تاریخ شائع کریں2024 18 March گھنٹہ 15:51
خبر کا کوڈ : 628754

غزہ کے ساحل پر مشکوک عارضی بندرگاہ

متحدہ عرب امارات نے بھی اس بندرگاہ کی تعمیر میں تعاون کا اعلان کیا ہے جس کے باعث اس راہداری اور بندرگاہ کے منحوس اہداف کے بارے میں مزید شکوک و شبہات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بائیڈن کا مقصد امریکی – صیہونی فوجی اتحاد کے ذریعے غزہ کی پٹی پر مارشل لاء کا نفاذ ہے۔
غزہ کے ساحل پر مشکوک عارضی بندرگاہ
تحریر: الہامی ملیچی (مصری تجزیہ کار)
بشکریہ:اسلامی ٹائمز

 
گذشتہ ہفتے جمعہ کے دن امریکی صدر جو بائیڈن نے فوج کو غزہ کے ساحل کے قریب ایک عارضی بندرگاہ قائم کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس عارضی بندرگاہ کا مقصد اہل غزہ کو انسانی امداد فراہم کرنا بیان کیا گیا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ امریکی فوج اہل غزہ پر جاری صیہونی جارحیت اور بربریت میں براہ راست شریک ہے۔ قابل وثوق ذرائع کے بقول اس وقت امریکہ کے 2 ہزار فوجی غاصب صیہونی رژیم کی فوج میں شامل ہو کر غزہ کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔ یہ تعداد امریکہ کے ان فوجی مشیروں کے علاوہ ہے جو 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کی ابتدا سے ہی صیہونی فوج سے تعاون کرنے میں مصروف ہیں۔ مزید برآں، امریکہ نے غزہ جنگ کے آغاز سے ہی صیہونی رژیم کو بھاری مقدار میں فوجی سامان فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
 
جب سے غزہ پر صیہونی جارحیت شروع ہوئی ہے، اس وقت سے آج تک امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو لاکھوں میزائل، بم، توپ کے گولے اور دیگر ممنوعہ ہتھیار فراہم کر چکا ہے جنہیں صیہونی فوج آئے دن بیگناہ فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی میں بروئے کار لا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں بزدل صیہونی جنگی مشینری کی جانب سے انجام پانے والے انسان سوز مظالم میں امریکہ مرکزی کردار کا حامل ہے۔ جب جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ اس نے اپنی فوج کو غزہ کے قریب عارضی بندرگاہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ قبرس سے انسانی امداد غزہ منتقل کی جا سکے اور 1 ہزار امریکی فوجی غزہ میں اس کام کی نظارت کریں گے، تو اسی وقت امریکی حکومت کا منصوبہ سمجھا جا سکتا تھا۔ یہ عارضی بندرگاہ صیہونی فوج سے مکمل سکیورٹی ہم آہنگی سے قائم کی جا رہی ہے جو بائیڈن حکومت کی بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 
متحدہ عرب امارات نے بھی اس بندرگاہ کی تعمیر میں تعاون کا اعلان کیا ہے جس کے باعث اس راہداری اور بندرگاہ کے منحوس اہداف کے بارے میں مزید شکوک و شبہات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بائیڈن کا مقصد امریکی – صیہونی فوجی اتحاد کے ذریعے غزہ کی پٹی پر مارشل لاء کا نفاذ ہے اور یہ مقصد انسانی امداد کی فراہمی کی آڑ میں حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انسانی امداد فراہم کرنے کے بعد یہ فوجی اتحاد مہاجرین کی غزہ کے شمالی اور مرکزی حصوں میں واپسی پر نظارت کرے گا جس کے بعد تعمیر نو کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی – صیہونی فوجی اتحاد آئندہ چند سالوں کی منصوبہ بندی کر چکا ہے تاکہ یوں فلسطینیوں کے اذہان میں صیہونی اثرورسوخ پختہ کر کے انہیں اپنے ناپاک عزائم میں ساتھ ملایا جا سکے۔
 
منصوبہ بندی کے تحت انسان دوستانہ راہداری کیلئے عارضی بندرگاہ کی تعمیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ فلسطین کی قومی سلامتی میں دراڑ ڈالنے کے درپے ہے۔ فلسطین، غاصب صیہونی رژیم اور امریکہ کے سکیورٹی اداروں کے زیر نظر چلا جائے گا۔ مزید برآں، اس عارضی بندرگاہ کو قبرس سے پہنچنے والا امدادی سامان دیگر ممالک منتقل کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اہل غزہ پر جنگ کے ذریعے انسانی امداد کی ضرورت تھونپ دی گئی ہے جبکہ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی زخمی بھی ہیں اور انہیں فوری میڈیکل مدد کی ضرورت ہے اور ایسے حالات میں رفح کراسنگ بند کر دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر مائیکل فخری ایک شجاع انسان ہیں جنہوں نے امریکہ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور جو بائیڈن کی اس پیشکش کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
 
فلسطین کی وزارت امور خارجہ نے اس بارے میں بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی یہ راہداری بہت سے خطرات کو جنم دے گی اور غزہ میں آبادی کے تناسب کو نشانہ بنائے گی جو وسیع پیمانے پر قتل عام، بھوک اور بنیادی ضروریات سے محروم ہو چکی ہے۔ اس بیانیے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے زمینی راستے سے غزہ کی انسانی امداد روک رکھی ہے جبکہ سمندری راستے سے اس کی اجازت دے رہی ہے۔ اس کا واحد مقصد غزہ پر فوجی قبضہ برقرار رکھنا اور غزہ کی پٹی کو مغربی کنارے سے جدا کرنا ہے تاکہ فلسطینی عوام کو جلاوطن کر سکے۔ اگرچہ امریکہ کا یہ منصوبہ بظاہر انسانی بنیادوں پر دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے پوشیدہ اہداف فلسطین کاز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ امریکی حکومت غزہ میں جنگ بندی کے بارے میں منافقانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
 
اس عارضی بندرگاہ کا ایک مقصد مصر کو غزہ سے دور کر کے مسئلہ فلسطین میں اس کا کردار ختم کرنا ہے۔ یوں امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم آسانی سے اہل غزہ کو جلاوطن کر کے صحرائے سینا بھیج سکیں گے۔ واضح ہے کہ غاصب صیہونی رژیم غزہ پر جارحیت کے آغاز سے ہی امریکہ کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت سے برخوردار رہی ہے۔ برطانیہ اور فرانس نے 1869ء میں اسرائیل کیلئے کینال سوئز تعمیر کی لیکن جمال عبدالناصر نے 1956ء میں اسے نیشنلائز کر دیا۔ اب اسرائیل مصر سے انتقام لینے کے درپے ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کا یہ خطرناک منصوبہ صرف ایک صورت میں ناکام ہو سکتا ہے اور وہ صورت مصری حکام کی جانب سے دو ٹوک اور شجاعانہ موقف اختیار کرنا ہے۔ ہم مصری حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس امریکی – صیہونی سازش کے مقابلے میں واضح اور دو ٹوک موقف اپنائیں۔
https://taghribnews.com/vdcbswb0arhb5zp.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ