تاریخ شائع کریں2024 2 April گھنٹہ 15:34
خبر کا کوڈ : 630273

بھارت بھی غزہ کے خلاف جنگی مجرموں کی صف میں شامل

غزہ میں تشدد کی موجودہ لہر نے خطے میں ہندوستان کے اقتصادی مفادات کو خطرہ سے دوچار کر دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت ہندوستان کے لیے ایک اہم فوجی شراکت دار بن چکی ہے۔
بھارت بھی غزہ کے خلاف جنگی مجرموں کی صف میں شامل
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


صیہونی حکومت کو ہرمیس 900 ڈرون بھیجنے کے بعد بھارت بھی غزہ کے خلاف جنگی مجرموں کی صف میں شامل ہوگیا ہے، ایسے جنگی مجرم جن کے ہاتھ ہزاروں فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے عالم میں جب عالمی برادری غزہ میں صیہونی حکومت کے وسیع جرائم کی وجہ سے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھانے اور اس کی فوجی امداد میں کٹوتی کا مطالبہ کر رہی ہے، وہاں بعض ممالک صیہونیوں کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کی نسل کشی میں ملوث ہیں۔ ان عناصر میں سے ایک ہندوستان ہے، جس نے امریکہ اور یورپیوں کی طرح غزہ جنگ کے پہلے دن سے ہی اسرائیل کے حملے کی حمایت کی ہے۔ 7 اکتوبر کے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد پہلے ردعمل کے طور پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ اس مشکل صورتحال میں نئی دہلی تل ابیب کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسی تناظر میں ہندوستانی حکومت نے نہ صرف صیہونی مخالف مظاہروں پر پابندی لگا دی بلکہ سوشل نیٹ ورکس پر غزہ کے عوام کے دفاع میں خبریں شائع کرنے پر قدغن لگا دی۔ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اب تو صیہونی حکومت کو ہندوستان کی طرف سے فوجی امداد بھیجنے کے بارے میں بھی تسلسل سے خبریں سامنے آرہی ہیں۔ انڈین ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ہندوستانی کمپنی اڈانی نے غزہ میں استعمال کے لیے صیہونی حکومت کو ہرمیس 900 اٹیک ڈرون بھیجے ہیں۔ ہیومن رائٹس کونسل آف انڈیا نے فلسطینیوں کی جاری نسل کشی کی وجہ سے تل ابیب کے ساتھ فوجی تعلقات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک بیان میں انسانی حقوق کی کونسل نے حال ہی میں صیہونی حکومت کو اڈانی کی جانب سے ہرمیس 900 ڈرونز کی فروخت اور ہندوستان اور اس حکومت کے درمیان اقتصادی اور فوجی تعلقات گہرے ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

دفاعی صنعت کی تجارتی اشاعت شیفرڈ نے فروری کے اوائل میں پہلی بار اطلاع دی تھی کہ بھارت نے اڈانی انٹرپرائزز اور اسرائیلی ملٹری ٹکنالوجی فرم ایلبٹ سسٹم کے درمیان حیدرآباد میں قائم مشترکہ منصوبے سے 20 ہندوستانی ساختہ ہرمیس 900 ڈرون اسرائیل کو درآمد کیے ہیں۔ یہ اقدام غزہ میں جاری جنگ کے بارے میں ہندوستان کے موقف کو اس لئے بھی پیچیدہ بناتا ہے، کیونکہ ان ڈرونز نے فلسطینی اہداف پر بمباری کی ہے اور کئی شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے اگرچہ غزہ کے بارے میں بین الاقوامی حساسیت کے پیش نظر صیہونی حکومت کے ساتھ فوجی تعاون کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، لیکن موصولہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک قابض اسرائیلی فوج کو گولہ بارود بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس سلسلے میں العربی ویب سائٹ نے چند روز قبل اطلاع دی ہے کہ ہندوستانی بندرگاہوں پر موجود مزدوروں نے اسرائیل جانے والے جہازوں کا سامان لوڈ یا انلوڈ کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی عوام اپنے سیاست دانوں کے خیالات کے برعکس غزہ میں حالیہ قتل عام کے خلاف ہیں۔ ہندوستانی عوام غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صہیونیوں کے جرائم میں شریک ہونے کو تیار نہیں۔ ہرمیس ڈرون غزہ کی حالیہ جنگ میں استعمال ہونے والے سنگین ترین ڈرونز میں سے ایک ہے۔ اڈانی اور ایلبٹ سسٹمز کے درمیان تعاون نے ہندوستان کو دنیا کے معروف ڈرون مینوفیکچررز میں سے ایک بنا دیا ہے۔ غزہ کے حوالے سے صیہونی حکومت کی جنگ کے بارے میں نئی دہلی کا نقطہ نظر بہرحال مودی کے پائیدار تزویراتی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حوالے سے ہندوستانیوں کی تاریخی پالیسی ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ ہندوستان پہلا غیر عرب ملک تھا، جس نے 1974ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کو فلسطینی عوام کے قانونی نمائندے کے طور پر تسلیم کیا۔ ہندوستان 1988ء میں ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا۔ نئی دہلی نے ہمیشہ دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے، لیکن گذشتہ ایک دہائی میں وہ صیہونی حکومت کے مطالبات کو پورا کرنے کی سمت میں کئی اقدامات کرچکا ہے۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ میں ظاہری حمایت بھی صرف سیاسی مفادات کی وجہ سے کی ہے۔

غزہ میں تشدد کی موجودہ لہر نے خطے میں ہندوستان کے اقتصادی مفادات کو خطرہ سے دوچار کر دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت ہندوستان کے لیے ایک اہم فوجی شراکت دار بن چکی ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، صیہونی حکومت نے 2022ء میں ہندوستان کو جو اسلحہ درآمد کیا ہے، وہ ان کی درآمدات کا تقریباً 10 فیصد ہے، جس میں ڈرون، ریڈار اور میزائل سسٹم  وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان ہر سال صیہونی حکومت سے تین بلین ڈالر کا دفاعی ساز و سامان خریدتا ہے اور ہرمیس 900 ڈرون کی تیاری دونوں اتحادیوں کے درمیان دفاعی تعاون میں سے ایک ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق حیدرآباد میں اسرائیلی کمپنی "البیت ایڈوانسڈ سسٹم" نے ڈرونز کی تیاری کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں، جس سے وہ ہرمیس 900 ڈرون تیار کرنے والی اسرائیل سے باہر پہلی دفاعی کمپنی بن گئی ہے۔ دونوں فریقوں نے ٹیکنالوجی کی پروڈکشن جیسے دیگر شعبوں میں مشترکہ دفاعی تحقیق اور ترقی کے منصوبوں پر بھی تعاون کیا ہے۔ ڈپلومیٹ میگزین کے مطابق اگر ڈرون کی منتقلی سے متعلق رپورٹس درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ نئی دہلی اب صیہونی حکومت کے ساتھ اپنی شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لیے زیادہ خطرات مول لینے پر آمادہ ہے۔ اس میں سے کچھ ان واقعات کا نتیجہ ہیں، جنہوں نے نئی دہلی کو اس بات پر قائل کیا ہے کہ اس کے پاس یہ خطرات مول لینے کے لیے کافی معاشی طاقت ہے۔

اسلامو فوبیا تل ابیب اور نئی دہلی کا مشترکہ ایجنڈا
ہندوستان کو صیہونی حکومت کے ساتھ وسیع تعاون کی طرف لے جانے والی مشترکات میں سے ایک دونوں فریقوں کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ مودی حکومت بھی کشمیر اور دیگر خطوں میں مسلمانوں کی آبادی سے نمٹنے کے لیے سخت رویہ اپنائے ہوئے ہے اور حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے ساتھ بھارتی پولیس کا پرتشدد رویہ، جس نے مسلم دنیا کو غصہ دلایا ہے، اس کی نسل پرستانہ پالیسی کے ایک مثال ہے۔ مقبوضہ علاقوں کی حالیہ صورت حال نے تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان ایک قسم کی ہم آہنگی پیدا کر دی ہے۔ ڈپلومیٹ میگزین کے مطابق، سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کے تحقیقی شعبے کے پروفیسر اور سربراہ اشوک سوین کا کہنا ہے ’’فلسطین کے حوالے سے ہندوستانی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کی ایک وجہ اس ملک میں ہندو قوم پرستی کا ابھرنا ہے۔

چونکہ ہندوستانی میڈیا زیادہ تر ہندو قوم پرست حکومت سے متاثر ہے، اس لیے اس کا فلسطین کے حوالے سے رویہ مخالفانہ ہے۔" سوین کے مطابق "مودی حکومت کا خیال ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ جاری رہے گی، میڈیا کی توجہ حماس کی طرف رہے گی، جسے وہ ہندوستانی معاشرے میں اسلامو فوبیا کو ہوا دینے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔" دہلی میں مقیم ایک صحافی اور سینیئر محقق پامیلا فلپس بھی اسی نتیجے پر پہنچی ہیں۔ ان کا کہنا ہے "انڈین حکومت سمجھتی ہے کہ وہ حماس کو اسلامی دہشت گردی کے نمائندے کے طور پر پیش کرکے اسرائیل کی حمایت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔"

اقتصادی مسئلہ اور انڈین میری ٹائم کوریڈور
سیاسی اور فوجی مسائل کے علاوہ صیہونی حکومت کے ساتھ ہندوستان کا تعاون اقتصادی مسائل سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ہندوستان مشرق کی ابھرتی ہوئی طاقتوں میں سے ایک ہے، جو اپنی اقتصادی پوزیشن کو بہتر بنانے اور دنیا کی تین بڑی طاقتوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقتصادی اشارئیے بتاتے ہیں کہ اگلی دہائی میں عالمی منڈیوں کی نبض پر اس کا ہاتھ ہوگا۔ دوسری طرف چین اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مودی حکومت کے خلاف اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ صیہونی حکومت اور حماس کے درمیان طویل تنازعے کے امکان نے بہت سے دوسرے ممالک کی معیشت کو درہم برہم کر دیا ہے، کیونکہ مغربی ایشیا میں کوئی بھی مسئلہ تیل کی سپلائی پر فوری اثر ڈالے گا اور اسکے عالمی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ عالمی معیشت ٹھیک نہیں ہے اور تصادم کا سنگین خطرہ ہے، ہندوستان تیل اور گیس کے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک کے طور پر مشرق وسطیٰ کی حالیہ کشیدگی سے متاثر ہوگا۔ بحیرہ احمر اور مقبوضہ علاقوں میں تنازعات کے جاری رہنے اور اس کے دائرہ کار کے بڑھنے سے توانائی کی قیمتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور بھارت  کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ہندوستان نے خلیج فارس کے عرب ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو گہرا کیا ہے۔ اس تناظر میں میکرو اکنامک پراجیکٹس کا معاملہ بھی بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔

گذشتہ ستمبر میں، ہندوستان نے امریکہ اور عرب ممالک کے تعاون سے ہندوستان-یورپ کوریڈور کا منصوبہ پیش کیا تھا، جس کے تحت اس راہداری کو بحر ہند سے مقبوضہ علاقوں اور وہاں سے یونان اور دیگر یورپی ممالک کی بندرگاہوں سے منسلک ہونا تھا۔ اس منصوبے کی نقاب کشائی کو ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن  انجام پایا، جس نے بھارت اور اس کے شراکت داروں کا منصوبہ تہہ و بالا کر دیا تھا اور اب اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کوئی واضح افق نظر نہیں آرہا ہے۔ اتنے بڑے منصوبے کی تکمیل کا دارومدار خطے میں امن کے قیام پر ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ نے سلامتی کی صورتحال کو درہم برہم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی فوج کی جانب سے غزہ پر بمباری اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مخالفت نے اسرائیلی حکومت اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

اس راہداری کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے، جب عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان باہمی تعاون قائم ہو اور ان کے درمیان کسی قسم کی دشمنی نہ ہو، تاکہ اس سمندری راہداری میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ غزہ جنگ کی وجہ سے سکیورٹی کے مسائل جاری رہیں گے۔ بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر یمن کے انصار اللہ کے حملوں کی  حالیہ لہر نے ثابت کیا ہے کہ سلامتی کے خدشات کے باعث تجارت کس قدر متاثر ہوسکتی ہے۔ یمن کی تنظیم انصار اللہ کی حالیہ کارروائیوں نے بھارت کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور اس ملک کے تجارتی بحری جہازوں کو مقبوضہ علاقوں تک پہنچنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انھیں حملوں سے بچنے کے لیے آبنائے باب المندب کی بجائے کسی اور راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

طویل فاصلے کی وجہ سے انھیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ بھارت، جس نے اس منصوبے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے، غزہ کی جنگ کو اپنی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی قابضین کے فائدے کے لیے ہر ممکن طریقے سے اس جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔صیہونی حکومت کو ڈرونز کی فروخت بھی اسی وجہ سے کی جا رہی ہے، تاکہ صیہونی حکومت کو اس میدان میں جلدی کامیابی حاصل ہو۔ بہرحال اس بحران کا تسلسل، جس نے عالمی جہت اختیار کر لی ہے، نئی دہلی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک سنگین چیلنج سے کم نہیں ہے۔
https://taghribnews.com/vdca0wnie49neu1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ