تاریخ شائع کریں2023 23 December گھنٹہ 16:10
خبر کا کوڈ : 619035

غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا

لیکن غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ ایک 15 سالہ بچے نے اپنی زندگی میں حالیہ تنازع سمیت پانچ جنگوں کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ بہت سے لوگ متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے گھر بمباری سے تباہ ہو گئے تھے۔
غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا
تحریر:رچرڈ ہال، آریانا بائیو
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو 


جنگ سے پہلے غزہ کی گلیاں بچوں سے بھری رہتی تھیں۔ بحیرہ روم کے کنارے واقع اس تنگ پٹی کو گھر کہنے والے 20 لاکھ افراد میں سے تقریباً نصف کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔

اختتام ہفتہ اور سکولوں سے چھٹی کے وقت یہاں کے ساحل، پارکس اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کے ہنسنے اور کھیلنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔

لیکن غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ ایک 15 سالہ بچے نے اپنی زندگی میں حالیہ تنازع سمیت پانچ جنگوں کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ بہت سے لوگ متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے گھر بمباری سے تباہ ہو گئے تھے۔

اس سب کے باوجود انہوں نے اس طرح کی تباہی کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔

غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے آغاز سے اب تک فضائی حملوں، توپ خانے اور مارٹر حملوں میں سات ہزار سے زیادہ بچے مارے جا چکے ہیں۔

 یہ تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جن کی شناخت ہو چکی ہے اور بہت سے اب بھی ممکنہ طور پر ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔

دیگر ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ غزہ کو ’ہزاروں بچوں کا قبرستان‘ اور ’بچوں کے لیے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ‘ قرار دے چکا ہے۔

ان ناقابل یقین اعداد و شمار میں ان بچوں کے چہرے، نام، زندگی اور خوشی کے لمحات گم ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ بچوں کی کہانیاں یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔

13 سالہ پراعتماد ایتھلیٹ سوار المدہون

سوار اپنی عمر کے لحاظ سے دراز قد بچی تھی اور انہوں نے اس خوبی کو اچھے طریقے سے استعمال کیا۔ انہیں باسکٹ بال کا جنون تھا۔ انہیں جب موقع ملتا وہ یہ کھیل کھیلتی، سکول میں، اپنے ذاتی وقت میں اور گرمیوں میں بھی۔ انہوں نے کئی ٹرافیاں جیتیں۔

ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جو ایک باسکٹ بال ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد لی گئی تھی جس میں انہیں ایک بڑے سٹیج پر ایک ہجوم کے سامنے رقص کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ ان کے گرد کنفیٹی سپرے ہو رہی ہے اور میوزک بج رہا ہے۔

پوری ٹیم اپنے تمغوں کے ساتھ جمپ کرتی ہے۔ وہ ہر وقت فلوریڈا کے ایک ہائی سکول کی باسکٹ بال کی پرانی جرسی پہنتی تھیں کیونکہ اس کے سامنے ایک باسکٹ بال ہوپ اور ایک بال ہوتی تھی۔ انہیں والی بال بھی بہت پسند تھی، ایک اور کھیل جہاں ان کے دراز قد نے انہیں فائدہ پہنچایا۔

ان کے چچا ہانی المدہون کہتے ہیں کہ ’سوار اپنی عمر کی زیادہ تر لڑکیوں سے زیادہ آزاد تھی۔ انہیں پرواہ نہیں تھی۔ وہ باہر جاتی اور خود ہی اپنے کام کرتی، ساحل پر جا کر تیراکی کرتی۔ وہ ہمیشہ کام کرتی رہتی تھی اور بالکل بھی نہیں شرماتی تھی۔‘

وہ اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ پراعماد تھی۔ صرف 13 سال کی عمر کے باوجود وہ انتہائی پر اعتماد تھی۔ ہانی کو یاد ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی مدد کرنا چاہتی تھی۔

سوار کو پکنک کا شوق تھا۔ اگر ان کے ہاتھ میں پیسے ہوتے تو وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ قریبی ریسٹورنٹ جاتی جہاں وہ ہر بار ایک ہی کھانے کا آرڈر دیتی یعنی شوارما سینڈوچ، اچار، کارن سیلڈ اور فرائز۔ یہ ایک کلیم شیل کنٹینر میں ملتا تھا۔

سوار منجھلی بیٹی تھی اور وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کرتی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے کزنز کی دیکھ بھال کرنا بھی پسند کرتی تھی جب وہ انہیں ملنے آتے تھے۔ ان کے چچا ہانی کی اپنی بیٹیاں بھی جب امریکہ سے غزہ جاتی تھیں تو اپنا سارا وقت ان کے ساتھ گزارتی تھیں۔

ہانی کے بقول: ’میری بیٹیاں جہاں بھی جاتیں وہ ان کے ساتھ جاتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح چپکی رہتی۔ وہ سب کی پسندیدہ تھی اور ہر کوئی ان کا دوست تھا۔‘

فٹ بال کا دیوانہ نو سالہ عمر المدہون

عمر فٹ بال کے کھیل کا دیوانہ تھا۔ وہ اپنے والد ماجد سے اس بات پر لڑتا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی کون ہے۔

عمر کے نزدیک کرسٹیانو رونالڈو دنیا کے سب سے بڑے کھلاڑی تھے جب کہ ان کے والد کا خیال تھا کہ یہ کریم بینزیما ہیں۔

وہ دونوں ریال میڈرڈ کے پرستار تھے اس لیے لیونل میسی اس بحث کا حصہ نہیں تھے۔

عمر نے پچھلے سال کا بیشتر حصہ ورلڈ کپ کے جنون میں گزارا لیکن وہ غزہ میں اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی جرسی یا اس کھیل کا کوئی سامان نہیں خرید سکا کیوں کہ اسرائیل نے 2007 سے یہاں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چچا ہانی سے مدد طلب کی۔

ہانی نے ایک سٹور سے گول کیپر کے دستانے، ایک فٹ بال اور ایک بیگ اپنے کسی جاننے والے کے ساتھ غزہ بھیجا۔ عمر کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔

ہانی کہتے ہیں: ’وہ گول کیپر نہیں تھا۔ اس کا کھیل جارحانہ تھا، وہ ان دستانوں سے صرف دکھاوا کرنا چاہتا تھا۔‘

لیکن عمر نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ وہ موسم گرما کے فٹ بال کیمپ میں شرکت کر رہے تھے تاکہ وہ کھیل کی مشق کر سکے۔

فٹ بال کے علاوہ عمر اپنے والد کے قریب رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے والد کی کریانے کی دکان پر ان کے گرد گھومتا رہتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والد کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا جس کی وجہ سے ان کا کام مشکل ہو جاتا تھا۔

ہانی کا کہنا ہے کہ اس نے نمایاں ہونے کی کوشش کی اور اس کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس کی شخصیت جارحانہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ اپنی موجودگی محسوس ہونے دیتا تھا۔

ان کے چچا انہیں ایک پیارے اور قابل اعتماد بچے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

ان کے بقول: ’اگر آپ اسے کچھ بھی کام کرنے کو کہتے تو وہ ہمیشہ تیار رہتا۔ وہ اس قسم کی شخصیت تھی جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘

عمر خاص طور پر اپنے دادا کے قریب تھے۔ ہانی کا کہنا ہے کہ جس رات انہیں قتل کیا گیا اس رات ان کے دادا نے انہیں اپنے خواب میں نوجوان دیکھا۔ وہ آدھی رات کو بیدار ہو گئے اور 10 منٹ نہیں گزرے کہ اسرائیلی حملے میں عمر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

سات سالہ شرارتی علی المدہون

علی خاندان کے لیے ایک شرارتی بچہ تھا۔ وہ چھوٹا تھا لیکن اس کا جسم پھرتیلا تھا اور وہ ہمیشہ لڑتا رہتا تھا۔ اس کے والد مذاق میں کہتے تھے کہ علی کی نئی لڑائیوں کا جواب دینے کے لیے پڑوسیوں کے گھر جانا معمول بن گیا تھا۔ ان کے چچا ہانی کا کہنا ہے کہ والد بھی اپنے بچپن میں بالکل ایسے ہی تھے۔

کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ ان میں اتنی توانائی کہاں سے آتی ہے۔ جب گھر والے ساحل سمندر پر جاتے تو وہ ہمیشہ نظروں سے غائب ہو جاتا تھا۔

ان کے چچا کے مطابق: ’اس کو ہدایات دینا سب سے مشکل کام تھا۔ وہ قابو سے باہر ہو جائے گا اور خطرے میں کود پڑے گا اور وہ نہیں مانے گا۔ وہ بہت ضدی تھا۔‘

لیکن وہ خاندان میں سب سے چھوٹا بچہ تھا، اس لیے وہ سب کا لاڈلہ بھی تھا یعنی کزنز، دادا دادی، والدین، بڑے بہن بھائی سب کا۔ علی اپنی مسکراہٹ دکھا کر بہت کچھ کر جاتا تھا۔

وہ اپنے والد سے ہمیشہ چپکا رہتا۔ وہ ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا۔

علی، عمر اور سوار 24 نومبر کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنی بڑی بہن ریمان اور اپنے والدین ماجد اور صفا کے ساتھ مارے گئے تھے۔

وہ حالیہ تنازع میں عارضی فائر بندی شروع ہونے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے اپنے آبائی گھر میں مارے گئے جہاں وہ 40 دنوں سے پناہ لیے ہوئے تھے۔

اس اسرائیلی حملے میں مزید لوگ بھی مارے جاتے لیکن خاندان کے آدھے لوگ ماجد اور ہانی کی بہن کو ہسپتال میں ملنے کے لیے جا چکے تھے۔

وہ ایک الگ فضائی حملے میں زخمی ہو گئی تھیں جن کا علاج جاری تھا۔ گھر والے رات بھر وہیں رہے کیونکہ وہ گھر جاتے ہوئے اسرائیلی سنائپرز سے ڈرے ہوئے تھے۔

خاندان کو ان سب کی لاشیں نکالنے میں کئی دن لگ گئے۔ عمر کی لاش سب سے پہلے ملی۔ وہ دھماکے سے اپنے گھر سے اتنی دور جا گرا کہ اسے ایک اجنبی شخص نے تلاش کے علاقے سے تقریباً 20 میٹر دور پایا۔

ایک دن بعد انہوں نے اس کے والد یعنی ماجد کی لاش کو ملبے سے نکالا۔ تین دن بعد انہیں علی، ان کی ماں صفا اور بہن ریمان کی لاشیں ملیں۔

ننھی یوٹیوبر غنہ الکرنز

غنہ بے تابی سے ایک یوٹیوب سٹار بننا چاہتی تھی۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں وہ پہلے ہی ایسی ویڈیوز بنا رہی تھی جس سے ان کا مزاح، لطافت اور اعتماد کا اظہار ہوتا تھا۔

 ایک ایسی ہی ویڈیو میں، جسے انہوں نے کبھی پوسٹ نہیں کرنا پڑا، وہ ایک تجربہ کار ٹی وی میزبان کی طرح اشارے کرتے ہوئے ناظرین کو اپنے گھر کے آس پاس کے حالات دکھاتی ہے۔ وہ ہمیں کچن میں لے جاتی ہے اور ہمیں اپنے پسندیدہ چاکلیٹ ڈونٹس دکھاتی ہے جو ان کی والدہ نے ان کے لیے بنائے تھے۔

اس کے چچا محمود الکرنز کہتے ہیں کہ غنہ ہمیشہ اس طرح کی ویڈیوز بناتی تھی۔ وہ جب بھی مائیکروفون دیکھتی اسے پکڑ لیتی اور آپ کو کوئی گانا یا تقریر سننے کو ملتی۔

محمود کے مطابق: ’وہ اپنی روزمرہ کی زندگی کو ڈاکومینٹری بنانا چاہتی تھی اور لوگوں کو اپنی بہن اور بھائی اور اپنے کھلونے دکھانا چاہتی تھی۔ ان کے بہت سے خواب تھے لیکن سب سے زیادہ وہ ایک مشہور یوٹیوبر یا شاید ایک صحافی بننا چاہتی تھی۔‘

غنہ ناقابل یقین حد تک ذہین تھی۔ اس نے ہمیشہ سکول میں اچھے نمبر حاصل کیے۔ خاندان میں سب سے چھوٹی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ہر کوئی ان کے لاڈ اٹھاتا اور ان کی پرکشش شخصیت کے باعث ان کے بہت سے دوست تھے۔

 غنہ اپنی چچی اور چچا کے قریب تھی اس لیے محمود کو ان کے ساتھ کافی وقت گزارنا پڑتا تھا۔ وہ انہیں مقامی تالاب میں لے جاتا تھا اور انہیں تیرنا سکھاتا تھا۔ ان کا ایک ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا۔

ان کے بقول: ’وہ مجھ سے بہت قریب تھی، وہ مجھے ’محمود پول‘ کہتی تھی کیونکہ ہم ہمیشہ ساتھ تیراکی کرتے تھے۔‘

مارٹرز آف غزہ کی رپورٹ کے مطابق غنہ 23 اکتوبر کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اس عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں ماری گئی جہاں انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی۔

ان کا خاندان تحفظ کی تلاش میں شمال میں ہونے والی بمباری سے بھاگ رہا تھا۔ غنہ کی موت کے بعد ان کی والدہ نے محمود کو اس دن کے بارے میں بتایا جس دن ان کی موت ہوئی تھی۔

وہ کہتے ہیں: ’انہوں نے ہمیں بتایا کہ غنہ اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی کہ وہ دوپہر کے کھانے میں کیا بنا رہی ہیں۔ انہیں ہر روز کھانا میسر نہیں تھا کیونکہ غزہ میں خوراک کی قلت تھی اس لیے کبھی کبھار انہیں صرف چائے اور بسکٹ پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا۔‘

گرچہ اس دن غنہ کی والدہ اس کا پسندیدہ پکوان پکا رہی تھی یعنی ٹماٹر کے سوپ کے ساتھ پھلیاں۔ غنہ گہرے لال رنگ کی وجہ سے اسے ’سرخ کھانا‘ کہتی تھی۔

کھانا ملنے کے امکان پر وہ بے حد خوش تھی۔ جب ان کی والدہ نے چولہے پر برتن چڑھایا تو وہ چیختے ہوئے ادھر ادھر اچھلتے ہوئے ’سرخ کھانا! سرخ کھانا! سرخ کھانا!‘ کی آوازیں لگا رہی تھی۔

اس کے صرف چند منٹ بعد ہی وہ ایک فضائی حملے میں ماری گئی۔ اس کی لاش 24 گھنٹے بعد گرنے والی عمارت کے ملبے کے نیچے سے ملی۔

ان کی ماں خوش قسمت تھی کہ زندہ بچ گئی لیکن غنہ کھانا کھائے بغیر ہی جان سے چلی گئی۔‘

13 سالہ عمر الکرنز کی گھر سے باہر کی سرگرمیاں

عمر کو ویڈیو گیمز اور ان سے متعلق ہر چیز سے محبت تھی۔ انہوں نے بڑے ہو کر کمپیوٹر انجینئر بننے کا منصوبہ بنایا تاکہ انہیں کھیلنے پر معاوضہ مل سکے (ان کا دوسرا خواب فٹ بالر بننا تھا)۔

عمر کے چچا محمود کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمیشہ جدید ترین آئی پیڈ خریدنا اور گیمز کھیلنے کے لیے جدید ترین لیپ ٹاپ استعمال کرنا چاہتے تھے۔‘

انہیں فٹ بال کا کھیل سب سے زیادہ پسند تھا۔ وہ انہیں گھنٹوں کھیلتے رہتے۔

عمر کو باہر کا ماحول بھی بہت پسند تھا۔ وہ اپنے دادا دادی اور چچا محمود کے ساتھ ساحل سمندر پر جاتے تھے۔

وہ زمین پر چٹائی بچھاتے اور کیمپ فائر پر باربی کیو کا مزا لیتے۔ وہ دوسری کے ساتھ مل کر پتنگیں بناتے اور انہیں ساحل سمندر پر اڑاتے۔

عمر جانوروں کی آوازیں نکال کر سب کو ہنساتے۔ وہ مینڈک اور الو کی تقریباً درست آواز نکال سکتے تھے۔

عمر اپنی زندگی کے آخری دنوں میں غم زدہ ہو گئے۔ 20 اکتوبر کو ان کے دادا دادی، چچا اور کزن اسرائیلی فضائی حملے میں جان سے گئے۔

ان کے چچا، محمود نے اگلے چند دنوں میں ان سے کئی بار بات کی اور جہاں تک انہیں یاد پڑتا ہے انہوں نے عمر کبھی اتنا اداس اور دل گرفتہ نہیں پایا۔

محمود نے کہا کہ ’عمر اس جنگ سے تھک چکے تھے اور غزہ سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتے تھے جہاں وہ ساری رات بم دھماکوں کی آواز نہ سنیں اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ کسی محفوظ جگہ پر رہ سکیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ اپنے ملک سے بہت محبت کرتے تھے اور یہاں ان کی اچھی یادیں ہیں لیکن وہ اب جنگ کی کیفیت میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔‘

اپنے دادا دادی کے قتل کے تین دن بعد، عمر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور وہ اپنی بہن غنہ کے ساتھ جان سے گئے۔

غنہ اور عمر کے والد محمد اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) میں کام کرتے تھے۔

گذشتہ ایک ماہ سے ان کا کام غزہ کے دیگر حصوں سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو اقوام متحدہ کے سکولوں میں بم حملوں سے بچنے میں مدد کرنا تھا۔

محمود کا کہنا ہے کہ ’وہ علاقہ چھوڑنے والے لوگوں کی مدد کرنے اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے کام کر رہے تھے ’لیکن اس سب کے بعد بھی، وہ اپنے خاندان کو نہیں بچا سکے۔‘

مستقبل کے سکالر 14 سالہ محمود عثمان

عمر اور غنہ کے چچا زاد بھائی محمود عثمان کسی انجینئر کا ذہن رکھتے تھے۔ وہ اپنے کھلونوں اور دوسری گھر کی دوسری چیزوں کو کھول کر جوڑا کرتے۔ انہیں الیکٹرانک آلات پسند تھے۔

محمود اپنی آئندہ زندگی میں سفر کرنا چاہتا تھے لیکن ایک خاص مقصد کے ساتھ۔ وہ بہترین تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اسی لیے وہ اپنے چچا، جن کا نام بھی محمود ہے اور وہ ترکی میں رہتے ہیں، سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں جانے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

محمود کا کہنا ہے کہ ’وہ مجھ سے اچھی یونیورسٹی تلاش کرنے میں مدد مانگ رہے تھے۔‘

جب اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوا تو محمود نے باقی سب لوگوں کی خاطر وہاں موجود رہنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اپنے خاندان میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے انہوں نے بھرپور طریقے سے ذمہ داری پوری کی۔ وہ

اپنے چچا محمود کو فون کرتے اور انہیں یقین دلاتے کہ وہ اپنے والدین کی دیکھ بھال کریں گے۔

محمود کے بقول: ’وہ مجھ سے کہتے تھے کہ ان لوگوں کی فکر نہ کروں۔ وہ محفوظ ہیں اور میں ان کی ہر ضرورت میں مدد کر سکتا ہوں۔ وہ مجھے بتانا چاہتا تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘

محمود اپنی والدہ، چچا اور دادا دادی کے ساتھ مارے گئے۔

فیش کی دلدادہ 14 سالہ جود عبدالعزیز ابوشعبان

جود ابوالعزیز ابوشعبان سفر کرنا چاہتی تھیں بالکل اسی طرح جیسے ان کے والد نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیا۔

وہ اپنی ذات اور انداز کا احساس دلاتی تھیں اور انہوں نے سات اکتوبر کو حملے سے کچھ دیر پہلے اپنے والد سے بالیوں کی فرمائش کی۔

جود کے چچا عادل ابوشعبان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ان کے والد نے ان کے لیے بالیاں خریدیں جنہیں انہوں نے چند ہفتے پہنا۔‘

2009 میں حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک اور لڑائی کے دوران پیدا ہونے والی جود کی پرورش جنگ کے ماحول میں ہوئی۔

اس کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی انہیں ’روائتی بچہ‘ بننے میں رکاوٹ نہیں ڈالی یعنی سکول جانا اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا۔ خاص طور پر اپنے بڑے بھائی یوسف کے ساتھ۔

ابوشعبان کے بقول: ’وہ زندگی سے بھرپور تھیں اور زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھیں۔‘

لیکن 18 اکتوبر کو ابوشعبان کے گھر پر میزائل حملے کے نتیجے میں جود کی زندگی ختم ہو گئی۔

اسرائیلی بم حملوں کی آواز سن کر جود، ان کے بھائی، چھوٹی بہن اور والدین اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپ گئے۔ لیکن جب سیڑھیوں کے اوپری حصے میں دھاتی دروازے پر دھماکہ ہوا تو ٹکڑے اڑ کر جود سمیت خاندان کے کئی افراد کو لگے۔

خوش وخرم ننجا، 12 سالہ فرید سلوط

فرید سلوط کو اپنی پوری لیکن مختصر زندگی بہادری کا مظاہرہ کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی دن سے لڑائی دیکھی۔

جب وہ اپنی والدہ کے شکم میں تھے تو اسرائیلی طیارے 2012 کے آپریشن پلر آف ڈیفنس کے دوران غزہ پر حملہ کر رہے تھے۔ بموں کی آواز ان پہلی آوازوں میں سے ایک تھی جو انہوں نے کبھی سنی۔

فرید چہرے کے نقص کے ساتھ پیدا ہوئے جس کا غزہ میں علاج ممکن نہیں تھا لیکن اس نقص نے انہیں تفریح پسند بچہ بننے سے نہیں روکا۔

فرید اپنا زیادہ تر فارغ وقت اپنے والد کی حجام کی دکان میں گھومتے پھرتے اور گاہکوں سے گپ شپ اور شرارت کرتے ہوئے گزارتے تھے۔

ان کے والد کو امید تھی کہ وہ ایک دن اپنے دو بھائیوں کے ساتھ مل کر کاروبار سنبھالیں گے۔

ان کے پسندیدہ کارٹون شو میں ننجا کا کردار تھا۔ وہ سیاہ رنگ کا لباس پہن کر کھلونا تلوار اٹھائے دوڑنا بھاگنا پسند کرتے تھے۔ فرید کو کھلونہ کاریں بہت پسند تھیں لیکن وہ ان پاس زیادہ تعداد میں نہیں تھیں۔

2016 میں جب وہ صرف پانچ سال کے تھے ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔ فلسطین چلڈرن ریلیف فنڈ نے رقم جمع کی اور ان کے چہرے کی خرابی کے علاج کے سلسلے میں انہیں پیچیدہ سرجری کی خاطر لوزیانا کے شہر شریوپورٹ بھجوانے کا انتظام کیا۔

 ان کے والدین کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اس لیے ان کی دادی حجر ابوسلمی ان کے ساتھ تھیں۔

فلسطینی نژاد امریکی شہری سارہ رامونی، جنہوں نے فرید کے امریکہ آنے پر ان کی میزبانی کی، کو 14 گھنٹے جاری والے آپریشن کے بعد فرید کے ہوش میں آنے کے چند منٹ اچھی طرح یاد ہیں۔

ڈاکٹروں نے مؤثر طریقے سے ان کے سر کی ہڈی میں موجود خالی جگہ کو بھر دیا اور آنکھیں اپنی جگہ واپس لائے۔

سارہ اور دیگر ڈاکٹر اسے باتھ روم جانے میں مدد دینے کے لیے آگے بڑھے لیکن ان کی دادی نے مداخلت کی۔

رامونی نے کہا کہ ’دادی کہنے لگیں، نہیں، نہیں، نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بچہ نہیں سمجھتے۔ انہیں بہادر ہونا چاہیے۔ ہم نہیں جانتے کہ انہیں مستقبل میں کس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔‘

فرید کو ہمت کرنی تھی لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے ایسا کیا۔

رمونی کے بقول: ’وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ وہ بہت زندہ دل تھے اور وہ ہمیشہ آپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

جب وہ شریوپورٹ میں صحت یاب ہو رہے تھے، تو فرید نے بہت سا پسندیدہ کھانا کھایا یعنی فرائیز۔ لیکن انہیں امریکی فرائیز پسند نہیں تھے۔

ان کی دادی نے آلو کاٹ کر انہیں اچھی طرح تلا۔ وہ فرنچ فرائیز سے زیادہ موٹے اور تلے ہوئے تھے اور ان کا ذائقہ گھر والا تھا۔

بعد میں قصی نے شریو پورٹ کا وہی سفر طے کیا جو ان کے چھوٹے بھائی فرید نے ایک سال قبل کیا تھا۔ وہ بھی چہرے کی اسی خرابی کے ساتھ پیدا ہوئے تھے اور علاج کے لیے امریکہ گئے۔

قصی شرمیلے اور فرید سے بڑے تھے۔ وہ اس بارے میں زیادہ سمجھتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا آپریشن طویل اور تکلیف دہ ہوگا۔

رامونی کہتی ہیں کہ ’انہوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی کو کیا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے مجھے لگا کہ وہ اس بارے میں زیادہ جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔‘

دونوں لڑکوں کے سر میں ایک جگہ کوئی ہڈی نہیں تھی۔ یہ حالت ممکنہ طور پر جان لیوا تھی۔

کلیفٹ اینڈ کرینیوفیشل سرجری فیلو ڈاکٹر جیسن ڈیشو نے قصی کے آپریشن کے بعد کہا کہ ’فعال چھوٹا لڑکا ہونے کی وجہ سے اگر کوئی شے ان کے سر میں لگتی تو وہ بنیادی طور پر صرف جلد سے گزرتی اور پھر وہ دماغ تک پہنچ جاتی۔ جہاں ہم باقی لوگوں کا خول ہوتا ہے وہاں بڑے حصے میں یہ خول نہیں تھا۔‘

ڈاکٹر ڈیشو نے لوزیانا سٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ کے جریدے کو بتایا: ’اب اس پورے حصے میں ہڈی رکھ دی گئی ہے جو اسی طرح بڑھے گی جس طرح ان کے بھائی کے سر کی ہڈی بڑھی۔ جب وہ کوئی کھیل کھیل رہے ہوں اور ان کے سر کے پچھلے حصے میں چوٹ لگ جائے جیسا کہ کسی بھی بچے کے ساتھ ہوتا ہے، تو وہ اب محفوظ ہوں گے۔‘

شریوپورٹ میں قصی کو ہمیشہ ڈاکٹروں سے ملاقات کا وقت لینا پڑتا تھا۔ رامونی پہلے کی طرح ان کی اور ان کی دادی کی دیکھ بھال کے لیے وہاں موجود تھیں۔

قصی اپنے چھوٹے بھائی کی طرح طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم نہیں تھے اس لیے رامونی کو بھی قصی کو جاننے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی عمر کے زیادہ تر بچوں کے مقابلے میں زیادہ پختہ تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی عمر آٹھ سال تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ بچے زیادہ تیزی سے بڑے ہوئے۔ اصل میں انہیں بچپن گزارنے کا موقع نہیں ملا۔

’میں نے محسوس کیا کہ ان بچوں کو زیادہ تیزی سے بڑا ہونا پڑا۔‘

مسلسل خوف اور بدترین حالات کی تیاری سلوط خاندان کے ذہنوں میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ رامونی کو یاد ہے کہ انہوں نے قصی اور فرید کی والدہ سے مذاق میں سوال کیا کہ جب غزہ کے حالات اتنے خراب تھے تو ان کے ہاں اتنے بچے کیوں تھے۔

رامونی کے مطابق: ’والدہ نے کسی تامل کے بغیر جواب دیا۔ ہمارے آدھے بچے بچ نہیں پاتے اس لیے ہمیں بچے پیدا کرتے رہنا پڑتا ہے۔‘

'جس طرح سے انہوں نے کہا وہ بالکل اسی طرح تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک اور جنگ ہونے والی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ بچے بچ نہ سکیں۔‘

ان الفاظ نے درست ثابت ہونا تھا۔ فرید اور قصی آٹھ نومبر کو خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملے میں جان سے گئے۔ حملے میں میں ان کے دادا دادی، ان کی چچی اور چچا اور ان کے بھائی قاسم مارے گئے۔
https://taghribnews.com/vdcdsn09kyt0fz6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ