تاریخ شائع کریں2024 14 February گھنٹہ 20:40
خبر کا کوڈ : 625341

یورپی یونین کے ساتھ امریکی رویہ

صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نے مبالغہ آرائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ماہ رمضان سے قبل رفح میں تحریک حماس کی فوجی بٹالین کو تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔
یورپی یونین کے ساتھ امریکی رویہ
تحریر: سید رضا میر طاہر
بشکریہ:اسلام ٹائمز


یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے پیر کے روز امریکہ سے  مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ جنگ میں عام شہریوں کی کثیر ہلاکتوں کی وجہ سے صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کردے۔ بوریل نے برسلز میں یورپی یونین کے وزراء کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا: "اگر آپ کو یقین ہے کہ (غزہ میں) بہت سے لوگ مارے جا رہے ہیں، تو آپ کو بہت سے لوگوں کو ہلاک ہونے سے روکنے کے لیے کم ہتھیار فراہم کرنے چاہییں۔" انہوں نے امریکہ سے فوجی سازو سامان فراہم کرنے کے حوالے سے نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بوریل نے  اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے  اگر عالمی برادری یہ سمجھتی ہے کہ یہ قتل عام ہے اور بہت سے لوگ مارے گئے ہیں تو ہمیں ہتھیار فراہم کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے عہدیدار نے مزید کہا: یہ ایک متضاد اقدام ہے کہ  مختلف ممالک بار بار اعلان کرتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں بڑی تعداد میں شہریوں کو قتل کر رہا ہے لیکن وہ اس قتل عام کو روکنے کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں کرتے۔

امریکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک ہے اور اسے ہر سال 3.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ اس امداد میں لڑاکا طیاروں سے لے کر طاقتور بم جیسے فوجی ہتھیار شامل ہیں۔ واشنگٹن نے ابھی تک اس امداد کو بند کرنے کی کسی درخواست پر توجہ نہیں دی ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں صیہونی حکومت کو خندق توڑنے والے بموں کی ایک بڑی تعداد بھیجی ہے، جو غزہ کے لوگوں پر اور غزہ میں رہائشی ٹاورز اور انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔

بورل کے یہ بیانات ایسے وقت میں دیئے گئے ہیں جب امریکی صدر جو بائیڈن نے (جو غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کے اہم حامی ہیں،) اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر کی کارروائی کے جواب میں غزہ میں صیہونی حکومت کی فوجی کارروائیاں "ضرورت سے زیادہ" تھیں۔ بائیڈن نے اردن کے بادشاہ سے ملاقات میں اعتراف کیا ہے کہ غزہ پٹی میں خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں فلسطینی شہری مارے گئے ہیں۔ بائیڈن نے یہ الفاظ ایسے وقت کہے  ہیں کہ ان پر غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے۔

وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کے درمیان اپنے ووٹ بینک پر اس دباؤ کے نتائج سے  بخوبی آگاہ ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے ایک حالیہ سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ غزہ کی جنگ کے حوالے سے جو بائیڈن کے ووٹروں پر جو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ ان کے اہم ممکنہ حریف، "ڈونلڈ ٹرمپ" کے منفی پروپگینڈے سے  کہیں زیادہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ میں کرائے گئے ایک نئے سروے کے نتائج کے مطابق نصف امریکیوں کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کی جنگ کا تسلسل اور غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے شہداء اور زخمیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد (جس کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے) نے تل ابیب کے مغربی شراکت داروں بشمول یورپی یونین کو بھی اس قاتل حکومت پر تنقید کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ صیہونی حکومت پانچویں مہینے میں بھی غزہ کے مظلوم عوام کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ حماس کی نابودی، صیہونی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کو خالی کرنے کے صیہونی نعروں اور دعوؤں کے باوجود غزہ میں صیہونی حکومت ابھی تک ان مقاصد کو حاصل نہیں کرسکی ہے۔

فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے اختیار میں موجود صہیونی قیدیوں کی رہائی کے میدان میں تو اسے شرمناک ناکامی کا سامنا ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ  تل ابیب کے حکام بالخصوص صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، غزہ کے جنوب اور اس سے ملحقہ شہر رفح پر ایک بڑا حملہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ مصری سرحد کے قریب اس شہر پر ابتدائی حملے شروع کر دیے گئے ہیں۔ نیتن یاہو نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ رفح میں زمینی آپریشن اگلے دو ہفتوں کے اندر شروع کر دیا جائے گا۔

صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نے مبالغہ آرائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ماہ رمضان سے قبل رفح میں تحریک حماس کی فوجی بٹالین کو تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ صیہونی حکومت کو اس اقدام کی وجہ سے پوری دنیا اور حتیٰ اس حکومت کے مغربی شراکت داروں کی طرف سے نہ صرف شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ اس اقدام کے تباہ کن نتائج کے بارے میں خبردار بھی کیا جارہا ہے۔ فرانسیسی اور ڈچ سینئر حکام نے تل ابیب کو اس بارے میں باقاعدہ انتباہ دیا ہے۔

اس کے علاوہ بین الاقوامی عدالتی اداروں نے بھی اس میدان میں صیہونی مخالف موقف اپنایا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر جنرل "کریم خان" نے رفح پر صیہونی حکومت کے زمینی حملے کے امکان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کریں گے۔ کریم خان نے سوموار کو X سوشل نیٹ ورک پر شائع ہونے والے ایک بیان میں لکھا: "میں رفح میں بمباری کی اطلاعات اور اسرائیلی فورسز کی جانب سے زمینی حملے کے امکان پر گہری تشویش کا شکار ہوں۔" انہوں نے خبردار کیا: "میرا دفتر اس پر نظر رکھے ہوئے ہے  اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا اور انہیں اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہوگا۔

ان انتباہات کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامی  اور موثر بین الاقوامی میکانزم کی عدم موجودگی کے باعث صیہونی حکومت  کو غزہ کے عوام کے خلاف اپنی ظالمانہ جنگ بند کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کوئی مناسب اقدام انجام نہیں پا سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  صیہونی حکومت امریکہ کی سیاسی اور فوجی حمایت کی وجہ سے اپنی غاصبانہ اور وحشیانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ  کی مسلسل حمایت کی وجہ سے  صیہونی حکومت غزہ کے حوالے سے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھے گی، جس میں رفح پر حملہ بھی شامل ہے۔ رفح کی آبادی  اس خطے کی گنجان ترین آبادی ہے جسکی وجہ سے ایسی انسانی تباہی ہوسکتی ہے جس کی ماضی میں شاید کوئی مثال بھی نہ ہو۔ امریکہ نے نہ صرف غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور انکی نسل کشی کے لیے راہ ہموار کی ہے بلکہ وہ ان مجرمانہ حملوں کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات پر توجہ بھی نہیں دے رہا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcaymni649nue1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ