تاریخ شائع کریں2024 20 March گھنٹہ 15:54
خبر کا کوڈ : 628959

غزہ جنگ و یوکرین روس جنگ

آج یوکرین جنگ کے تیسرے سال کے آغاز پر روس یوکرین کے چار صوبوں کے اکثر حصوں پر قابض ہو کر انہیں اپنے ساتھ ملحق کر چکا ہے جبکہ ایڈیوکا جیسے اسٹریٹجک شہر پر روس کے قبضے نے یوکرین پر اسٹریٹجک ضرب لگائی ہے اور مغرب نواز کیف حکومت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
غزہ جنگ و یوکرین روس جنگ
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر
بشکریہ:اسلامی ٹائمز

 
یورپی یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزف بوریل نے حال ہی میں کہا ہے کہ یوکرین میں روس کا اسپشل فوجی آپریشن شروع ہونے اور غزہ جنگ کے آغاز سے آخرکار مغربی عالمی تسلط کا دور اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ بوریل کا خیال ہے کہ اگر "مغرب بمقابلہ بقیہ" کی سمت موجودہ جیوپولیٹیکل تناو کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو مستقبل میں یورپ خطرات سے روبرو ہو جائے گا۔ بوریل اعتراف کرتے ہیں کہ مغربی تسلط کا دور درحقیقت یقینی طور پر ختم ہو چکا ہے اور یہ حقیقت اگرچہ تھیوری کے اعتبار سے واضح ہو چکی ہے لیکن ہم اسے درک کرنے قاصر رہے ہیں۔ دنیا کے موجودہ سیاسی، اقتصادی اور فوجی حالات، خاص طور پر دنیا کے دو حساس خطوں میں دو بڑی جنگیں، یعنی یورپ میں یوکرین جنگ اور مغربی ایشیا میں غزہ جنگ، شروع ہونے کے بعد یہ اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ مغرب خاص طور پر امریکہ کے تسلط کا زوال محض خیال نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت ہے۔
 
اگرچہ جوزف بوریل نے مغربی اور غیر مغربی ممالک میں دنیا کی تقسیم کیلئے مغرب اور جنوب کی اصطلاح استعمال کی ہے، جو خود اس یورپی حکومتی ذمہ دار کی خود کو برتر تصور کرنے کی علامت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاسی، اقتصادی اور فوجی شعبوں میں بین الاقوامی حالات، خاص طور پر برکس یا شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل نئی عالمی طاقتوں جیسے چین، روس، انڈیا، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ظہور کے تناظر میں مغربی تسلط کے تسلسل کیلئے شدید چیلنجز پیدا ہو چکے ہیں۔ اس بات کا اظہار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت مختلف سطح پر عالمی سیاست اور اقتصاد کی از سر نو تعریف کا مطالبہ زور پکڑ جانے سے بھی ہوتا ہے۔ امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ناطے چین کے بارے میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ وہ 2030ء تک دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن کر سامنے آ جائے گا۔
 
اسی طرح روس بھی نہ صرف یورپ بلکہ مغربی ایشیا اور لاطینی امریکہ میں مغرب، خاص طور پر امریکہ کا اصلی سیاسی اور فوجی حریف بن چکا ہے جو 1990ء کے عشرے میں ایک عرصہ زوال کا شکار رہنے کے بعد 2000ء کے بعد ولادیمیر پیوتن کے برسراقتدار آنے سے اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ واپس حاصل کرنے کی جانب گامزن ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر مسلط مغربی طاقتوں اور اس کی حریف طاقتوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ مغربی ممالک گذشتہ کئی صدیوں سے عالمی سطح پر تسلط قائم کئے ہوئے ہیں۔ سرد جنگ اور سرد جنگ کے بعد والے زمانے میں بھی امریکہ نے مغربی دنیا کا سرکردہ ہونے کے ناطے دنیا پر اپنی طاقت اور اثرورسوخ بڑھانے کیلئے بہت کوشش کی لیکن اس کے باوجود عالمی حالات اور ورلڈ آرڈر بنیادی تبدیلیوں کا شکار ہو چکا ہے اور اس وقت خود مغربی حکام بھی مغربی تسلط کا زمانہ ختم ہو جانے کا اعتراف کر رہے ہیں۔
 
اہم نکتہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر مغربی تسلط کے زوال کا سلسلہ بہت حد تک دنیا میں مغربی حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اور اقدامات ہیں جو انہوں نے گذشتہ چند صدیوں میں سامراجیت کی شکل میں اپنے زیر تسلط اقوام پر ظلم و ستم کی صورت میں انجام دیے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکرون نے اگست 2019ء میں کہا تھا کہ اب ہم دنیا پر مغربی تسلط کے خاتمے کے زمانے میں زندگی بسر کر ہے ہیں اور اس کی وجہ ماضی میں مغرب کی غلطیاں ہیں۔ جیسا کہ جوزف بوریل نے بھی اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے، مغربی تسلط کے خاتمے میں اہم موڑ دو جنگوں یعنی یورپ میں یوکرین جنگ اور مغربی ایشیا میں غزہ جنگ، کا آغاز ہے۔ یوکرین جنگ، مشرق کی جانب نیٹو کے پھیلاو اور روس کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششوں پر مبنی مغرب کی جارحانہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
 
آج یوکرین جنگ کے تیسرے سال کے آغاز پر روس یوکرین کے چار صوبوں کے اکثر حصوں پر قابض ہو کر انہیں اپنے ساتھ ملحق کر چکا ہے جبکہ ایڈیوکا جیسے اسٹریٹجک شہر پر روس کے قبضے نے یوکرین پر اسٹریٹجک ضرب لگائی ہے اور مغرب نواز کیف حکومت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ یوکرین جنگ، روس اور امریکہ کی سربراہی میں نیٹو کے درمیان زور آزمائی کے مترادف تھی اور مغربی ممالک نے بھاری اخراجات کے باوجود اس جنگ میں شکست کھائی ہے۔ دوسری طرف غزہ میں 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صیہونی رژیم کی شدید بمباری اور زمینی حملے سے غزہ جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں صیہونی فوج کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر نابودی اور فلسطینیوں کی نسل کشی انجام پائی ہے۔ غزہ جنگ بھی خطے اور دنیا میں مغربی اثرورسوخ کے زوال کا ایک اور ثبوت ہے۔
 
اگرچہ جرمنی، اٹلی اور فرانس سمیت کئی یورپ حکمرانوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کا ساتھ دیتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت اور حماس کی نابودی پر زور دیا ہے لیکن آج غزہ جنگ شروع ہوئے پانچ ماہ بعد غاصب صیہونی رژیم کی ذلت آمیز شکست واضح ہو جانے نیز عالمی سطح پر غزہ جنگ کی شدید عوامی مخالفت کے بعد جوزف بوریل سمیت مغربی حکام جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جوزف بوریل نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ دنیا کے جنوبی ممالک مغرب پر یوکرین جنگ اور غزہ جنگ کے بارے میں دوہرے معیار اپنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ البتہ انہوں نے اس الزام کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے دعوی کیا کہ روس نے یہ پروپیگنڈہ شروع کیا ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی مذمت کرنا تو دور کی بات ہے، ان کا اعتراف تک نہیں کیا۔ دوسری طرف جنگ بندی کی قراردادیں ویٹو کر کے صیہونی حکمرانوں کو مزید قتل و غارت اور نسل کشی کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
https://taghribnews.com/vdciwvaq3t1ar32.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ