تاریخ شائع کریں2024 11 March گھنٹہ 19:17
خبر کا کوڈ : 627971

اہل غزہ کا اس دنیا میں کوئی حامی اور پرسان حال نہیں

احمد جاوید صاحب مظلوموں کی مدد کریں، خواہ ایران کرے، سعودیہ کرے یا قطر کرے۔ اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے ایسا کرنے سے ہمیں روکا ہے۔
اہل غزہ کا اس دنیا میں کوئی حامی اور پرسان حال نہیں
تحریر: سید اسد عباس
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


"ایران اہل غزہ کی اس لیے مدد کر رہا ہے، تاکہ وہ شیعہ ہو جائیں، اس وقت اہل غزہ کی مدد کرنا ایسے ہی ہے جیسے اسرائیل سے بڑی آفت کو عالم اسلام پر مسلط کرنا۔" جس انسان کی یہ سوچ ہو، اسے اگر فرقہ وارانہ سوچ کا حامل انسان کہا جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔ احمد جاوید صاحب کے یہ الفاظ اس امر کے غماض ہیں کہ وہ خارجی حقائق سے بالکل نا آشنا ہیں۔ جوانی کے الہامات کو وہ کشف حقائق سمجھ کر ان کے ذریعے نوجوان اذہان کو آلودہ کر رہے ہیں۔ اگر احمد جاوید صاحب نے تحریک آزادی کی تاریخ پڑھی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا کوئی بھی اجلاس ایسا نہیں ہوتا تھا، جس میں فلسطین کے مسئلے پر بات نہ کی جاتی ہو۔ دنیا میں پہلا یوم فلسطین برصغیر میں منایا گیا۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کا پراجیکٹ بھی ایرانی پراجیکٹ ہے اور قدس کا مسئلہ اہل فلسطین کو شیعہ کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔

احمد جاوید صاحب مظلوموں کی مدد کریں، خواہ ایران کرے، سعودیہ کرے یا قطر کرے۔ اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے ایسا کرنے سے ہمیں روکا ہے۔ خدا را غزہ کے مظلومین کے زخموں پر فرقہ واریت کی نمک پاشی نہ کریں۔ اگر خداوند کریم نے آپ کو اہل علم میں کوئی حیثیت و مقام دے دیا ہے تو اس پاس رکھیں۔ کیا آپ کی نظروں سے اہل غزہ کے مصائب و آلام نہیں گزر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ غزہ کے حالات پر مشتمل تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر انسان کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ کوئی تصویر اور منظر ایسا نہیں جسے مکمل طور پر دیکھا جاسکے۔ ایک جانب زخمی بچے ہیں، کفن میں لپٹی لاشیں، ملبے تلے دبے ہوئے اجساد ہیں اور دوسری جانب ہاتھوں میں کین تھامے پانی کی قطاروں میں کھڑے معصوم بچے اور خواتین۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اہل غزہ کا اس دنیا میں کوئی حامی اور پرسان حال نہیں۔ یہ قیامت ان پر آٹھ اکتوبر 2023ء سے برس رہی ہے۔ ٹھیک ایک دن بعد سے جب حماس نے مقبوضہ فلسطین کے مختلف علاقوں میں حملہ کیا۔ اس اچانک حملے کے بعد  عالم اسلام کے بہت سے ممالک کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ تقریباً ہر مسلمان نے خوشی کا اظہار کیا۔ بات بھی ایسی تھی، حماس نے ایک عالمی غنڈے کی طاقت و قدرت کو خاک میں ملا دیا تھا۔ اسرائیلی انٹیلیجنس، اسرائیلی دفاعی نظام مکمل طور پر مفلوج ہوگیا۔ اسرائیلی شہروں پر میزائلوں کی بارش ہوئی، کئی اسرائیلی قیدی بنا لیے گئے یہ ان ہزاروں فلسطینیوں کا بدلہ تھا، جو اسرائیلی تشدد اور گولیوں کا نشانہ بنے۔

معاملات کو جذبات کے بجائے ہوش سے دیکھنے والے مبصرین کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ایک تناسب سے بڑھا ہوا حملہ ہے۔ چھاپہ مار جنگوں اور تحریک ہائے حریت کا ایک اصول ہے کہ حملہ ایک تناسب سے کیا جائے۔ ان حملوں کا مقصد مسئلہ کو زندہ رکھنا ہوتا ہے، چھوٹی کارروائی اور کامیابی کے ذریعے مسئلہ کو زندہ رکھا جاتا ہے، تاہم حماس نے ایک بڑا حملہ کیا۔ اسرائیل نے اس کا جواب بھی بڑا دیا، جو چھٹے ماہ بھی جاری ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ حماس کی جانب سے فائر ہونے والے میزائل کب سے نہیں چلے۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اکتیس ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہیں۔

مکانات، مارکیٹیں، مساجد، یونیورسٹیاں، دیگر تعلیمی ادارے، ہسپتال، زندگی کے وسائل سبھی تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ اب تو امدادی کاروان بھی محفوظ نہیں۔  زخمیوں کے علاج کی سہولیات اب غزہ میں ناپید ہیں، پانی کے ذخائر تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ ایسے میں دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ خاموشی عذاب الہیٰ کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کوئی بھی مسلمان ملک کسی بھی وجہ سے غزہ میں ہونے والے قتل عام کی مسئولیت سے فرار نہیں کرسکتا ہے۔ ممکن ہے کچھ مسلم ممالک کو حماس کے حملے سے اختلاف ہو، اسرائیل کے خلاف عسکری کارروائیوں سے اختلاف ہو، لیکن جو کچھ آج غزہ میں ہو رہا ہے، اس کا کوئی بھی جواز یا توجیہہ پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔

عالم اسلام بالخصوص مسلم حکمرانوں اور ذمہ داران کی ذمہ داری تھی کہ اسرائیل کو جیسے بھی ہوتا، ان حملوں سے روکتے۔ اس کے لیے سفارت کاری، مصالحت، سیاسی اثرورسوخ ہر ذریعہ استعمال کیا جانا چاہیئے تھا۔ شاید بعض ممالک نے اپنے تئیں کوششیں کی بھی ہوں، لیکن یہ کوششیں بے سود رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ گفتگو کے ذریعے اس مسئلہ کا کوئی قابل عمل حل تلاش کیا جاتا۔ غزہ کی بیس لاکھ آبادی کو اسرائیلی قصابوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کسی صورت بھی حل نہیں ہے۔ حملے کے ابتدائی ایام میں اردن کے وزیر خارجہ کا بیان پڑھ کر بہت دکھ ہوا، جس نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ جو چاہے غزہ میں انجام دے، اردن اس سلسلے میں مداخلت نہیں کرے گا۔

او آئی سی خاموش تماشائی ہے، اس ادارے میں بیٹھنے والے ذہین دماغ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل کانفرنسوں اور سیمینارز کے انعقاد نیز اعلامیے جاری کرنا نہیں ہوتا۔ عرب لیگ بھی اعلامیے جاری کرنے پر ہی اکتفاء کیے ہوئے ہے۔ حزب اللہ لبنان، انصار اللہ اور حشد الشعبی اپنی استطاعت کے مطابق اسرائیل کے خلاف کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ اس موقع پر شہید قاسم سلیمانی یاد آتے ہیں، جنھوں نے داعش کے عراق اور شام پر حملے کے بعد ایک رات بھی شائد سکون سے نہ گزاری ہو۔ قاسم سلیمانی نے مغربی قوتوں کی حمایت سے اٹھنے والی حرکت کو کچل کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ عراق میں حشد الشعبی کا فقط تین ماہ میں قیام، شام میں مقاومتی گروہوں کی آمد قاسم سلیمانی کی محنتوں اور کاوششوں کا نتیجہ تھی۔ آج قدس اور غزہ کے عوام کسی قاسم سلیمانی کے منتظر ہیں۔

غزہ میں جو مظالم روا رکھے جا رہے ہیں، اہل اسرائیل اور مغربی قوتوں کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ ان کا عکس العمل ان کے معاشروں میں ضرور دکھائی دے گا۔مسلمان حاکموں کی خاموشی سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ مسلم عوام بھی اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ اہل مغرب اور اسرائیل کو  یہ بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ حماس کی عسکری صلاحیت کے خاتمے سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ مسئلہ فلسطین یا مقاومت کا دیا ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا ہے۔ فلسطین کا ہر جوان، غزہ کا ہر باسی، مسلمانوں کی پیدا ہونے والی نسلیں اپنے ہر شہید کا انتقام لیں گی۔ غزہ اس وقت تک زندہ ہے، جب تک ایک بھی فلسطینی اور باغیرت مسلمان اس دنیا میں موجود ہے۔

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، مسلمانوں کو اس ماہ مغفرت میں اپنی گذشتہ کوتاہیوں سے توبہ کرتے ہوئے اہل غزہ کی مدد کے لیے میدان عمل میں اترنا چاہیئے۔ مسلمانوں کو چاہیئے کہ بھوک، پیاس، ادویات کی کمی کے شکار مظلومین اہل غزہ کو کسی قیمت پر غیروں کے رحم کرم پر مت چھوڑیں۔ انروا، عالمی امدادی اداروں سے زیادہ آج اہل غزہ کو اپنے مسلمان بھائیوں کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ ہماری چھوٹی سی کاوش ہمارے دامن کو ظلم پر خاموشی کے داغ سے پاک کر دے۔ خداوند کریم مظلومین جہان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
https://taghribnews.com/vdcbzzb08rhb59p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ