تاریخ شائع کریں2024 12 March گھنٹہ 16:21
خبر کا کوڈ : 628066

فلسطینی مجاہدین اور غاصب صیہونی رژیم

اس قدر فوجی حمایت اور انسان سوز جرائم انجام دینے کے باوجود اب تک غاصب صیہونی رژیم کی شکست اور ناکامی کی اصل وجہ "فلسطینیوں کی مزاحمت" ہے۔
فلسطینی مجاہدین اور غاصب صیہونی رژیم
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز

 
360 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل غزہ کی پٹی کے خلاف گذشتہ پانچ ماہ سے غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت جاری ہے۔ اس مدت میں صیہونی جنگی طیارے 6 ہزار 600 مرتبہ غزہ پر فضائی حملے انجام دے چکے ہیں جن میں 39 ہزار 600 میزائل اور بم گرائے گئے ہیں۔ اسی طرح صیہونی فوج کے 2 ہزار ٹینک بھی غزہ میں گھس کر مسلسل گولہ باری کرنے میں مصروف ہیں جبکہ سمندر سے بھی صیہونی جنگی کشتیاں غزہ پر گولہ باری کر رہی ہیں۔ اس بات پر بھی توجہ رہے کہ ان پانچ ماہ کے دوران غزہ مکمل طور پر ناکہ بندی کا شکار ہے اور عالمی اداروں نے بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر انسانی امداد غزہ بھیجی ہے۔ اس کے باوجود جرائم پیشہ صیہونی فوج کے اعلی سطحی کمانڈرز کے تازہ ترین بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے شروع کے نقطے پر کھڑے ہیں۔
 
غزہ پر اس قدر ظلم و ستم اور مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے باوجود صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو نے تین دن پہلے کہا: "ہم نے اپنا وجود برقرار رکھنے کی ضمانت فراہم کرنے کیلئے یہ جنگ شروع کی تھی۔" اس نے مزید کہا: "فتح کے حصول تک اسرائیلی فورسز دشمن پر کاری ضرب لگانے کی کوشش جاری رکھیں گی۔" یہاں ایک اہم اور بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "جب صیہونی رژیم پانچ ماہ کی مسلسل بمباری اور تقریباً 40 ہزار میزائل مارنے اور 30 ہزار سے زیادہ فلسطینی بچوں اور خواتین کو قتل کرنے اور غزہ کی پٹی کا پانی، کھانا اور دوائیاں بند کر کے اب بھی جنگ کے پہلے نقطے پر کھڑی ہے تو اسے اپنے اہداف کے حصول کیلئے مزید کتنے دن درکار ہوں گے اور مزید کتنے بم اور میزائل غزہ پر گرانے ہوں گے؟" یہ سوال اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ جنگ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتی۔
 
غاصب صیہونی رژیم کو اب تک غزہ کے خلاف فوجی جارحیت میں مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ہیومن رائٹس واچ نے اعلان کیا ہے کہ 6 مارچ کے دن جبالیا پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں برطانیہ کی جانب سے حال ہی میں فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا۔ یاد رہے اس حملے میں سینکڑوں فلسطینی مہاجرین شہید اور زخمی ہو گئے تھے۔ امریکی صدر نے بھی تین دن پہلے دوبارہ حماس کے مقابلے کی آڑ میں فلسطینیوں کے وسیع قتل عام کو قانونی جواز فراہم کیا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اپنے انٹیلی جنس ذرائع کے بقول کہا ہے کہ امریکہ غزہ جنگ کے دوران اب تک مسلسل اسرائیل کی فوجی مدد کرنے میں مصروف رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے صیہونی رژیم کی بھرپور فوجی مدد کا واحد نتیجہ غزہ کی نابودی اور فلسطینیوں کے قتل عام کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
 
اس قدر فوجی حمایت اور انسان سوز جرائم انجام دینے کے باوجود اب تک غاصب صیہونی رژیم کی شکست اور ناکامی کی اصل وجہ "فلسطینیوں کی مزاحمت" ہے۔ یہ وہ تالا ہے جو مجرمانہ اقدامات اور بیرونی امداد کی چابی سے نہیں کھل سکتا۔ جب پانچ ماہ تک نہیں کھل پایا تو آئندہ پچاس ماپ تک بھی نہیں کھل پائے گا۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت تین بڑی کامیابیوں کی حامل ہے: پہلی کامیابی 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن میں حاصل ہوئی اور اسرائیل اور مغربی ممالک اب تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے؛ دوسری کامیابی اسرائیلی یرغمالی ہیں جو نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے سربراہان کیلئے بہت بڑا مسئلہ بن چکے ہیں اور تیسری کامیابی صیہونی جارحیت کے خلاف پانچ ماہ سے فلسطینی مجاہدین اور عوام کی باہم متحد ہو کر مزاحمت کرنا ہے جس نے عالمی سطح پر ان کے ناقابل تسخیر ہونے کی تصویر پیش کی ہے۔
 
فلسطینی مجاہدین اور عوام کی بے مثال مزاحمت کے نتیجے میں مدمقابل دشمن کے حوصلے شدید پست ہو چکے ہیں۔ چند دن پہلے اسرائیلی ویب سائٹ "والا" نے ایک اہم فوجی ذریعے کے بقول لکھا: "اس وقت فوج غزہ کی پٹی میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہے جبکہ اسرائیل کی جنگی کابینہ اور فوجی سربراہان کے درمیان رفح پر ممکنہ زمینی حملے کے بارے میں شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔" لہذا وہ فوج جس نے اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنے کیلئے غزہ پر زمینی حملہ کیا تھا اب خود کمزور ہو چکی ہے۔ ایسی فوج کس طرح جنگ جاری رکھ سکتی ہے اور کس جذبے سے اور کس سطح کی کامیابی کی امید سے جنگ آگے بڑھا سکتی ہے؟ لیکن دوسری طرف اسلامی مزاحمت کا مورال اتنا بلند ہے کہ حماس کے ایک اعلی سطحی رہنما محمود مرداوی نے جامع جنگ بندی کے معاہدے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
 
انہوں نے کہا: "جب تک جامع اور ہمہ جہت جنگ بندی، غزہ سے صیہونی فوج کا مکمل انخلاء، شمالی غزہ سے جلاوطن فلسطینیوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیر نو کا حتمی معاہدہ طے نہیں پا جاتا ہم قیدیوں کے تبادلے پر کوئی مذاکرات انجام نہیں دیں گے۔" دلچسپ بات یہ ہے کہ فلسطین سے باہر حماس کے سیاسی رہنما جو کافی عرصے سے فلسطین کی مکمل آزادی کی بات نہیں کرتے تھے جس کے باعث ان پر صیہونی رژیم سے سازباز کا الزام بھی عائد کیا جاتا تھا، وہ بھی ان دنوں واضح طور پر فلسطین کی مکمل آزادی اور سمندر سے دریا تک فلسطینی ریاست کی تشکیل کی بات کر رہے ہیں۔ اس بارے میں خالد مشعل کا بیان خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کو دیگر مزاحمتی گروہوں جیسے حزب اللہ لبنان، حزب اللہ عراق اور انصاراللہ یمن کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔  
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ
https://taghribnews.com/vdch-6n--23nivd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ