تاریخ شائع کریں2024 15 March گھنٹہ 20:19
خبر کا کوڈ : 628354

15 مارچ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا دن

عالم اسلام کے چہرے کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے مشترکہ اسلامی ذرائع ابلاغ کی ترویج و ترقی۔ تنظیموں اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کروانا۔
15 مارچ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا دن
تحریر: سید احمد
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


آج 15 مارچ ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موضوع پر آگے بات ہوگی۔ اس سے پہلے اسلام اور روح اسلام پر بات کرتے ہیں۔ دین اسلام دین رحمت اور امن و سلامتی کا پیامبر ہے اور یہ قاعدہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اسی نے معاشرے میں امن و انصاف کے حصول اور ظلم و ناانصافی کی جڑیں ختم کرنے کے لئے پوری جدوجہد کی ہے اور کر رہا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات نیز احادیث نبوی (ص) میں بار بار امن اور انصاف کی تعریف و توصیف اور ظلم، تفریق اور ناانصافی کی مذمت ہوئی ہے۔ اسلام اتحاد، امن اور انسانی فطرت کو بیدار کرنے کے لئے آیا ہے، لیکن افسوس کہ امن و سلامتی کے اس نظام اور دین کو عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرہ کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے اور اسلامو فوبیا جیسی اصطلاح ایجاد کرائی گئی اور پھر آج کے دن کو ’’اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن‘‘ قرار دے کر مسلمانوں کے ساتھ ایک اور مذاق کیا جا رہا ہے۔

اسلامو فوبیا اصطلاح کا آغاز فرانسیسی زبان میں 1910ء میں کیا گیا، اسکے بعد انگریزی زبان میں اس کا استعمال 1923ء میں ملتا ہے. اس کے بعد بیسویں صدی کی 80 اور 90 کی دہائیوں میں اس کا استعمال ہوتا رہا مگر بہت ہی کم۔ تاہم 11 ستمبر 2001ء کے بعد اس لفظ کا استعمال کثرت سے شروع کیا گیا۔ 2022ء میں اسلام سے متعلق نفرت انگیز بیانات نیز آزادی اظہار رائے کو بنیاد بنا کر متنازع خاکوں کی تشہیر اور قرآنی نسخوں کی بے حرمتی کے بعد پاکستانی قیادت کی جانب سے مسلم رہنماؤں کے نام خط اور OIC میں قرارداد پیش کرنے کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی، جس میں 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا۔

اسلامو فوبیا کا لفظ بین الاقوامی سطح پر اسلام کو عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرہ کے طور پر متعارف کروانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ جو کہ اس لفظ کے معنی ہی سے ظاہر اور واضح ہے، یعنی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلام اور اسلامی شعائر سے خوف اور ان کے خلاف نفرت پیدا کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ اس کی روک تھام اور اس سے مقابلے کے لئے اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا ہے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دن کو ’’اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن‘‘  کا نام دینا زیادہ موثر اور اچھا اقدام ہے یا اس دن کو ’’اسلام محمدی کی شناخت کا عالمی دن‘‘ قرار دینا۔ جس سے مطلوبہ اور مناسب ہدف حاصل ہوتا اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام سے نفرت اور خوف میں کمی واقع ہوتی۔

اس دن کے حوالے سے مختلف مقالے لکھے اور نشر کئے جا چکے ہیں، جن میں بار بار اسی لفظ کو دہرایا گیا ہے اور ہر لکھنے والا اسلام ہراسی اور اسلامو فوبیا پر ہی بات کر رہا ہوتا ہے اور اسی موضوع کی نفی، علت، ذمہ داریوں اور لائحہ عمل پر لکھ رہا ہوتا ہے۔ میری مراد ان کو غلط ثابت کرنا یا ان پر تنقید کرنا نہیں بلکہ مجھے اس دن کے نام پر اعتراض ہے۔ یقیناً اگر اس دن کا نام ’’اسلام محمدی کی شناخت کا عالمی دن‘‘ ہوتا تو یہی لکھاری اپنا وقت اسلامو فوبیا کی وضاحت اور اس کے تدارک اور علت کے بجائے حقیقی اسلام کی شناخت اور اسلامی مفاہیم کی صحیح تفسیر اور وضاحت کرکے ان کو اسلام سے روشناس کرواتے اور ان کے ذہنوں سے وہ خوف اور نفرت مٹاتے، جو اصل اور اوریجنل اسلام کے بجائے خود ساختہ اس اسلام نے ان کے دلوں میں بیٹھا رکھا ہے، جسے امام خمینی نے امریکی اسلام کا نام دیا ہوا ہے۔ کیونکہ ان کا اصل مقصد اور ہدف نہ صرف اسلام کی حقیقت سے لوگوں کو دور رکھنا ہے، بلکہ اس دین کی حقیقت کے بارے میں لوگوں کے ادراک اور سوچ کو بدلنا ہے۔ ان کا کام رائے عامہ میں اسلام کی تشہیر  اور ایسے اسلام کو فروغ دینا ہے، جو ترقی اور انسانی حقوق کے خلاف نیز شر اور جنگ کا خواہاں ہو۔

درحقیقت اسلامو فوبیا کی سب سے بڑی اور اصل وجہ ہی امریکی اسلام کی طرف سے اسلامی اقدار، احکام اور مفاہیم جیسے جہاد، حجاب اور اسلامی حکومت کی غلط تشریح و توضیح ہے۔ اگر دین اسلام کی صحیح معنوں میں تفسیر ہوتی اور حقیقی اسلام سے ان کو شناسائی ہوتی تو وہ کبھی بھی انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر ایسے توہین اور بے ہودہ کام انجام نہ دیتے، کیونکہ انسانی حقوق، انسانی آزادی اور انسانیت کا معیار وہی ہے، جو اسلام نے بیان کیا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اسلامو فوبیا ایک مقدمہ ہے اور اس کا دوسرا قدم اسلام کے خلاف جنگ ہے اور اصل ہدف اور نتیجہ مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی ہے، جس کی مقدماتی نمائش ہم افغانستان، عراق، شام، یمن وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں اور جس کا ایک عملی نمونہ اس وقت فلسطین میں دیکھ رہے ہیں۔

اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے بہت سے راہ حل بیان ہوئے ہیں، جن کو عالم اسلام کے محققین اور سیاست دانوں نے بیان کیا ہے، لیکن اصل راہ حل مسلمانوں، بالخصوص مسلمان حکمرانوں کی جانب سے اسلامی نظام کا مکمل قیام ہے، کیونکہ اسلامی نظام کا قیام ہی دین اسلام کا تحقق ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جس کو آج کا مسلمان بلکہ مجموعی طور پر ہر انسان محسوس کر رہا ہے۔ اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ کے پس منظر اور اس کے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیے عالم اسلام کے محققین اور سیاست دانوں نے کچھ حکمت عملی تجویز کی ہے۔

منجملہ:
عالم اسلام کے چہرے کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے مشترکہ اسلامی ذرائع ابلاغ کی ترویج و ترقی۔ تنظیموں اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کروانا۔ مغربی مذہبی مراکز کے ساتھ منظم اور وسیع رابطہ قائم کرانا۔ انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی پر مبنی افکار کو ختم کرنے کے لیے تہذیبی تبادلوں کو مضبوط کرانا۔ اسلام کے حقیقی چہرے کے تعارف کے لیے ضروری سہولیات (مطالعہ اور سیاحت) پیدا کرنا۔ اسلامی دنیا کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اسلام کے بنیادی اصولوں پر توجہ دے کر تقریب بین المذاہب اسلامی کو فروغ دینا۔ جمہوری نظام کو مضبوط کرکے اسلامی ممالک کے نظم و نسق میں عوامی رائے کو اہمیت دینے کی ضرورت۔ مذہبی انتہاء پسندی کے خلاف جنگ۔ انتہاء پسندوں اور حقیقی مسلمانوں کے مابین فرق واضح کرانا۔
https://taghribnews.com/vdchm6n-k23nixd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ