تاریخ شائع کریں2024 15 March گھنٹہ 17:16
خبر کا کوڈ : 628353

فلسطینی نسل کشی اور امریکہ

دوسری طرف اسرائیلی بمباری میں مساجد اور چرچ اڑا دیئے جاتے ہیں، مگر امریکہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ دہرے معیارات ہی دنیا بھر میں امریکہ سے نفرت کا باعث بنتے ہیں۔
فلسطینی نسل کشی اور امریکہ
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


اہل فلسطین پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں، آسمان سے طیارے آگ برسا رہے ہیں اور زمین پر معمولی سی حرکت کے تعاقب میں اسرائیلی وحشی معصوم بچوں تک کو شہید کر رہے ہیں۔ دنیا کی طاقتور ترین فوج، مغرب اور امریکہ کی مکمل سرپرستی بلکہ امریکی صدر کی طرف سے بلنک چیک ہے، جو مرضی لکھ کر دو، وہ دے دیا جائے گا۔ اس سب کے باوجود چھ ماہ ہونے کو ہیں اور زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا قبضے میں نہیں لیا جا سکا۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جیوبائیڈن کو وہ سپورٹ نہیں مل رہی، جس کی وہ توقع کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم اور عرب ووٹ اس کے سو فیصد خلاف پڑ رہا ہے۔ ابتدائی الیکشن کے رزلٹس نے ڈیموکریٹس کو بہت پریشان کر دیا ہے۔ امریکہ ہو یا دیگر مغربی ممالک وہاں کے آزاد انسان اہل غزہ کے لیے مرثیہ خواں ہیں۔ لندن، پیرس اور نیوریارک کی سڑکوں پر عام یہودی ربی بھی اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم اس نسل کشی کے خلاف ہیں۔

مہدی حسن نے بالکل درست کہا کہ جتنے بچے اس حملے میں شہید ہوئے ہیں، ان کی تعداد روانڈا کی نسل کشی سے بڑھ چکی ہے۔ اس قتل عام  کے خلاف اقدام کرنا تو دور کی بات پوری امریکی ریاست اسرائیل کے تحفظ میں لگی ہوئی ہے۔ اس وقت لگ بھگ 14 لاکھ فلسطینی مصر کی سرحد سے متصل علاقے رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل ہر صورت میں پورے غزہ پر قبضہ چاہتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اب اسرائیل کی طرف سے ایک ظالمانہ تجویز آئی ہے۔ رفح میں پناہ گزین چودہ لاکھ، یا ان میں سے بڑی تعداد کو جزیروں میں منتقل کیا جائے۔ یہ جزیرے غزہ میں ہی بنائے جائیں گے یا کہیں اور بنائے جائیں گے؟ پہلے ہی اہل غزہ ایک بڑی جیل میں قید ہیں اور ان پر دنیا کے دروازے بند کیے جا چکے ہیں۔

وہ تین اطراف سے اسرائیل اور باقی اسرائیل نما مصر میں گھرے ہوئے ہیں۔بجائے اس کے کہ مصر اسرائیل کی مذمت کرتا، اس نے کہا ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ فلسطینی مہاجرین رفح کی سرحد عبور کرکے مصر میں داخل ہوں۔ مصر کو یہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں غزہ کے مہاجرین مصر داخل نہ ہو جائیں۔ دنیا کو انسانی حقوق پر لیکچر دینے والے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کی بات سنیں۔ فرماتے ہیں کہ رفح میں فوجی کارروائی کی صورت میں ہمیں ایک ایسے منصوبے کی ضرورت ہے، جس کے نتیجے میں شہریوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ سبحان اللہ اسے فوجی کارروائی پر کوئی اعتراض نہیں۔اسی صورت میں شہریوں کی جانیں بچ سکتی ہیں کہ اسرائیلی فوج اسلحہ استعمال نہ کرے۔

ویسے اسرائیل نے تو امریکی صدر کی جنگ بندی پر بھی کان نہیں دھرے۔ مسلم ووٹر کے دباو کی وجہ سے وہ چاہتا تھا کہ کچھ دنوں کی جنگ بندی ہو جائے۔ ویسے امریکہ کو دنیا بھر میں انسان حقوق اور جمہوریت کی فکر ستائے رکھتی ہے۔ ٹیکساس سے منتخب ہونے والے رُکنِ کانگریس کی جانب سے لکھے گئے خط پر مزید 30 اراکین کے دستخط بھی موجود تھے۔ اس خط میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستانی حکام پر واضح کیا جائے کہ امریکی قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب کرتا ہے۔ یعنی پاکستان میں ووٹ کس نے کسے دیا یا نہیں دیا، یہاں کس سیاسی جماعت کی کیا صورتحال ہے؟ اس پر امریکہ اپنے قانون کے مطابق سبق پڑھانے کا حق رکھتا ہے۔

میرے خیال میں ہزاروں بے گناہ بچوں کو قتل کرنے، ہسپتالوں، مساجد اور چرچوں کو اڑانے اور مہاجر کیمپوں پر بمباری کرنے کے بارے میں امریکی قانون کچھ نہیں کہتا؟!! اس لیے اس پر امریکی سینیٹ میں کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور ہر سو خاموشی ہے۔ اصل مسئلہ ووٹوں کا ہے، امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں عمران خان کی مقبولیت ہے، ان کا کافی بڑی تعداد میں ووٹ ہے، اس ووٹ کو بٹورنے کے لیے یہ ہوسکتا ہے، مگر اہل فلسطین کے لیے نہیں ہوسکتا۔ امریکہ انسانی اور مذہبی حقوق کے لیے کتنا حساس ہے؟ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک ٹوپی اتارنے پر سعودی عرب سے پورا وفد واپس بلا لیا گیا۔ خبر ملاحظہ ہو روایتی یہودی ٹوپی"کپہ" اتارنے پر تنازع، امریکی وفد سعودی عرب سے واپس آگیا۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کہا ہے کہ اس کا وفد یونیسکو کے عالمی ورثے کے ایک تاریخی قصبے دیریہ کے دورے میں جب ریاض کے قریب پہنچا تو کمیشن کے سربراہ، آرتھوڈکس ربی ابراہام کوپر نے کپہ اتارنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے عہدے داروں نے کوپر سے درخواست کی تھی کہ وہ اس مقام پر اور اس وقت جب وہ وہاں کسی بھی وقت عوام کے سامنے ہوں، "کپہ" سر سے اتار دیں۔ ہم ہر انسان کی مذہبی آزادی کے قائل ہیں، اسے اس پر عمل کی آزادی ہونے چاہیئے۔ بات امریکی ڈبل سٹینڈرڈ کی ہو رہی ہے، ایک طرف صرف ٹوپی اتارنے کی درخواست پر دورہ ملتوی ہو جاتا ہے کہ یہ امریکی مزاج نازک پر ناگوار گزرتا ہے۔

دوسری طرف اسرائیلی بمباری میں مساجد اور چرچ اڑا دیئے جاتے ہیں، مگر امریکہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ دہرے معیارات ہی دنیا بھر میں امریکہ سے نفرت کا باعث بنتے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ رفح میں فوجی کارروائی اسرائیل کے حماس کو ختم کرنے کے ہدف کے لیے اہم ہے۔ کوئی نیتن یاہو کو بتائے کہ اس کی یہ حکمت عملی ایک حماس ختم نہیں کرے گی بلکہ حماس کی طرح کی دس تنظیموں کی بنیاد رکھ دے گی۔ جن تیس ہزار جیتے جاگتے لوگوں کو تم نے مارا ہے، ان کے بھائی، ان کے بچے اور ان کی بہنیں سب اگلی نسل کو بھی تم سے نفرت کی تعلیم دے کر جائیں گی اور انہیں جب بھی موقع ملے گا، وہ تم سے ضرور اس کا بدلہ لیں گے۔
https://taghribnews.com/vdcgn793wak9xw4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ