تاریخ شائع کریں2024 29 January گھنٹہ 19:53
خبر کا کوڈ : 623383

فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ برابر کا شریک ہے

غزہ پر جارحیت کے جواب میں جہاں یمن نے باب المندب کا راستہ بند کر رکھا ہے، وہاں ساتھ ساتھ سمندر میں امریکی اور برطانوی جہازوں کو میزائلوں اور ڈرون حملوں سے کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ برابر کا شریک ہے
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


طوفان اقصیٰ کا معرکہ جاری ہے۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت مسلسل غاصب صیہونی جارحیت کے سامنے مزاحمت کر رہی ہے۔ طوفان اقصیٰ آپریشن کے آغاز سے ہی امریکی حکومت نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے لئے اسلحہ اور دولت کے انبار کھول دیئے تھے۔ نہ صرف اسلحہ بلکہ غزہ کے مظلوم عوام کے مقابلہ میں امریکی حکومت مسلسل جنگی تکنیک بھی اسرائیل کو فراہم کرتی آئی ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز سے ہی دنیا پر یہ بات آشکار ہوگئی تھی کہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں غاصب اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ برابر کا شریک ہے۔ دنیا بھر میں بالخصوص امریکہ اور یورپی ممالک میں ہونے والے عوامی مظاہروں میں بھی عوام کا یہی نعرہ تھا کہ امریکہ کو غزہ میں جارحیت بند کرنا ہوگی۔ معصوم انسانوں کا قتل عام بند کرنا ہوگا۔ مغربی دنیا کے عوام فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ کو ہی اصل مجرم قرار دیتے آئے ہیں۔

دوسری طرف اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کے قائدین چاہے وہ لبنان، شام، ایران و عراق، یمن اور فلسطین سمیت کسی بھی مقام پر ہوں، سب نے امریکہ کو ہی اصل مجرم قرار دیا۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ امریکہ براہ راست غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے ساتھ غزہ جنگ میں شریک ہے۔ بہرحال اسلامی مزاحمت غزہ، مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق اور یمن میں شروع دن سے ہی امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے ہی دیکھا گیا ہے کہ شام و عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی جب امریکہ اور برطانیہ نے جارحیت کی تو اس کے جواب میں یمن کے انصار اللہ نے امریکی جہازوں کو نشانہ بنانے سے بالکل بھی دریغ نہیں کیا۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ چار سال قبل لبنان کی اسلامی مزاحمی تحریک کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے خطے میں امریکی فوج کی موجودگی کو خطے کی ممالک کی خود مختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے وارننگ جاری کی تھی کہ امریکی فوجیں خطے سے نکل جائیں، بصورت دیگر آئیں گے تو اپنے پیروں پر لیکن جانا میت تابوت میں ہوگا۔ حالیہ دنوں مغربی ایشیائی ممالک میں بدلتی ہوئی صورتحال اور خاص طور پر غزہ میں نہ رکنے والی امریکی و صیہونی جارحیت کے جواب میں جو کچھ شام اور عراق میں امریکی فوجی ٹھکانوں کے خلاف ہو رہا ہے، اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ جو کچھ سید حسن نصراللہ نے چار سال قبل کہا تھا، اس کے پورے ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ وہ وعدہ آج پورا ہوتا ہوا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

غزہ پر جارحیت کے جواب میں جہاں یمن نے باب المندب کا راستہ بند کر رکھا ہے، وہاں ساتھ ساتھ سمندر میں امریکی اور برطانوی جہازوں کو میزائلوں اور ڈرون حملوں سے کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شاید دنیا میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ غزہ میں جنگ کو بند کروانے اور جارحیت ختم کروانے کے لئے غزہ کے باہر چاروں اطراف دو ہزار کلومیٹر تک کا علاقہ سمندروں میں میدان جنگ بنا ہوا ہے اور نام نہاد عالمی طاقتیں امریکہ اور برطانیہ بے بس ہو رہی ہیں۔ یمن کے ان حملوں میں امریکی فوج کا جانی اور مالی نقصان بھی ہو رہا ہے، جسے امریکی سینٹر کمانڈ مسلسل مخفی رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

اسی طرح عراق میں موجود اسلامی مزاحمت نے آٹھ اکتوبر سے ہی عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس میں امریکی فوج کو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے انجام دیا جا رہا ہے، تاکہ غزہ میں جارحیت بند کی جائے۔ یہ حملے صرف عراق تک محدود نہیں ہیں بلکہ اسلامی مزاحمت نے شام میں بھی امریکی فوجی اڈوں کو اپنے میزائلوں اور ڈرون سے نشانہ بنایا ہے اور مسلسل اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حال ہی میں عراق کی اسلامی مزاحمت نے بیک وقت عراق اور شام کے علاقوں میں امریکی فوج کے چار اڈوں کو ڈرون اور میزائل حملوں سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجہ میں امریکی فوج کے تین اہم کمانڈر ہلاک ہوئے اور پچاس کے قریب زخمی ہوئے۔ پہلی مرتبہ امریکی حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس نقصان کو تسلیم کرنا پڑا اور سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا۔ یقیناً اسلامی مزاحمت کی یہ بڑی کامیابیاں ہیں، جو خطے میں حاصل ہو رہی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فلسطین سے یمن تک اس اسلامی مزاحمتی بلاک نے اصول طے کیا ہے کہ غزہ پر جارحیت کی قیمت امریکا کو چکانا ہوگی اور یہ قیمت اسلامی مزاحمت عراق اور شام سمیت یمن اور لبنان اور غزہ میں وصول کر رہی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ امریکی فوجوں کا وجود شام و عراق جیسے ممالک مین مکمل غیر قانونی ہے اور یہ قابض فوج کے طور پر تصور کی جاتی ہے۔ عراق کی پارلیمنٹ اس عنوان سے قرار داد منظور کرچکی ہے کہ امریکی فوجی اڈے ختم کئے جائیں اور امریکی فوج عراق سے مکمل طور پر نکل جائے، لیکن امریکی فوج غنڈہ گردی کے ذریعہ بیٹھی ہے، تاہم اس غنڈہ گردی کا حساب اب چکانا ہوگا۔ آج حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کی باتیں اور وعدے مکمل ہوتے نظر آرہے ہیں کہ امریکی فوجی جو اس خطے میں اپنے پیروں پر چل کر آئے تو تھے، لیکن اب ان کی واپسی حسن نصراللہ کے وعدے کے مطابق تابوت میں بند ہو کر ہو رہی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcevx8pxjh8wxi.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ