تاریخ شائع کریں2024 1 March گھنٹہ 17:04
خبر کا کوڈ : 626813

ولایت فقیہ، تشیع اور امت مسلمہ کو درپیش خطرات

شیعہ امامت کو نبوت پر فائق جانتے ہیں، یہاں تو احمد جاوید صاحب کا تمام کا تمام علم اور تجربہ نہ فقط مشکوک ہوگیا بلکہ اس کی کوئی قدر و قیمت نہ رہ گئی۔
ولایت فقیہ، تشیع اور امت مسلمہ کو درپیش خطرات
تحریر: سید اسد عباس
بشکریہ:اسلامی ٹایمز


پاکستان کے معروف نقاد، فلسفی اور صوفی مبلغ جناب احمد جاوید جن کو گذشتہ برس جامعہ العروۃ الوثقی میں رد الحاد پر ایک لیکچر کے لئے مدعو کیا گیا تھا پاکستان کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ عروۃ الوثقیٰ کے اس لیکچر کے اختتام پر احمد جاوید صاحب کو مہتمم جامعہ نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامعہ میں ایک شعبہ قائم کرنے کی دعوت دی۔ احمد جاوید صاحب نے وہ تجویز قبول کی یا نہیں، عروۃ الوثقی نے دوبارہ رابطہ کیا یا نہیں، معلوم نہ ہوسکا۔ بہرحال احمد جاوید صاحب نے عروۃ الوثقی میں اس کے بعد لیکچر نہ دیا۔ انہی  احمد جاوید صاحب نے گذشتہ دنوں غزہ کی صورتحال پر درج بالا عنوان کے تحت ایک ویڈیو بنائی اس ویڈیو میں اگرچہ انہوں نے بہت سی فلسفی باتیں بھی کیں، تاہم ان کی گفتگو کا ایک حصہ ولایت فقیہ، تشیع اور امت مسلمہ کو درپیش خطرات سے متعلق تھا۔ اس گفتگو کے چند ایک اقتباسات  اور ان پر ایک تبصرہ حسب ذیل ہے۔

احمد جاوید صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا:
"ولایت فقیہ یعنی ایران کا سیاسی نظام، نیابت امام ہے اور اپنی جگہ پر ویسے ہی اتھارٹی رکھتا ہے جیسی اتھارٹی امام سے منسوب کی جاتی ہے۔ روایتی تشیع اس کی اب بھی قائل نہیں ہیں۔ مکتب تشیع  کیا ہے؟ کا جواب دینے والے اکثر علماء اور مراجع ولایت فقیہ کے قائل نہیں ہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے وہ جانتے ہیں کہ ہمارا غیبت مہدی ع کا عقیدہ مذاق بن جائے گا اور ان کی نظر میں یہ غیبت مہدی کا ایک زاویے سے عملی انکار ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ایران شیعوں کا واحد نمائندہ ہے ایسا نہیں ہے حتیٰ کہ ایران کے اندر بھی ایسا نہیں ہے کہ تمام با عمل شیعہ ولایت فقیہ کو کوئی مذہبی تقدس دینے پر آمادہ ہوں۔"

احمد جاوید صاحب مزید کہتے ہیں:
ولایت فقیہ ایک تو اس لئے ہے کہ امام غائب ظاہر ہوں تو ان کا غلبہ بہت آسان ہو جائے یعنی ان کی امامت ان کی سیاسی اور مذہبی نیابت کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت کے لیے یا سب مسلمانوں کے لیے ایک آفیشل انتظار کی کیفیت حاصل کرلے۔دوسرا یہ کہ ولی فقیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تشیع کا محافظ ہو اور تشیع کا مبلغ ہو یعنی وہ غیر شیعہ سے شیعہ کا دفاع کرے۔ مسلمانوں کا دفاع ان کے نزدیک ایک مبہم بات ہے ولی امر کے نزدیک جو بات ٹھوس ہے وہ شیعوں کا دفاع یا مظلوموں کو شیعہ بنانے کے لیے ان کی مدد کرنا ہے۔"

احمد جاوید صاحب اپنی گفتگو میں مزید فرماتے ہیں:
"شیعہ، امامت کو نبوت اور رسالت پر فائق سمجھتے ہیں وہ امامت کی اتھارٹی کو زیادہ کمپیکٹ اور زیادہ جامع سمجھتے ہیں۔نبوت کے مقابلے میں وہ امامت کو دنیا کے علوم میں بھی حجت سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے نبی پر فضیلت کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ امام دنیا کے علوم میں بھی حجت ہوتا ہے۔ وہ شیعی مفاد کو اپنی کسی بھی پالیسی اپنے کسی بھی عمل میں نظر انداز کرنا تو دور کی بات ہے ثانوی حیثیت بھی نہیں دیتے، مطلب ان کا سب سے بڑا مفاد تشیع کا فروغ ہے۔ تشیع کی حفاظت کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کرنا یعنی بندوق سے پیسے سے زبان سے ہر اعتبار سے تشیع کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ شیعوں کی تعداد بڑھانا یعنی سواد اعظم بنانا۔"

احمد جاوید صاحب نے کہا:
"دیکھو بھئی ان لوگوں کے لیے ہمارے نبی، صحابی، خلیفہ سب ثانوی ہیں یہ ہمارے بزرگوں بڑوں کو مسلمان نہیں مانتے۔ اس یقین کے باوجود ہم حاضر ہیں ایک سماجی وحدت بنانے میں تہذیبی وحدت بنانے میں اور برصغیر کا یہ امتیاز ہے کہ وہ اس طرح یعنی مخالفین کی ایک سوشل یونیفیکیشن کرنے والا پہلا مسلم خطہ یعنی مسلم سوسائٹی ہے یہ ہمارا امتیاز ہے۔"

احمد جاوید مزید کہتے ہیں:
"ولایت فقیہ کے اعلان کے بعد تقیہ ضروری نہیں رہا، اب  یہ لوگ بہت زیادہ لاؤڈ ہوگئے ہیں۔ ولایت فقیہ نے ہر مسلم ملک میں وفاداری کو تقسیم کردیا ہے، وفاداری کا کرائسس پیدا کردیا  ہے، ہر ملک کا شیعہ اگر ولایت فقیہ مانتا ہے تو وہ اپنے ملک سے زیادہ ایران کا وفادار ہوگا۔ یہ ان کا تعصب یا اپنے وطن سے غداری نہیں ہے یہ مذہبی فریضہ ہے۔ آج ان کے فتاوی وغیرہ کسی صورت قابل اعتبار نہیں رہ گئے حتی کہ خود شیعوں کے لیے اب یہ شیعہ سنی بس یہ تاریخی تناظر میں ایک قوم کی تشکیل میں در انے والے تضادات کا بیان ہے، یہ کہنا کہ شیعہ سنی تو انکھیں ہیں! کیا انقلاب اسلامی کے بعد ایران کی حکومت ان کی بیورو کریسی اور ان کے بنیادی نوعیت کے وفاقی اداروں میں سنیوں کی کوئی نمائندگی دکھائی جا سکتی ہے؟ سیستان سے بڑھ کر کوئی پسماندہ صوبہ ہے۔"

غزہ کے حوالے سے ایران کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب احمد جاوید نے کہا:
"غزہ کے معاملے میں ہمارے علماء کی کم استعدادی، عوام کی بے حسی اور عرب حکام کی گھٹیا مفاد پرستی اور بے حمیتی نے ایرانی خطرے کو ہمارے سروں پر مسلط کر دیا ہے۔ وہ پاکستان میں کوئی بڑی صورتحال پیدا کرکے ہمارے انقلابیوں کو اکسا کر ان کی سرپرستی کرکے اور انہیں بھی جیسے ایک بریگیڈ بنادے گا۔ یہ دین کو نہیں رہنے دے گا، وہ دین نبوت کو نہیں رہنے دے گا، اگر ہم لوگ اسی طرح بیٹھے رہ گئے تو نبی کا دین نبی کا مرتبہ اور اللہ کے ساتھ زندہ بلا واسطہ زندہ تعلق کی روایت نہیں رہ جائے گی۔ آج جو شخص بھی غزہ کی صورتحال میں اپنا کردار ایک دینی جذبے اور ایک مذہبی ذمہ داری اور ایک انسانی فریضے کے طور پر انجام نہیں دے گا وہ نہ صرف یہ کہ انسانیت کو اسرائیل کی جگہ لینے والے ایک زیادہ بڑے خطرے کو دعوت دے گا بلکہ یہ کہ پھر عالم اسلام اپنی بنیاد یعنی اپنی بیسک اور آفیشل ڈیفینیشن کے ساتھ موجود نہیں رہ جائے گا۔"

ایک کلی تبصرہ
احمد جاوید صاحب فلسفہ اور ادب پر اچھی خاصی تنقید کرتے کرتے سیاست کے میدان میں وارد ہوگئے، ایک جانب فرماتے ہیں کہ روایتی شیعہ ولایت فقیہ کو نہیں مانتا اور باعمل شیعہ اس کو مذہبی تقدس دینے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اس سے امام مہدی عج کے ظہور کا عقیدہ ایک مذاق بن جائے گا اور دوسری ہی سانس میں کہنے لگے کہ ولایت فقیہ کا مقصد امام زمان عج کے غلبے کو آسان بنانا ہے اور اس کا مقصد شیعت کی تبلیغ و ترویج ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلی بات کو درست سمجھا جائے یا دوسری بات کو کیونکہ دونوں باتیں باہم متصادم ہیں۔ ایک جانب وہ کہتے ہیں کہ ولی فقیہ فقط شیعہ کا دفاع کرتا ہے اور ان مظلوموں کی مدد کرتا ہے جن کے شیعہ ہونے کی امید ہو، ایران بوسنیا کے مسلمانوں، اہل غزہ کی مدد کر رہا ہے اب نہیں معلوم کہ بوسنیا کے کتنے مسلمان شیعہ ہوئے ہیں اور اہل غزہ نے ایران کو کونسی یقین دہانی کروائی ہے کہ ہم کب تک شیعہ ہو رہے ہیں۔

شیعہ عقیدہ فضیلت آئمہؑ
شیعہ امامت کو نبوت پر فائق جانتے ہیں، یہاں تو احمد جاوید صاحب کا تمام کا تمام علم اور تجربہ نہ فقط مشکوک ہوگیا بلکہ اس کی کوئی قدر و قیمت نہ رہ گئی۔ اہل علم کہتے ہیں کہ کسی بھی مکتب، مسلک کے بارے میں جب آپ کو جاننے کا شوق ہو تو ضروری ہے کہ ان کی خود بیان کردہ تعریف کو فوقیت دیں۔ شیعہ نبوت و امامت کے بارے کیا عقائد رکھتے ہیں یہ تمام باتیں ہماری  کتب میں درج ہیں۔ شیعہ اثنا عشری کا عقیدہ ہے کہ امام حضرت محمد مصطفیؐ کا وصی اور جانشین ہے۔ امام کا رتبہ کسی بھی صورت رسول اکرمؐ کے رتبے سے بلند نہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’انا عبد من عبید محمدؐ" (الکافی جلد ۱، ص 89): "میں محمدؐ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔‘‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ سید المرسلینؐ کے وصی ہونے کی نسبت سے ہم آئمہؑ کی فضیلت کے قائل ہیں، جس کی ایک دلیل حسب ذیل حدیث نبوی ہے:

"عن جابر بن عبداﷲ الانصاري رضي الله عنه قال سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لا تزال طائفة من امتي يقاتلون علي الحق ظاهرين الي يوم القيمة قال و ينزل عيسي ابن مريم عليه السلام فيقول اميرهم تعال صل لنا فيقول لا، ان بعضکم علي بعض امراء تکرمة اﷲ هذه الامة." (حوالہ: مسلم، الصحيح، 1: 137، رقم: 156، ابن حبان، الصحيح، 15: 231، رقم: 6819، ابن منده، الايمان، 1: 517، رقم : 418، ابن جارود، المنتقي، 1: 257، رقم: 1031، بيهقي، السنن الکبریٰ، 9: 180، ابو عوانه، المسند، 1: 99، رقم : 317) "حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے ایک جماعت قیام حق کے لیے کامیاب جنگ قیامت تک کرتی رہے گی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ان مبارک کلمات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’آخر میں (حضرت) عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے تو مسلمانوں کا امیر، ان سے عرض کرے گا تشریف لایئے ہمیں نماز پڑھایئے اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے نہیں۔ تمہارا بعض، بعض پر امیر ہے، اللہ نے اس امت کو کرامت بخشی ہے۔"

اگر حضرت عیسی جیسا اولی العزم پیغمبر امام مہدی عج اور اس امت کی کرامت کا قائل ہے تو باقی انبیاء کیسے آئمہ اہل بیتؑ کی فضیلت کے قائل نہ ہوں گے، تاہم یہ ایک تفصیلی بحث ہے اور اس حوالے سے شیعہ کے پاس کافی دلائل موجود ہیں۔ بہتر ہے کہ جناب احمد جاوید صاحب ان دلائل اور مباحث سے رجوع کرکے اپنے نظریہ کی اصلاح فرمائیں۔ یہاں تبرکا امام ابو حنیفہ کے استاد امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں تاکہ مسئلہ زیادہ واضح ہوسکے۔ "إنَّ الله َ تبارَكَ وتعالى اتَّخَذَ إبراهيمَ عَبْداً قَبْلَ أنْ يَتَّخِذَهُ نَبِيّاً، وإنَّ اللهَ اتَّخَذَهُ نَبِيّاً قَبْلَ أنْ يَتَّخِذَهُ رَسُولاً، وإنَّ اللهَ اتَّخَذَهُ رَسُولاً قَبْلَ أنْ يَتَّخِذَهُ خَليلاً، وإنَّ اللهَ اتَّخـَذَهُ خَليلاً قَبْلَ أنْ يَجْعَلَهُ إماماً، فَلَمّا جَمَعَ لَهُ الأشيَآءَ قَالَ: إنّي جَاعِلُكَ لِلنّاسِ إمَاماً." (الکافي: ۱ / ۱۷۵ / ۲) "امام جعفرصادقؑ: "اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو نبی بنانے سے پہلے (اپنا) بندہ بنایا، رسول بنانے سے پہلے نبی بنایا، خلیل بنانے سے پہلے رسول بنایا اور جب یہ تمام صفات ان میں جمع ہوگئیں تو ان سے خطاب کرکے فرمایا: ’’میں تمھیں لوگوں کا امام بناتا ہوں" (سورہ بقرہ، آیت 124)‘‘۔

کیا پاکستانی شیعہ ایک سیاسی خطرہ ہیں:
قبلہ احمد جاوید صاحب نہ ہم سواد اعظم بننا چاہتے ہیں نہ ہی اکابر اہل سنت کی تکفیر کے قائل ہیں، آپ بزرگ ہیں تاہم انتہائی شدت پسند نظریات کی چھاپ آپ کے ذہن اور الفاظ سے چھلک رہی ہے۔ آپ کی ویڈیو کو دیکھ کر انسان فرق نہیں کر پاتا کہ احمد جاوید بات کر رہے ہیں یا سپاہ صحابہ کے رہنما احمد لدھیانوی۔ ایک جانب آپ فرماتے ہیں کہ روایتی شیعہ اور شیعہ مراجع ولایت فقیہ کے قائل نہیں ہیں اور دوسری جانب آپ کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ نے ملکوں میں وفاداری کے مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ جب عام شیعہ  ولایت فقیہ کو مانتے ہی نہیں ہیں تو وفاداری یا حب الوطنی کے مسائل کیسے پیدا ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی شیعہ جغرافیائی اور سیاسی طور پر بکھرے ہوئے ہیں۔ وہ سنیوں کے لئے سیاسی خطرہ نہیں ہیں بلکہ وہ ان ہی کی طرح کے عوام ہیںو جو پاکستانی سیاست کی بے رحمیوں کا شکار ہیں۔

ہر علاقے کا شیعہ اپنے علاقے کی زبان بولتا ہے اور اس کی ثقافت میں رنگا ہوا ہے۔ اسے بھی آزادی، معاشی بہبود اور تعلیم و صحت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے سُنی عوام کا ساتھ چاہیئے۔ ایران سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، شیعہ بچے سُنی بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں، بڑے ہوکر شادیاں کرتے ہیں، ان کی غذا، لباس، بول چال، طرز فکر اور مسائل مشترک ہیں۔ شیعہ مراجع کے فتاویٰ کو ناقابل اعتبار قرار دینا اور ایران کے داخلی سیاسی معاملات کو پورے مکتب تشیع کے کھاتے میں ڈالنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے کی فکری اور علمی استعداد کا مظاہرہ ہم نے گذشتہ دنوں اچھرہ لاہور میں دیکھا جہاں ایک خاتون کے لباس پر عربی میں پرنٹ "حلوۃ" قرآنی آیت بن گیا اور لوگ اسے مارنے پر آمادہ ہوگئے۔

ایسے معاشرے میں مغالطے پر مبنی گفتگو کرکے آپ کونسی علمی، مذہبی اور مسلکی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں مذہب و مسلک کے نام پر دہائیوں خون کی ندیاں بہائی گئی ہیں اور یہ ندیاں بہانے والے کوئی غیر ملکی نہیں اسی ملک کے باسی تھے تو ایسے معاشرے میں اس قدر نفرت آمیز گفتگو وہ بھی ادب کے ایک ناقد کی جانب سے نہایت مذموم ہے۔ آپ نے ایران کو اسرائیل سے بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ ایران سواد اعظم کو ختم کر دے گا، نبیؐ کا دین، نبیؐ کا مرتبہ سب ختم ہو جائے گا، یہ عجیب و غریب مخمصہ ہے، جس کی شاید آپ کے پاس کوئی مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔ آپ کا غزہ کے مسلمانوں کی مدد کو ایران کی مدد قرار دینا اور اسرائیل سے بڑی آفت سمجھنا بھی حیران کن ہے۔خداوند کریم امت کے جوانوں کو آپ کے فکری، مذہبی اور صوفی نظریات سے محفوظ فرمائے۔ آمین
https://taghribnews.com/vdcfyvdvmw6d0ca.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ