تاریخ شائع کریں2024 14 March گھنٹہ 13:15
خبر کا کوڈ : 628286

فلسطینی قیدیوں کی سنگین صورتحال

صہیونی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کا اوسط وزن 15 سے 25 کلو گرام کے درمیان ہوگیا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو جو تھوڑا سا کھانا پہنچایا جاتا ہے، اس میں بھی صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
فلسطینی قیدیوں کی سنگین صورتحال
تحریر: سید رضا عمادی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


فلسطینی قیدیوں کے ادارے نے اپنے ایک بیان میں صہیونی جیلوں میں موجود  فلسطینی قیدیوں کی سنگین صورتحال کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ جنگ کے آغاز سے قبل صہیونی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی۔ گذشتہ پانچ ماہ کے دوران جب صیہونی حکومت نے غزہ کے خلاف نسل کشی کی تو فلسطینی قیدیوں کی تعداد تقریباً دوگنی ہوگئی ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے ادارے کے مطابق صیہونی حکومت کی جیلوں میں 9,100 فلسطینی (جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں) بند ہیں اور ان کی حالت انتہائی خراب ہے۔ صیہونی حکومت نے غزہ میں نسل کشی کے علاوہ فلسطینی قیدیوں کے خلاف تشدد میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے ادارے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی جیلوں کی تنظیم نے فلسطینی قیدیوں کے خلاف دباؤ بڑھا دیا ہے۔

القدس کی قابض حکومت کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں سے ایک انہیں بھوکہ رکھنا ہے۔ صیہونی حکومت کی جیلوں کی تنظیم نے قیدیوں کو بھوکہ رکھنے کی پالیسی کو منظم طریقے سے نافذ کیا ہے۔ درحقیقت قیدیوں کو بھوکہ رکھنے کی پالیسی سب سے خطرناک پالیسیوں میں سے ایک ہے، جو القدس کی قابض حکومت نے 7 اکتوبر سے لے کر ابھی تک قیدیوں پر لاگو کر رکھی ہے۔ مرد قیدیوں پر تشدد کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ قیدیوں کو بھوکہ رکھنے سے فلسطینی قیدیوں کا نظام انہضام خراب ہوتا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر جسمانی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ قیدیوں اور آزادی سے متعلق امور کی کمیٹی (فلسطینی اتھارٹی سے وابستہ) نے حال ہی میں فلسطینی قیدیوں کو بھوکہ رکھنے کی اس پالیسی کے خلاف خبردار کیا تھا، جس میں صہیونی حکام اس حکومت کی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے خلاف عمل پیرا ہیں۔

ایک بیان میں اس کمیٹی نے متعدد فلسطینی اسیران کے ساتھ اپنے وکلاء کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ صہیونی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کا اوسط وزن 15 سے 25 کلو گرام کے درمیان ہوگیا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو جو تھوڑا سا کھانا پہنچایا جاتا ہے، اس میں بھی صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ آلودہ مواد سے غذا کی تیاری اور استعمال کے غلط طریقوں نے فلسطینی قیدیوں کے جسم کو مختلف وائرس اور بیماریوں سے دوچار کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں، شائع شدہ رپورٹس کے مطابق، بیمار قیدیوں کی تعداد میں اضافہ واضح ہے اور قابضین کی جانب سے 7 اکتوبر کے بعد سے فاقہ کشی کو اجتماعی سزا کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ صہیونی جیلوں کی تنظیم بیمار قیدیوں کا علاج کرنے سے انکاری ہے اور انہیں ادویات بھی فراہم نہیں کرتی ہے۔

قیدیوں اور آزادی کے امور کی کمیٹی (فلسطینی اتھارٹی سے وابستہ) نے اس تناظر میں تاکید کی ہے کہ بیمار قیدیوں کی دوائیوں اور علاج سے محرومی جو اس سال کی شدید سردی میں ہوئی، نے ان کی صحت پر بہت زیادہ اثر ڈالا، کیونکہ قابضین نے ان کا علاج نہیں کیا۔ اسی طرح قیدیوں کو جیلوں میں داخل ہونے کے لیے موزوں لباس کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسی وقت جس طرح قیدیوں کو صحت کے حوالے سے سنگین صورتحال کا سامنا ہے، صیہونی حکومت نے ایک اور جرم کا اضافہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کو ان کے مذہبی حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی صیہونی حکومت فلسطینی قیدیوں کو ان کی مذہبی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے روک رہی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcbwwb00rhb55p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ