تاریخ شائع کریں2016 17 November گھنٹہ 16:37
خبر کا کوڈ : 251251

صیہونی صدر کا دورہ بھارت کس کے لئے خطرہ؟

صہیونی بھارتی اتحاد کی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے عالم اسلام کو ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے جس کی قیادت ایسی حکومت کے پاس ہو جو فلسطینیوں اور ک
صہیونی بھارتی اتحاد کی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے عالم اسلام کو ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے جس کی قیادت ایسی حکومت کے پاس ہو جو فلسطینیوں اور کشمیریوں کی عملی مدد کرتی ہو۔
صیہونی صدر کا دورہ بھارت کس کے لئے خطرہ؟
صہیونی بھارتی اتحاد کی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے عالم اسلام کو ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے جس کی قیادت ایسی حکومت کے پاس ہو جو فلسطینیوں اور کشمیریوں کی عملی مدد کرتی ہو۔ ایران فلسطینیوں کا ہمدرد و خیر خواہ ہے جبکہ پاکستان کشمیریوں کامسئلہ دنیا میں پیش کرنے والا فعال ملک ہے، کیا یہ دونوں ملک ایسے اتحاد کے لئے آمادہ ہیں؟

ایران فلسطینیوں کا ہمدرد و خیر خواہ ہے جبکہ پاکستان کشمیریوں کامسئلہ دنیا میں پیش کرنے والا فعال ملک ہے، کیا یہ دونوں ملک ایسے اتحاد کے لئے آمادہ ہیں؟

فلسطین پر مسلط کی جانے والی جعلی و غاصب نسل پرست صہیونی ریاست اسرائیل کے صدر ریووین ریولن نے اتوار کی شب بھارتی صدر پرناب مکھرجی کی دعوت پر اپنی بیگم سمیت بھارت کے دورے کے لئے رخت سفر باندھا۔ البتہ اپنے اسٹیٹ وزٹ کا آغاز منگل 15نومبر کو کیا۔ اسٹیٹ وزرٹ بین الاقوامی سفارتی اصطلاح ہے جو کسی سربراہ مملکت یا حکومت کے سب سے اعلیٰ سطح کے غیر ملکی دورے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔

صہیونی صدر نے کہا ہے کہ بھارت اہم اتحادی ہے اور ان کا دورہ بھارت دونوں ملکوں کے مضبوط تعلقات و دوستی کی علامت ہے اور اس میں وہ ایسے بیج بوئیں گے جس سے یہ تعلقات روز بروز پھلیں پھولیں گے۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے باقاعدہ سفارتی تعلقات کے پچیسویں سال شروع ہونے سے قبل یعنی سلور جوبلی کی مناسبت سے بھی اہم اشارہ ہے۔

یاد رہے کہ مکمل سفارتی تعلقات 1992ء میں قائم ہوئے تھے اور اس سے قبل بھارت میں صہیونی سفارتخانہ قائم نہیں ہوا تھا لیکن بھارت نے 17ستمبر 1950ء کو باضابطہ طور پر جعلی ریاست اسرائیل کو ایک مملکت کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تھا۔ اس کے بعد جیوش ایجنسی نے بمبئی میں ایک امیگریشن آفس کھولا جو بعد ازاں تجارتی دفتر میں تبدیل ہوا اور بالآخر یہی دفتر بمبئی میں اسرائیلی قونصلیٹ میں تبدیل ہوا۔

بھارتی ریاست کی صہیونیت نواز پالیسی کے باوجود انصاف کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں بھی فلسطینیوں کے بہت سے دوست آباد ہیں۔ غزہ کے محاصرے کو ختم کروانے کے لئے جو قافلے وہاں جانے کے لئے کوشاں رہے ان میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کی نمائندگی بھی تھی۔

صہیونی صدر کے اس دورے کے خلاف بھی بھارت کی نمائندگی بھارت کے غیرتمند سپوتوں نے اس طرح کی کہ تیس اہم اور سرکردہ گروہوں کی 70ممتاز اور نامور شخصیات نے کھلا خط لکھ کر صہیونی ریاست کے بائیکاٹ اور ان کے مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے ان پر پابندیوں کی تحریک (BDS) کی حمایت اور صہیونیوں کی مخالفت و مذمت کی۔ 2015ء میں جب بھارتی صدر پرناب مکھرجی مقبوضہ بیت المقدس میں قدس یونیورسٹی گئے تو فلسطینی طالبعلموں نے بھارت کی اسرائیل نواز پالیسیوں کی شدید مذمت و مخالفت کی اور ان کی آمد پر احتجاج بھی کیاتھا۔

قارئین کی معلومات میں اضافے کے لئے بھارت-اسرائیل تعلقات کے تاریخی پس منظر کا اجمالی جائزہ بھی پیش خدمت ہے تاکہ سب پر واضح ہوسکے کہ ان تعلقات کی گہرائی کتنی ہے اور یہ تعلقات عالم اسلام و دنیائے عرب کے لئے اپنے اندر کیا پیغام رکھتے ہیں؟

نہرو کے دور حکومت سے دیکھیں تو سابق بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو تو یہ چاہتے تھے کہ صہیونی ریاست کو بنڈونگ کانفرنس (1955ء) میں شرکت کی دعوت دیں لیکن عرب ممالک کی ممکنہ مخالفت کی وجہ سے انہوں نے فلسطین کی حمایت کی پالیسی وضع کی۔ سرد جنگ کے دور میں بھارت نے نہرو کی ہی پالیسی پر عمل کیا۔ بھارتی حکومت نے فلسطین کے غاصب نسل پرست اسرائیل سے اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کو خفیہ رکھنے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی لیکن اب یہ پالیسی تبدیل ہوچکی ہے۔ بھارتی حکومت کے صہیونیوں سے تعلقات کی نوعیت پر نہ تو انڈین نیشنل کانگریس کو اعتراض ہے اور نہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو۔ فرق صرف یہ ہے کہ کانگریس ان روابط کو خفیہ رکھنے کو ترجیح دیتی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس کو ظاہر کرنے پر مصر رہتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ جب گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام کروانے والا نریندرا مودی انڈیا کا وزیر اعظم بنا تو ان تعلقات میں مزید استحکام کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

1992ء میں باضابطہ اور مکمل سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے نامور رہنما ایل کے آڈوانی پہلے سینیئر بھارتی وزیر تھے جنہوں نے سال 2000ء میں جعلی ریاست اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور اسی سال ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ انڈو اسرائیلی جوائنٹ ورکنگ گروپ قائم ہوا حالانکہ فلسطینی و کشمیری مسلمان بہتر بتلا سکتے ہیں کہ دہشت گردی در حقیقت کس چڑیا کا نام ہے! 2003ء میں بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا نے امریکن جیوش کمیٹی سے خطاب کیا جہاں ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ سے لڑنے کے لئے بھارت، اسرائیل اور امریکا کے مابین تعاون کے امکان پر زور دیا تھا۔

ستمبر 2003ء میں صہیونی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا اسٹیٹ وزٹ کیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس کی قیادت میں اتحادیوں کی بھارتی حکومت نے صہیونی حکومت کے ساتھ روابط کے بارے میں میڈیا کے سامنے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ 2010ء میں کانگریس سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ مانی شنکر آیار کو بھارتی وزارت خارجہ نے اس موضوع پر پارلیمنٹ میں بحث سے منع کردیا تھا کیونکہ ان کے مطابق اسرائیل کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات اسٹیٹ سیکرٹ تھے۔ دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی جونیئر فیلو کانچی گپتا کے مطابق، 2004ء تا 2014ء کانگریس و اتحادی حکومت کی جانب سے سابق وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کا 2012ء کا دورہ اسرائیل ہی سینیئر سطح کا کوئی دورہ تھا اور وہ بھی علاقائی دورہ تھا جس میں متحدہ عرب امارات، اردن اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا دورہ بھی شامل تھا۔

بھارت اور جعلی ریاست اسرائیل کے مابین فوجی معاونت پر مبنی تعلق پہلے ہی قائم ہوچکا تھا ۔1962ء میں چین کے خلاف اور 1965ء اور 1971ء میں پاکستان کے خلاف جنگوں میں صہیونی ریاست نے بھارت کو فوجی معاونت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ناجائز و غاصب وجود اسرائیل بھی پیش پیش تھا۔

صہونی وزیر خارجہ موشے دایان نے اگست 1977ء میں بھارت کا خفیہ دورہ کیا تھا، تب بھارت میں جن سنگھ پارٹی کی حکومت تھی، بھارتیہ جن سنگھ راشٹریہ سیوک سنگھ کی سیاسی ونگ تھی۔ اندرا گاندھی نے اپنے والد نہرو کی پالیسی پر عمل کیا لیکن اندرا کے بیٹے راجیو گاندھی وہ پہلے بھارتی وزیر اعظم تھے جنہوں نے ستمبر 1985ء میں صہیونی وزیر اعظم سے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اعلانیہ ملاقات کی تھی۔

اس وقت کہا گیا تھا کہ پاکستان نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے نسل پرست صہیونی حکومت اور بھارت کے مابین قربتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ آج بھی پوری دنیا جانتی ہے کہ فلسطین کی غاصب نسل پرست دہشت گرد صہیونی ریاست بہت پہلے سے نیوکلیئر ہتھیار بنانے پر گامزن ہوچکی تھی اور بھارت نے بھی 1970ء کے عشرے میں ایٹمی تجربات کئے تھے، پاکستان نے تو رد عمل میں ایٹمی ہتھیاروں پر کام کیا۔

ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ممبئی میں دہشت گرد حملے کے بعد بھارت کو صہیونی حکومت کی جانب سے اسلحے کی فروخت میں بے حد اضافہ کیا گیا اور 2009ء میں صہیونی حکومت نے روس کی جگہ لے لی یعنی بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ روس فروخت کیا کرتا تھالیکن ممبئی حملوں کے بعد صہیونی ریاست بھارت کے اتنے نزدیک آگئی کہ 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل کی کل ڈیفنس ایکسپورٹ 7 بلین ڈالر تھی اور اس میں بھارت کو کی گئی ایکسپورٹ کی مالیت ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

29اکتوبر2014ء کو جاری کی گئی دی ڈپلومیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارت اینٹی ٹینک ہتھیاروں کی خریداری کا 525 ملین ڈالر مالیت کا معاہدہ کررہا ہے اور یہ خریداری امریکا کی بجائے اسرائیل سے کی جارہی ہے۔ بھارت نے اسرائیل سے ڈرون طیارے بھی خریدے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ وہ اسرائیل سے 8356 اسپائیک میزائل بھی خریدرہا تھا مجموعی طور پر بھارت اپنی فوج کی جدیدیت پر 13 بلین ڈالر سے زائد مالیت کے منصوبے تیار کرچکا ہے، تاحال روس اس کا پہلے نمبر کا فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا ملک ہے اور صہیونی ریاست دوسرے نمبر پر ہے جبکہ امریکا کے مقابلے میں بھارت اسی کو ترجیح دے رہا ہے۔

صہیونی حکومتی ذرائع نے دو سال قبل کہا تھا کہ انڈیا اسرائیل کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے جبکہ چین اس کا ٹریڈ پارٹنر ہے جو اسکے ساتھ سالانہ 10 بلین ڈالر کی تجارت کرتا ہے، بھارت کے ساتھ سالانہ تجارت محض پانچ بلین ڈالر ہے۔

صہیونی روزنامہ ھا آرتس کے آموس ہارل کی رپورٹ (18فروری 2015ء)کے مطابق، موشے یعلون پہلا صہیونی وزیر دفاع تھا جس نے بھارت کا دورہ کیا اوربنگلور میں ایئرو انڈیا نمائش میں اسرائیل ایئرواسپیس انڈسٹریز پویلین پر بھارتی وزیر اعظم مودی نے بھی حاضری دی اور اسی نمائش میں یعلون نے شرکت کی۔

2جون 2015ء کو انکت پانڈے نے رپورٹ دی کہ نریندرا مودی پہلے بھارتی وزیر اعظم ہوں گے جو اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ مجوزہ دورہ کا مقصد اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعاون پر بات چیت ہے جبکہ صہیونی صدر نے انہیں باضابطہ دعوت دے دی ہے۔

گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمے دار مودی نے وزیر اعلیٰ گجرات کی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ 2014ء میں صہیونی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے دوران مودی سے ملاقات کی تھی۔ بھارت کی موجودہ وزیراعظم سشما سوراج سال 2006ء تا 2009ء میں انڈو، اسرائیلی پارلیمانی فرینڈشپ گروپ کی سربراہ تھیں۔ سشما سورج نے جب 2008ء میں صہیونی علاقے کا دورہ کیا تھا تب تل ابیب کو قابل اعتماد شراکت دار قرار دیا تھا۔

بھارت اسرائیل تعاون مختلف شعبوں میں جاری ہے۔ فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ زرعی، تعلیمی، تحقیقی شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کی اپنی ایک تاریخ ہے لیکن دفاعی شعبے میں تعلقات میں گرمجوشی پاکستان سمیت دنیا بھر کے فلسطین دوست ممالک اور انسانوں کے لئے باعث تشویش ہے۔

لیڈن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر آف انٹر نیشنل ریلیشنز نکولس بلیرل کا خیال ہے کہ کارگل بحران کے بعد بھارت کا جھکاؤ صہیونی حکومت کی جانب زیادہ ہوگیا۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کشمیر میں اس کے خلاف عوامی تحریک 1980ء کے عشرے میں شروع ہوئی تھی، اس کے بعد بھارت صہیونیت کے زیادہ قریب ہونا شروع ہوچکا تھا۔ لاس اینجلس سے شائع ہونے والے صہیونی جریدے میں شائع ہونے والا ایک مقالہ مجھے آج بھی یاد ہے جس میں ایک صہیونی نے لکھا تھا کہ جس طرح حماس، حزب جہاد اسلامی فلسطین جیسی ’’دہشت گرد‘‘ تنظیوں سے خطرہ ہے، اسی طرح کی’’دہشت گردی‘‘ سے بھارت کو خطرہ ہے، اس لئے دونوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ ہونی چاہیے۔

یہ مائنڈ سیٹ رکھنے والے لوگ پاکستان کو بھی اس زمرے میں رکھا کرتے تھے کہ وہ بھی اس انٹیلی جنس شیئرنگ کا حصہ بن جائے۔ صہیونی ریاست سے تعلقات کا موضوع پرویز مشرف کی جرنیلی جمہوریت میں بہت زیادہ زیر بحث آیا تھا اور ان کے دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اعتراف کیا تھا کہ ترکی میں ترک حکومت کے توسط سے صہیونی حکومت کے ذمے داروں سے خفیہ ملاقات و مذاکرات ہوئے تھے۔ کشمیری مزاحمت کو ہائی جیک کرنے والی بعض تنظیموں اور رہنماؤں کا حماس اور حزب جہاد اسلامی فلسطین جیسی تنظیموں سے موازنہ کرنا سراسر ظلم پر مبنی ہے۔

کشمیریوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی کشمیری تنظیموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مادر وطن کا دفاع کریں جیساکہ لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی مذکورہ تنظیمیں کررہی ہیں اور ان کی قیادتیں ان کی اپنی ہیں، ہائی جیکڈ مزاحمت نہیں ہے۔

نسل پرست غاصب صہیونی ریاست اور بھارت کی یہ قربتیں اور اتحاد عالم اسلام اور عرب دنیا کے لئے خطرے کی علامت ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں صہیونیوں کے اسلحے سے پرامن سیاسی جدوجہد و مزاحمت کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کشمیری انتفاضہ میں متعدد شہید ہوچکے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ دنیا کا ضمیر سویا ہوا ہے۔ عالم اسلام کی او آئی سی، نو آئی سی بن چکی ہے۔ عرب لیگ بھی او آئی سی کی طرح عرب دشمنوں اور اسلام دشمنوں کی سازشوں میں شریک ہوکر مسئلہ فلسطین و کشمیر کو کاغذی مسئلہ بنا چکی ہیں جس پر ایک کھوکھلا کاغذی بیان جاری کرکے یمن ، شام اور لیبیا میں خود اور دہشت گردوں کے ذریعے حملوں سے عالم اسلام کی توجہ ہٹانے کی مذموم پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔

بھارت اورصہیونی اسرائیل کے تعلقات سے زیادہ خطرناک حقیقت یہ ہے کہ ناجائز و جعلی وجود اسرائیل اور بھارت دونوں کے خلیجی عرب ممالک سے تعلقات بہت اچھے ہوگئے ہیں۔ بھارت خلیج فاارس کے عرب ممالک کو 51 بلین ڈالر کی برآمدات بھیجتا ہے اور عرب ممالک اس سے کئی گنا مالیت کی تجارت بھارت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان ممالک میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین، قطر سبھی شامل ہیں۔ پاکستانی ریاست بھارت کو دشمن تو کہتی ہے لیکن ترکمانستان، افغانستان سے پاکستان آنے والی گیس پائپ لائن بھارت تک پہنچانے والے منصوبے TAPI کے ذریعے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلق پر بھی راضی ہے۔

کیا بھارت اسرائیل پاکستان کے خلاف، عالم اسلام کے خلاف اور فلسطین کے خلاف متحد نہیں ہیں؟ جب وہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب تکفیریوں کے خلاف اتحاد نہیں بلکہ فلسطینی، لبنانی و کشمیری مقاومتی گروہوں کے خلاف اقدامات کی بات کرتے ہیں، اس طرح ان کا حریف کوئی اور نہیں بلکہ غیرت مند مسلمان و عرب ہی ہیں۔

بھارت، امریکا اور اسرائیل کی شیطانی مثلث تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ فطری اتحاد ہے۔ وہ زراعت سے زیادہ تعلیم و فوجی شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کے باوجود عالم اسلام و عرب کے حکمرانوں کی اکثریت دشمن کے لئے ریشم سے زیادہ نرم اور مسلمانوں کے لئے فولاد سے زیادہ سخت ہے۔ یہ خائن حکمران خود مسلمان ممالک پر حملہ آور ہیں۔ ان کی یہ پالیسی کسی طور امت اسلامی کے مفاد میں نہیں حالانکہ یہ اجنبیت و بیگانگی غیر فطری عمل ہے۔ اس صہیونی بھارتی اتحاد کی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے عالم اسلام کو ایک نئے اتحاد کی ضرورت ہے جس کی قیادت ایسی حکومت کے پاس ہو جو فلسطینیوں اور کشمیریوں کی عملی مدد کرتی ہو۔ ایران فلسطینیوں کا ہمدرد و خیر خواہ ہے جبکہ پاکستان کشمیریوں کامسئلہ دنیا میں پیش کرنے والا فعال ملک ہے، کیا یہ دونوں ملک ایسے اتحاد کے لئے آمادہ ہیں؟

بھارت اسرائیل تعلقات کے حوالے سے باتیں بہت ہیں لیکن یہ تحریر پہلے ہی طویل ہوچکی ہے۔ آخر میں پاکستان نے نامور سابق سفارتکار آغا ظفر ہلالی کی تازہ ترین رائے قارئین کی نذر کرتا ہوں جو بدھ 16 نومبر کو میرے ساتھ ایک نشست میں انہوں نے بیان کی کہ اب پاکستان اور ترکی او آئی سی میں قرارداد منظور کروائیں اور اپنے اپنے ممالک میں بھی یہ فیصلہ کریں کہ بھارتی سفیروں کو ملک بدر کردیں اور دنیا کے ہر ملک پر واضح کردیں کہ جو بھی فلسطین کی غاصب صہیونی ریاست یا کشمیر کی غاصب ریاست سے تعلقات بڑھائے گا، مسلم و عرب ممالک ان ملکوں سے تعلقات پر نظر ثانی کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ ترک صدر بہت مسلمانوں کے ہمدرد بنتے ہیں، اب وہ بھارت اسرائیل کے اس اتحاد کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدامات کریں، اگر امت اسلامی کی بہت فکر ہے تو صہیونی ریاست سے تعلقات منقطع کریں۔

پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار کی اس خواہش کا احترام اپنی جگہ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اردگان کے دورہ پاکستان اور صہیونی صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر اردگانی حکومت نے کمال عوقم کو جعلی ریاست اسرائیل میں ترکی کا سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ٹائمنگ دیکھیں تو صہیونی حکومت بھارت اور ترکی دونوں کی دوست ہے ، فیصلہ تو پاکستان نے کرنا ہے کہ فلسطین کے غاصبوں کے دوستوں سے کس حد تک تعلق رکھا جاسکتا ہے اور ان غاصبوں کے دوستوں سے دوستی کے بعد کشمیر کے غاصب کے خلاف مقدمہ کیسے لڑا جا سکتا ہے؟
https://taghribnews.com/vdcftyd0yw6dt0a.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ