تاریخ شائع کریں2023 30 November گھنٹہ 14:58
خبر کا کوڈ : 616502

فلسطین پر اسرائیلی حملہ اور دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی

’تمام عرب اور مسلمان اس وقت کہاں ہیں؟ اور کہاں ہیں انسانی حقوق کے تمام محافظ؟ آپ سب نے فلسطینی عوام کو اذیت، بھوک اور تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔‘
فلسطین پر اسرائیلی حملہ اور دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی
تحریر: عدنان البرش
بشکریہ:بی بی سی عربی، غزہ


’تمام عرب اور مسلمان اس وقت کہاں ہیں؟ اور کہاں ہیں انسانی حقوق کے تمام محافظ؟ آپ سب نے فلسطینی عوام کو اذیت، بھوک اور تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔‘

ایک درمیانی عمر کی خاتون غزہ میں کھانا پکانے کے لیے درکار گیس کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے ہو کر دنیا کے سامنے سوال اٹھا رہی تھیں۔

وہ غصے میں کھڑی زور زور سے چیخ رہی تھیں۔ ان کے چہرے سے مایوسی چھلک رہی ہے اور ان کے پس منظر میں اداسی کے گہرے سائے نمایاں ہیں۔

’ہم صبح سے ایک گیس سلنڈر بھرنے کے لیے لمبی لائن میں کھڑے ہیں۔ میں نے صبح کی نماز بھی یہیں کھڑے ہو کر ادا کی۔‘

انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ شمال کے شہر بیت حانون میں رہتی تھیں جہاں سے وہ بے گھر ہو گئی ہیں اور یہ مقام اسرائیل کی سرحد سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

’میں اس تباہی کو بیان نہیں کر سکتی۔ یہاں کے تمام خاندانوں کا نام سول ریکارڈ سے ہی مٹا دیا گیا ہے اور ان کو ان کے گھروں کے اندر ہی مار ڈالا گیا ہے۔ غزہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ ہم پر رحم کریں۔‘

اس وقت یہ خاتون اپنے خاندان کے ساتھ غزہ کے وسط میں واقع دارالبلاح شہر میں اقوام متحدہ کے ایک سکول میں رہ رہی ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 18 ہزار 800 سے زائد فلسطینی شہری اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس سے قبل، حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کو کیے جانے والے تباہ کن حملے میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ اس دوران 200 سے زائد اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

غزہ کی پٹی پر جہاں 24 لاکھ شہری آباد تھے اور اب اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 18 لاکھ فلسطینی جنوب کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں۔

پکانے کے لیے گیس کے حصول کے لیے یہاں سینکڑوں افراد لمبی قطار میں موجود ہیں۔ کئی لوگ انتظار میں تھک کر گیس کے سیلنڈرز پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں کی فضا میں تناؤ ہے اور لوگ تھکن سے بے حال ہو گئے ہیں۔

24 نومبر کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد سے اب غزہ کی پٹی میں روزانہ 200 امدادی ٹرک داخل ہو رہے ہیں تاہم یہ تعداد جنگ سے پہلے کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ وہ شمال کے ان حصوں میں بھی کچھ نہ کچھ امداد پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں جہاں اسرائیلی فوج موجود ہے تاہم ہر جگہ سامان کی بہت کمی ہے۔

قطار میں موجود ایک اور آدمی مجھ سے بات کرنے پر راضی ہو گیا۔

’آپ کو ایک کپ چائے یا بسکٹ کا ایک پیکٹ تک نہیں ملتا۔ کل سڑک پر سونے والے لوگ ایک روٹی کو آپس میں بانٹ کر گزارا کر رہے تھے۔

’کل یہاں جو بارش ہم پر برسی اور جس سردی سے ہم گزرے تھے وہ ہم ہی جانتے ہیں کہ کیسے یہاں رات گزاری۔ خدا ہماری مدد کرے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کے مطابق اسرائیل نے تنازع کے آغاز سے ہی غزہ میں ایندھن کی تمام ترسیل روک دی تھی۔

اس کے بعد وہاں ایک محدود مقدار میں ایندھن کی فراہمی کی اجازت دی گئی جس کی مقدار ہر دو دن میں ایک لاکھ 40 ہزار لیٹر بنتی ہے۔

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ حماس اضافی ایندھن استعمال کر سکتی ہے۔

محمد القدرہ کھانا پکانے والی گیس کی قطار میں انتہائی صبر سے انتظار کر رہے ہیں۔

’ہم یہاں تین دن سے ہیں۔ ہم یہاں دو رات پہلے آئے تھے اور تین بجے سے اب تک، ہم سلینڈر بھرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

’ہمیں ایندھن، آٹا یا ضرورت کی کوئی شے آسانی سے نہیں ملتی۔ آپ کو ہر چیز کے لیے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور آپ اسے ڈھونڈنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔‘

امریکہ مصر کے لیے تین امدادی پروازیں بھیج رہا ہے جس میں طبی اشیا، خوراک کی امداد اور موسم سرما کے لیے ضروری اشیا شامل ہیں، جنھیں اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ میں تقسیم کیا جائے گا۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر صحت کا بنیادی ڈھانچہ بحال نہ کیا گیا تو بمباری میں ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ افراد بیماریوں سے مر جائیں گے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی زیر قیادت امدادی کنسورشیم کا کہنا ہے کہ غزہ میں 60 فیصد عمارتیں یا تو مکمل تباہ ہو چکی ہیں یا رہنے کے قابل نہیں رہیں۔

جنگ بندی ہونے کے ساتھ ہی غزہ میں زندگی واپس آنے کے کچھ آثار دکھائی دینے لگے ہیں جہاں اس سال زیتون کی باقی ماندہ فصل کی کٹائی کی جا رہی ہے۔

خان یونس میں رہائش پزیر فلسطینی کسان فتحی ابو صلاح نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہو گا، وقت بہت کم ہے۔‘

’اس جنگ نے ہمیں تباہ کر دیا، شاید ہی کوئی پیداوار ہو سکے۔ فصل کی اکثریت برباد ہو گئی۔‘

بجلی کی کمی کی وجہ سے آولیو پریس (زیتون کے تیل نکالنے کی مشینری) چلانے کے لیے ایندھن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

زیتون کے کاشتکار اور پریس ورکر محمد وفی کہتے ہیں کہ ’ایندھن کی تلاش ایک ایسا بحران ہے جس کا سب کو سامنا ہے۔

’جیسے ہی ہمیں ایندھن تک رسائی حاصل ہوئی، ہم نے زیتون کے پریس کو کھول لیا حالانکہ یہ بہت کم صلاحیت پر کام کر رہا ہے۔‘
https://taghribnews.com/vdcjymem8uqeviz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ