تاریخ شائع کریں2024 23 March گھنٹہ 18:34
خبر کا کوڈ : 629250

پاکستانی وزیرِ دفاع صاحب سے ہماری گزارش

ہمارے وزیرِ دفاع خواجہ آصف صاحب نے اس بارے میں بیان دیا ہے کہ دہشتگردوں کو نہ روکا گیا تو افغانستان کی بھارت کیساتھ تجارتی راہداری بند کر دیں گے۔ یہ بیان بڑا قیمتی ہے، اس پر ہم آخر میں بات کریں گے۔
پاکستانی وزیرِ دفاع صاحب سے ہماری گزارش
تحریر: نذر حافی
بشکریہ:اسامی ٹائمز


سات مارچ 2024ء کو غزہ کی جنگ کے چھ مہینے مکمل ہوگئے۔ اب پاکستان میں لوگ پہلے کی طرح اپنے حکمرانوں سے فلسطین کے حوالے سے کوئی امید بھی نہیں رکھتے۔ مسئلہ کشمیر کے ساتھ بھی جو کچھ ہوا ہے اور جو آئندہ ہونے جا رہا ہے، وہ بھی اب لوگ سمجھ چکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب پاکستان، فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے ایک زندہ موقف رکھتا تھا۔ عالمی مسائل کے اندر دنیا بھر میں پاکستانی قیادت کا ایک وزن مانا جاتا تھا۔ آج کل کچے کے ڈاکو، پختونخواہ کے طالبان، ٹرانسپورٹ مافیا کے مالکان اور تفتان کے صوفی صاحب بھی ہمیں گھاس نہیں ڈالتے۔ گذشتہ دنوں کی بات ہے۔ بارود سے بھری گاڑی، آرمی چیک پوسٹ سے ٹکرا گئی۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں لیفٹینٹ کرنل کاشف اور کیپٹن احمد بدر سمیت پانچ جوان شہید ہوگئے۔ پاک فوج کو سلام ! لیکن سوال یہ ہے کہ جوان تو شہید ہو رہے ہیں، لیکن کیا دہشت گردی بھی ختم ہو رہی ہے۔؟

ہمارے وزیرِ دفاع خواجہ آصف صاحب نے اس بارے میں بیان دیا ہے کہ دہشتگردوں کو نہ روکا گیا تو افغانستان کی بھارت کیساتھ تجارتی راہداری بند کر دیں گے۔ یہ بیان بڑا قیمتی ہے، اس پر ہم آخر میں بات کریں گے۔ فی الحال یہ بتانا ضروری ہے کہ سندھ میں کچے کا علاقہ وزیرستان سے کم غیر محفوظ نہیں۔ گذشتہ سال کی بات ہے۔ سندھ کی صوبائی کابینہ نے دریائے سندھ کے علاقے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس، رینجرز اور فوج کے مشترکہ آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے جدید اسلحے کی خریداری کے لیے دو ارب اناسی کروڑ روپے کی منظوری دی تھی۔ یہ دو ارب اناسی کروڑ بھی عوام کی جیب سے گئے اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی بی) کے مطابق  اسی علاقے میں اغوا برائے تاوان کے ذریعے کم از کم سالانہ ایک ارب ڈاکو حضرات لوگوں سے وصول کرتے ہیں۔

کچے کے ڈاکووں نے گذشتہ ایک سال میں 400 افراد اغوا کئے ہیں، آزاد ذرائع کے مطابق سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز میں اس وقت ڈاکوؤں کی تحویل میں 200 سے زائد افراد موجود ہیں۔ ہر ماہ 20 سے 30 افراد تاوان کے عوض آزاد ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کہیں کچے کے ڈاکو اور کہیں پکے کے طالبان ہم پر کیوں مسلط ہیں؟ اس کیوں کا فوری جواب درکار نہیں۔ اس سوال کے جواب کیلئے  ذرا تامل، غوروفکر، مباحثے اور اپنی مُلکی تاریخ کو  کریدنے کی ضرورت ہے۔ تھوڑا کرید کر تو دیکھیں، شاید اپنی اصلاح کیلئے یہیں سے ہمیں بہت کچھ مل جائے۔ اوپر سے آج یہ خبر گرم ہے کہ سعودی حکومت نے دستاویزات کی تصدیق میں جعلسازی ثابت ہونے پر ایک سو کے قریب پاکستانی نرسوں کو گذشتہ روز ڈی پورٹ کر دیا۔

سعودی عرب نے جو کیا، وہ اچھا ہی کیا، لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ اسناد کی چیکنگ کی یہ کارروائی سعودی عرب روانگی سے پہلے ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہوئی؟ اگر کارروائی ہوئی تھی اور اس کے باوجود ایک سو نرس ملک سے باہر چلی گئی تو پھر تو یہ متعلقہ اداروں کی سراسر نااہلی ہے اور اگر کارروائی ہی نہیں ہوئی تو پھر تو یہ اُس سے بھی بڑی نالائقی ہے۔ یہاں مجرم صرف جعلساز ہی نہیں بلکہ وہ سارا نیٹ ورک ہے، جو اس جُرم کا باعث بنا۔ بڑے جرائم کو چھوڑئیے، چھوٹے جرائم بھی بے قابو ہوچکے ہیں۔ یہ آج کی ہی ایک خبر ملاحظہ کیجئے۔ آج کے اخبارات کے مطابق میئر کراچی مرتضیٰ وہاب گٹر کے ڈھکن اور پلوں کا کنکریٹ کاٹ کر سریا چرانے والوں سے عاجز آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ سائبر کرائم اور جعلی ٹیلی فون کالز سے روزانہ کتنے ہی شہریوں کو لوٹا جاتا ہے؟ اسٹریٹ کرائمز ہوں یا سائبر کرائمز متعلقہ ادارے کچھ کرنے سے عاجز ہیں۔

سوال یہ بنتا ہے کہ اس عاجزی اور انکساری سے مجرموں کے حوصلے بلند ہونگے یا شہریوں کے۔؟ سیاست کی تو ہم نے آج بات ہی نہیں کرنی۔ عوام کی طرف سے سیاست جائے بھاڑ میں۔ لوگ اس مرتبہ ہمیشہ کیلئے جمہوریّت کی قبر پر فاتحہ پڑھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود بجلی صارفین پر ایک اور بوجھ ڈالنے کی تیاری کرلی گئی ہے، صارفین پر 967 ارب روپے کا ایک اور اضافی بوجھ ڈالنے کی درخواستیں نیپرا کو موصول ہوگئیں۔ یہ درخواستیں آئندہ مالی سال کے لیے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے جمع کرائی ہیں۔ کچے کے ڈاکو بے شک سندھ میں ہیں، لیکن لُٹ تو اسلام آباد کے شہری بھی رہے ہیں۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے زمین سے بور کے ذریعے مفت پانی نکالنے پر پابندی لگاتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیا، اب شہریوں کو زمین سے بور کے ذریعے مفت پانی نکالنے پر ٹیکس دینا ہوگا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق موٹر کی ہارس پاور اور پانی سپلائی کے قطر کے اعتبار سے بور کنکشنز کی درجہ بندی کرکے تمام کٹیگریز کے الگ الگ واٹر چارجز مقرر کر دیئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریّت کو دفن کرنے کے باوجود عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے افاقہ کیوں نہیں؟ سیاست، حکومت اور جمہوریت کے نام پر جوتیوں میں اتنی دال بٹنے کے بعد پھر لوگوں کے ساتھ مزید کیا کرنے کا ارادہ ہے۔؟ حکومتی ادارے کم از کم گڈ گورننس کا ہی کچھ مظاہرہ کر دیں۔تفتان بارڈر پر لوگوں کی شکایات کے ازالے کا ہی کچھ بندوبست ہو جائے۔ توانائی کا بحران اور ماہ مبارکِ رمضان میں روزمرہ اشیاء خرد و نوش کی ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی پر ہی کچھ قابو پاکر دکھائیں، سڑکوں اور گلیوں میں راہ چلتے ہوئے اسلحے کے زور پر وارداتیں اور ڈکیتیاں، ملاوٹ اور مہنگی ادویات۔۔۔کچھ اسی درد کا ہی درمان ہو جائے۔ اگر کچے کے ڈاکو آپ کی پہنچ سے دور ہیں تو تفتان کے صوفی صاحب تو آپ کے اپنے اہلکار ہیں۔ ان کے بارے میں ہی عوامی شکایات کے باعث از خود نوٹس لے لیجئے۔

آخر میں وزیرِ دفاع صاحب سے ہماری گزارش ہے کہ آپ طالبان کے ساتھ تجارتی راہداری بند کریں یا نہ کریں، لیکن سب سے پہلے تفتان بارڈر پر عوام کی بے عزّتی بند کرا دیں۔ کئی سالوں سے عوامی مشکلات اور شکایات اربابِ اقتدار کی توجہ کی طالب ہیں۔ سب سے سنگین مسئلہ تفتان بارڈر پر عوام ساتھ پیش آنے والے اہلکاروں کے رویّوں کا ہے۔ وہاں عوامی شکایات کے اندراج اور فیڈ بیک کا کوئی نظام نہیں۔ لوگوں کے ساتھ سرکاری کارندے کیسے پیش آرہے ہیں، اس کی مانیٹرنگ نہیں ہو رہی۔ عوام کو وہاں کیا کیا مشکلات ہیں، انہیں جاننے اور سمجھنے کا کوئی بندوبست نہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ اگر پاکستان کے لاکھوں پروفیشنلز نیز ہزاروں مودّب و با اخلاق اہلکاروں میں سے صرف چند مہربان، انسانیت دوست اور فرض شناس آفیسرز کو تفتان بارڈر پر تعینات کر دیا جائے تو سالانہ لاکھوں مسافر آپ کو اربوں دعائیں دیں گے۔ یقین جانئے آپ کا بظاہر یہ چھوٹا سا قدم، عوام کے نزدیک ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
https://taghribnews.com/vdcdkn09zyt0xx6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ