تاریخ شائع کریں2024 22 February گھنٹہ 16:37
خبر کا کوڈ : 626096

ڈاکٹر محمد علی شہید کی فکری لحاظ سے ایک مضبوط اور پختہ انسان

اگرچہ شہید ڈاکٹر کا عمل کے میدان میں بہت متحرک ہونا اور تحریر و تقریر کے ذریعے ان کی جانب سے کوئی قابلِ ذکر مواد منتقل نہ ہونا، ہمارے لئے ایک بہت بڑی محرومی کا باعث ہے
ڈاکٹر محمد علی شہید کی فکری لحاظ سے ایک مضبوط اور پختہ انسان
تحریر: پروفیسر سید امتیاز علی رضوی
بشکریہ:اسلام ٹائمز


ہر انسان کی جدوجہد کو اس کے ظاہری عمل اور اس عمل کے پیچھے پنہاں فکر کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے انتیس سال بعد پاکستان کے دینی حلقوں میں یہ بات مسلمہ ہوچکی ہے کہ شہید کا عمل صائب اور ان کی فکر درست تھی، اگرچہ یہ بات ان کی حیات میں اس حد تک ثابت نہ تھی۔ متعدد علماء اور دیگر رہنماء جو ایک زمانے میں ان کے عمل کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی فکر کے لحاظ سے تردد کا شکار رہتے تھے، لیکن آج وہ بھی شہید کے گُن گا رہے ہیں۔ گویا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سچے اور مخلص انسانوں کو اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے جان گنوانا پڑتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے عمل کی پاکیزگی اور ان کی فکر کی سچائی نہ صرف ان کی اپنی شخصیت میں تبدیلی لائی بلکہ ہزاروں لاکھوں دوسرے انسانوں میں تبدیلی کا مؤجب بھی بنی ہے۔

بیرون ملک کے ایک اہم مذہبی رہنماء نے ایک مرتبہ ایک پرائیوٹ محفل میں یہ کہا کہ میں پاکستان میں جس بھی دینی جوان سے ملا ہوں، وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈاکٹر محمد علی شہید سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈاکٹر شہید کی زندگی کا اہم ترین اور نمایاں پہلو اُن کا ہمیشہ متحرک رہنا ہے، وہ نامساعد حالات میں بھی ہمیشہ متحرک رہتے بلکہ ایسے حالات ہی کو عمل کا بہترین وقت سمجھتے تھے۔ ان کی فکر یہ تھی کہ ہمیں اپنے آپ پر نامساعد حالات کا بوجھ ڈالنا چاہیئے، تاکہ ہم اپنے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں اور اپنے سینوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے کھول سکیں۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب بھی ایسے نامساعدحالات ہوں تو ہمیں اپنی ہر چیز قربان کر دینی چاہیئے، کیونکہ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ہم دوسروں کے حملوں کی موجوں اور ان کی تحریکی کاوشوں کے فکری بھنور میں پھنس کر انہی کی بعض حرکات کی نقالی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر محمد علی شہید کی فکر کے مطابق اگر ہم اپنے گرد و پیش میں رونماء ہونے والے واقعات سے بے اعتناء رہیں اور اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذات، تشخص اور حقیقت سے متصادم کسی بھی واقعے اور چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اسی لیے حق و صداقت کے مدعی کو اپنے تشخص کی بقا کے لیے اپنی تمام تر خواہشات، رجحانات، قلب و وجدان اور حرکات و اعمال کے ذریعے جدوجہد کرنی چاہیئے۔ بلاشبہ وه جانتے تھے کہ یہ جدوجہد پہلے بازو و دل سے ہوگی اور پھر وجود اور سر کا تقاضا کرے گی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے آج اپنے دلوں اور سروں کو قربان نہ کیا تو دوسرے لوگ بڑی ڈھٹائی سے ایسی جگہ اور وقت میں ہم سے ان کا مطالبہ کریں گے، جب ہم اختیار سمیت اپنا سب کچھ کھو چکے ہوں گے۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے عمل و فکر کا ایک خاصہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ضروریات کو جہان کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ڈھال لیا تھا، مثلاً دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کو جہاں وہ دنیا کے لیے ضروری سمجھتے تھے، وہاں اسے اپنی ذات کی بھی ایک ضرورت سمجھتے تھے۔ اجتماعی جدوجہد کرنے والوں میں یہ خاصیت کم و بیش ہی دیکھنے میں آئی ہے، اسی وجہ سے ان کی جدوجہد میں وہ لگن اور قربانی کا جذبہ نظر نہیں آتا، جو ڈاکٹر صاحب کی ذات میں قابلِ مشاہدہ تھا۔ ڈاکٹر شہید کی اپنی کوئی مخصوص دنیا نہ تھی، بلکہ انہوں نے اپنے وجود کو اجتماع سے مربوط کر لیا تھا۔ فکری طور پر وہ اپنے اس تعلقات کی نوعیت کو سمجھتے تھے اور اس میں بالکل واضح تھے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں قبل از وقت اپنی وصیت لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔

اگرچہ شہید ڈاکٹر کا عمل کے میدان میں بہت متحرک ہونا اور تحریر و تقریر کے ذریعے ان کی جانب سے کوئی قابلِ ذکر مواد منتقل نہ ہونا، ہمارے لئے ایک بہت بڑی محرومی کا باعث ہے، تاہم ڈاکٹر صاحب فکری لحاظ سے ایک مضبوط اور پختہ انسان تھے اور غور و فکر کے عمل کو ہمیشہ جاری رکھتے تھے۔ راقم سمیت جن لوگوں کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا ہے، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے ہر عمل کے پیچھے ایک گہری سوچ ہوتی تھی، جو ایک فکری عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی تھی۔ یہ بات ڈاکٹر شہید کی جدوجہد سے متاثر نوجوانوں کو پلے باندھ لینا چاہیئے کہ ڈاکٹر صاحب کا ہر عمل گہری فکری عمل کا نتیجہ ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے تحریری و تقریری طور پر زیادہ مواد نقل نہ ہونا، اس وجہ سے تھا کہ انہیں اردو زبان پر عبور نہ تھا۔ ان کی بنیادی تعلیم جنوبی افریقہ کی تھی، لہذا انہیں اردو زبان پر دسترس حاصل نہ تھی۔

ڈاکٹر شہید فکر میں تقلید کے قائل نہ تھے بلکہ اپنے ذہن سے سوچتے تھے اور مسائل و خیالات کے تجزیہ تحلیل میں کمال کی مہارت رکھتے تھے۔ شہید ڈاکٹر کو کبھی بھی جذبات کی رو میں بہتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، ہر عمل کو منطق و عقل کی بنیاد پر انجام دیتے تھے۔ جذباتی لوگوں کی قدر ضرور کرتے تھے اور ان کی حسن نیت کو سمجھتے بھی تھے، لیکن انہیں سمجھاتے اور ان کے احساسات کو توازن پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ ڈاکٹر شہید جیسی انسانی روح کا ارتقاء تعامل فکر کے ذریعے اور اس کی روشنی میں ہوتا ہے۔ ایسے انسان اپنی ذات میں اور اپنے نفس کے باطن میں گہرائی سے مسلسل غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور نفس کی کمزوری اور جذباتیت کی وجہ سے جو اوہام پیدا ہوتے ہیں، ان سے چھٹکارا پانے کے لیے تنگ نظری کے خول کو توڑ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی ان حقائق کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے، جن میں کوئی کجی یاگمراہی پیدا نہیں ہوسکتی۔

ڈاکٹر شہید کی شخصیت کوئی ایسی شخصیت نہ تھی، جو صرف کام برائے کام کرنا چاہتی ہو بلکہ وہ کائنات کی روحانی تعبیر کے قائل تھے، معاشرے کے اپنے تشخص کو کھو دینے کا درد محسوس کرتے تھے، عالمی سطح پر شیطنت کے کھیل کے مقابلے کے لیے کمربستہ تھے اور اس کے مقابل رحمانی قوتوں کے ظہور کو ضروری سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو اس وسیع کائناتی جدوجہد کا حصہ سمجھتے تھے۔ ایک عالم و روحانی کے گھر میں متولد ہونے اور قرآن و حدیث کے سائے میں پرورش پانے نے خود ڈاکٹر شہید کی اس فکری پاکیزگی کو جلا بخش دی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ہماری عملی و فکری زندگی اور اس کی جدوجہد ہماری روحانی زندگی کے لیے ہے، جو ہماری دینی فکر کا جزولاینفک ہے۔

وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جس طرح ظاہری عبادت اور ذکر و تسبیح کے ذریعے قلب و روح کی روحانی زندگی میں رفعت پیدا ہوتی ہے، اسی طرح اجتماع میں رہنا اور اس کی اصلاح و فلاح کے لیے محنت و جدوجہد کرنے کا تعلق بھی روحانی زندگی سے ہے۔ خلاصہ یہ کہ ڈاکٹر شہید کی زندگی ایک حقیقی مؤمن کی زندگی تھی، جس کا ہر کام عبادت، ہر فکر مراقبہ، ہر کلام مناجات، ہر عمل معرفت کی رزم گاہ، کائنات کا ہر مشاہدہ چھان پھٹک اور نگاہِ شوق اور اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کے ساتھ رحمت و شفقت پر مبنی تعلق ہوتا ہے۔

اگرچہ آج کے رہنماء اور تمام اہم جماعتیں اپنے آپ کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والے اور پاکستان میں ان کے قائم کردہ اصول عمل کے وارث قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ حسبِ منشا عوامی محبت اور تقدس حاصل نہیں کر پائے اور گروہ در گروہ میں تقسیم ہو کر مثبت کردار ادا نہیں کر پا رہے اور بعض اہلِ نظر کے مطابق انہوں نے راہِ راست سے بھٹک کر منفی پہلوؤں کو اختیار کر لیا ہے۔ ایسے موقع پر جب ہم شہید کی انتیسویں برسی منا رہے ہیں، ہمارے راہنماؤں اور ملی تنظیموں کو اپنے اندر اس حقیقی عمل و فکر کے فقدان کا سبب تلاش کرنا چاہیئے، جس کے ڈاکٹر شہید امین تھے۔ یہ جاننا چاہیئے کہ حقیقی ایمان اور کردار کے خلوص کی وہ جھلک جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھی اور جو کیسی بھی صورت حال ہو، ان کی ذات اور ان کے اجتماعی کاموں میں نمایاں تھی، اب کہاں ہے یا اس کا رنگ پھیکا کیوں پڑ گیا۔؟
https://taghribnews.com/vdci3qaqqt1aru2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ