضاء کے لئے چین و سکون نہیں رہتا

تو جو کہ دوسروں کے دکھوں سے بے غم ہو

مناسب نہیں ہے کہ تجھے انسان کہا جائے۔

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے انسانی اور ایمانی فریضے کے تحت مظلوموں کی مدد اور ظالموں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کے نام امیرالمؤمنین (علیہ اسلام) کی اس وصیت پر عمل کیا کہ:

"كُونَا لِلظّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلومِ عَوْناً؛

ظالم کے دشمن رہو اور مظلوم کے مددگار رہو"۔ (14)

فلسطین کی حمایت اور یوم القدس کی تکریم کا انسانی اور اسلامی حکم کی جڑیں اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین و ارشادات میں پیوست ہیں۔

کتاب الکافی کی تیسری جلد میں ایک مستقل باب ہے بعنوان "بَابُ الإِهْتِمَامِ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ وَالنَّصِیحَةِ لَهُمْ وَنَفْعِهِمْ؛ جس کے معنی ہیں "مسلمانوں کے امور و معاملات کو اہمیت دینے، ان کے لئے خیرخواہی اور ان کی منفعت کا باب"۔ اس باب کے ذیل میں متعدد احادیث شریفہ منقول ہیں جن میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ أَصْبَحَ لَا یهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیسَ بِمُسْلِمٍ؛

جس نے رات گذآر دی اور صبح کی اور امور مسلمین کا کچھ اہتمام نہ کیا اور بے غم و بے درد رہا وہ مسلمان نہیں ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے"۔

صہیونی اپنے آپ کو دوسرے سے برتر و بہتر سمجھتے ہیں

جی ہاں! جس اسلام کو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے نہج البلاغہ میں متعارف کرایا ہے وہ کسی صورت میں بھی دنیا کے مظلوموں کی نسبت بے رخ اور اصطلاحاً "غیر جانبدار" نہیں رہ سکتا۔ دنیا کے تمام انسانوں کے لئے یہی اسلامی جذبات اور مہربانی اور برادری کی روح ہی ہے کہ جو بھی اسلام کو سمجھتا ہے، اس کو تعظیم کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ یہ اسلام ایک عالمی، آفاقی اور انسانی مکتب ہے اور یہ نسل پرستانہ سوچ کا نام نہیں ہے اور ہر روز اس کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ اس کے برعکس یہودیت اور صہیونیت ایک نسل پرستانہ جماعت یا منصوبے [Project] کا نام ہے اور آج یہودیوں کی آبادی اتنی ہی ہے جتنی کہ بیسویں صدی کے اوائل میں تھی۔ مسلمان اپنے دین و مکتب کی تبلیغ کرتے ہیں، لوگوں کو انسان اور برادر و برابر سمجھتے ہیں اور انہیں اسلامی ایمان کی دعوت دیتے ہیں لیکن صہیونی اپنے آپ کو برتر و بہتر سمجھتے ہیں، وہ اپنے دین کی طرف کسی کو نہیں بلاتے کیونکہ ان کا دین نسل پرستی ہے اور وہ اپنی نسل میں دوسروں کو آنے کی دعوت نہیں دے سکتے۔ وہ نسل پرست ہیں اور نسل میں دوسری نسلوں کا داخلہ ممکن نہیں ہے، اسلام کے برعکس جس میں جو بھی داخل ہوجائے وہ مسلمان اور دوسرے مسلمانوں کا بھائی ہے۔

امام خامنہ ای (أدَامَ اللہُ ظِلَّہُ العَالی) کے کلام میں "جہاد کبیر" اور "یوم القدس" کے باہمی تعلق

جہاد کبیر، ایک اصل اسلامی اصطلاح ہے اور اس کے معنی کافروں اور منافقوں کے سامنے مقاومت و استقامت اور سر تسلیم خم نہ کرنے کے ہیں، اگرچہ یہ حقیقت الفاظ کی صورت میں، قرآن کریم میں صرف ایک مرتبہ مذکور ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے:

"فَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ وَ جاهِدْهُمْ بِهِ جِهاداً كَبِيراً؛

تو آپ کافروں کی اطاعت نہ کیجئے، اور اس ذریعے سے ان سے جہاد کیجئے بہت بڑا جہاد"۔ (15)

لیکن اس کے معنی اور مندرجات و معطیات بارہا قرآن اور احادیث میں دہرائے گئے ہیں۔ ہم اصولی طور پر جانتے ہیں کہ اسلام کے بنیادی اصول توحید [یکتاپرستی] اور شرک و بت پرستی کے خلاف جدوجہد ہے۔ اور توحید کی روح، غیراللہ کی بندگی کی نفی سے عبارت ہے۔ کفار، مشرکین اور منافقین کے خلاف مزاحمت اور دشمنان خدا کے مقابلے میں جم جانا اور سر تسلیم خم نہ کرنا، نہ صرف دین اسلام بلکہ تمام الٰہی ادیان کی اصلی ضروریات میں سے ایک ہے۔ یہ استقامت اور پامردی مختلف ثقافتی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں انجام پاتی ہے۔ دوسری طرف سے یوم القدس مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان اور جابروں، ظالموں اور مستکبرین کے مقابلے میں مظلوم مسلمانوں کی مدد و حمایت ہے۔ اگر ہم جہاد کبیر کے مفہوم کو یوم القدس کے معنی و مفہوم پر پرکھ لیں تو یوم القدس اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت، جہاد کبیر، اسلامی مقاومت [مزاحمت] اور قرآن کے دشمنوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا، ہے۔

کیا کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی ذمہ داری وسیع البنیاد اور آفاقی ہے اور یوم القدس اس ذمہ داری کا ایک نمایاں نمونہ ہے؟

جواب: جی ہاں! جو مسلمان قرآن کریم میں پڑھتا ہے کہ "أَلا لَعنَةُ اللّه‌ِ عَلَي‌ الظّالِمِين‌َ؛ آگاہ ہو کہ اللہ کی لعنت ہے۔ تمام ظالموں پر"؛ (16) "إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ؛ یقینا اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا (منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا)؛ (17) اور "يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ؛ جس دن ظالموں کو ان کی عذر خواہی فائدہ نہ پہنچائے گی اور ان کے لئے لعنت ہے اور اس آخری منزل کی برائی ہے"۔ (18) وغیرہ، روز قدس کے حوالے سے اس کی دینی اور قرآنی ذمہ داری بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جان لینا چاہئے کہ اسلامی معارف و تعلیمات کی بنیاد پر، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی سطح پر تمام مظلومین کی حمایت کریں، خواہ وہ فلسطینی مسلمان ہوں خواہ دوسرے ممالک میں رہتے ہوں، چنانچہ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) فرماتے ہیں:

۔۔ جب تک کہ "لَا إِلٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ" کی گونج پوری دنیا میں نہ سنائے دے، جدوجہد جاری ہے۔ اور جب تک کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مستکبرین کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی ہم بھی [میدان میں] ہیں۔ ہم اسرائیل کے مقابلے میں لبنان اور فلسطین کے نہتے عوام کا دفاع کرتے ہیں اور اسرائیل ـ یہ فساد اور برائی کا جرثومہ ـ ہمیشہ سے امریکہ کا اڈہ رہا ہے۔ میں 20 سال سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کے خطرے کے بارے میں خبردار کرتا رہا ہوں۔ ہم سب کو اٹھنا چاہئے اور اسرائیل کو نیست و نابود کرنا چاہئے، اور ملت فلسطین کو اس کا متبادل بنائیں۔ ہم مسلمان اور دلیر افغان قوم کی مکمل پشت پناہی کرتے ہیں؛ ایک ایسی قوم جو جارحوں کے خلاف جدوجہد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے، انہیں جان لینا چاہئے کہ خدا اس کے ساتھ ہے، وہ جب اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق سے کام لیں گے، اور ایمان راسخ کے ساتھ لڑیں گے، تو کامیابی ان کے قدم چومے گی، اور انہیں جان لینا چاہئے کہ فتح و کامیابی قریب ہے"۔ (19)

فتح یقینی ہے

مؤمنین کی فتح و کامیابی کا وعدہ، بشرطیکہ وہ جہاد کریں اور دشمن کے مقابلے پر نکلیں:

خدائے متعال نے فرمایا:

"أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْساءُ وَ الضَّرَّاءُ وَ زُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى‌ نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ؛ 

کیا تم سمجھتے ہو کہ تم بہشت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں تم سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں کی سی صورتیں پیش نہیں آئیں کہ انہیں فقر و فاقہ اور سختیاں درپیش ہوئیں اور انہیں ہچکولے دیئے گئے یہاں تک کہ پیغمبر اور ان کے ساتھ کے ایمان لانے والے کہنے لگے کہ آخر اللہ کی مدد کب آئے گی، خبردار رہو کہ بلاشبہ اللہ کی مدد نزدیک ہی ہے"۔  (20)

نیز ارشاد فرمایا:

"وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ؛

اور اگر نہ ہوتا اللہ کا دفع کرنا بعض کو بعض کے ذریعے تو گرا دیئے جاتے راہبوں کے ٹھکانے اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت کدے اور مسجدیں جن میں اللہ کو بہت یاد کیا جاتا ہے؛ اور یقینا اللہ ضرور مدد کرے گا اس کی جو اس کی [یا اس کے دین اور اہل ایمان کی] مدد کرے گا۔ بلاشبہ اللہ طاقت والا ہے، غالب آنے والا"۔ (21)

نیز ارشاد فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ؛

اے ایمان لانے والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا کرے گا"۔  (22)

خدا صبر و استقامت والوں کے ساتھ ہے اور انہیں فتح و نصرت کا وعدہ دیتا ہے:

"الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ؛

اب اللہ نے تم پر سے بار ہلکا کر دیا اور معلوم ہو گیا کہ تم میں کمزوری ہے۔ اچھا تو اب تم میں کے سو صبر والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں کے ہزار ہوں تو دو ہزار پر غالب آئیں اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر [و استقامت] کرنے والوں کے ساتھ ہے"۔ (23)

یوم القدس اہم کیوں ہے؟

1۔ یوم القدس حق و باطل کی صف بندی کی علامت

اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ العالی) نے تمام امور میں حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کا مشن جاری رکھا ہؤا ہے اور اعلیٰ اسلامی اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے لئے وسیع اور گہری فعالیت کرتے آئے ہیں اور ملت فلسطین، ملت لبنان، ملت افغانستان اور ملت یمن وغیرہ کی ہمہ جہت اور گہری حمایت کی ہے اور زور دے کر فرمایا کرتے ہیں کہ ملت فلسطین کی ہمہ جہت مدد اور ان کی مکمل حمایت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی [فرض الکفایہ] ہے۔

امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ العالی) یوم القدس کے بارے میں فرماتے ہیں:

"دشمن نے کس قدر کوشش کی ہے کہ ان برسوں کے دوران کہ یوم القدس کو ـ باطل میں مقابلے میں مسلمانوں کی صف بنی کی علامت ہے ـ کمزور کر دیں۔ یوم القدس حق و باطل اور عدل و ظلم کے مابین صف بندی کو عیاں کرتا ہے۔ یوم القدس صرف فلسطین کا دن نہیں ہے، یہ امت اسلامیہ کا دن ہے۔ یہ صہیونیت کے مہلک سرطان کے خلاف مسلمانوں کی گونجتی ہوئی فریاد کا دن ہے، ایسا سرطان جسے قابضوں، مداخلت کرنے والوں اور استکباری طاقتوں نے امت مسلمہ پر مسلط کر دیا ہے۔ یوم القدس کوئی چھوٹا دن نہیں ہے بلکہ یوم القدس عالمی دن ہے۔ اس کا پیغام آفاقی اور عالمی ہے، یوم القدس اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ امت مسلمہ ظلم کے سامنے سے نہیں جھکاتی خواہ اس ظلم کو دنیا کی طاقتورترین حکومت کی حمایت حاصل کیوں نہ ہو۔" (24)

رہبر انقلاب امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ العالی) نے کل [3 اپریل 2024ع‍ کو] رمضان المبارک کے سلسلے میں ـ یوم القدس کی آمد پر ـ ملکی حکام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

"صہیونیوں کے دو محاذوں پر عظیم ناکامیوں اور شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے: طوفان الاقصی کی فلسطین کاروائی کے نتیجے میں بھی اور غزہ پر جارحیت میں اپنے اعلان کردہ مقاصد کے حصول سے عاجزی کی صورت میں بھی۔۔۔ امسال یوم القدس بھی ان شاء اللہ، ایرانی قوم، مسلمان اقوام اور احرار عالم کی موجودگی میں غاصب ریاست کے خلاف ایک عالمی جوش و جذبے کی عکاسی کرے گا۔۔۔ گذشتہ برسوں میں صرف اسلامی ممالک میں یوم القدس منایا جاتا رہا ہے لیکن امسال، بہت ممکن ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بھی یوم القدس انتہائی عظمت کے ساتھ منایا جائے گا اور مجھے امید ہے ملت ایران دوسرے میدانوں کی طرح اس میدان میں تابندہ رہے گی"۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ المتقی الہندی، كنزالعمّال ، حدیث نمبر 35004 .

2۔ احمد بن علی الموصلی، (المعروف بہ ابو یعلی)، مسند أبی یعلی، ج11 ، ص 302 .

3۔ بحار الأنوار ، ج 99 ، ص 380 بحوالہ امالی الشیخ الطوسی، ص369۔

4۔ عبداللہ بن جعفر الحمیری، قرب الاسناد، ص148۔

5۔ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج3، ص273؛ الکلینی، الکافی، ج5، ص168۔

6۔ سورہ اسراء، آیت1۔

7۔ متقی الہندی، كنزالعمّال ، حدیث نمبر 35004۔

8۔ سورہ مائدہ، آیت 82۔

9۔ سورہ بقرہ، آیت 120۔

10۔ حدیث بیداری، ص 79- 80۔

11۔ صحیفہ امام، ج9، ص267۔

12۔ الکلینی، الکافی، ج3، ص419۔

13۔ گلستان سعدی / باب اول در سیرت پادشاهان

14۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 47۔

15۔ سورہ فرقان، آیت 52۔

16۔ سورہ ہود، آیت 18۔

17۔ سورہ قصص، آیت 28۔

18۔ سورہ غافر، آیت 52۔

19۔ صحیفہ امام، ج12، ص148۔

20۔ سورہ بقرہ، آیت 214۔

21۔ سورہ حج، آیت 40۔

22۔ سورہ محمد، آیت 7۔

23۔ سورہ انفال، آیت 66۔

24۔ خطاب بمورخہ 20 ستمبر 2009ع‍
https://taghribnews.com/vdcb5gb00rhbfsp.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ