تاریخ شائع کریں2017 23 August گھنٹہ 11:20
خبر کا کوڈ : 280703

قرآن شدت پسندی سے دور رکھتا ہے

علماء کے نظریات جہاں تک ساتھ دیں ہدایت کے چراغ ہیں کیونکہ جو تفسیر کرتا ہے اس میں ایک خاص روح ہوتی ہے
مفسر کے افکار بلند اور مایہ ناز بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ متقی پرہیزگار اور عالم ہو گا تو اپنے علم کی روشنی میں حقیقی مطالب تک پہنچ جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا شخص تفسیر کرے کہ جو نا تو مقدمات سے آگاہ ہے اور نا ہی باتقویٰ ہے تو پھر اس کا نتیجہ تعصب اور تنگ نظری ہوگا
قرآن شدت پسندی سے دور رکھتا ہے
عالم اسلام کے امور میں مقام معظم رہبری کے مشیر نے کہا ہے کہ "قرآن کی تعلیمات شدت پسندی کو قبول نہیں کرتی ہیں۔"
  
تقریب، خبررساں ایجنسی ﴿تنا﴾ کے مطابق، آیت محمد علی تسخیری نے آج صبح  جامعة مذاہب اسلامی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے سیمینار "دین ایران اور عالمی کلیسا" میں گفتگو کرتے ہوئے متون دینی کی تفسیر کے بارے میں کہا ہے کہ سید محمد باقر صدر نے تفسیر کو دو حصوں  تفسیر موضوعی اور تفسیر ترتیبی میں تقسیم کیا ہے، تفسیر ترتیبی میں ہوسکتا ہے کہ مصنف کا اپنا اثر نہ دیکھائے کیونکہ قرآن کا متن بطور محدود اور بغیر کسی طے شدہ نظیرے کے مطابق ہے لہذا اس بات کی فرصت نہیں ملتی کہ ان آیات کی تحقیق کی جائے لہذا اس میں مصنف قرآنی آیات کے معنٰی کو قرائن متصل و منفصل کے ذریعے سے واضح کرتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ، لیکن تفسیر موضوعی اپنی تفسیر کو اساس زندگی پر پرکھتی ہے اور اس میں زندگی سے متعلق اعتقادی، اجتماعی، جہان بینی، جیسے مطالب ہوتے ہیں اور اس میں زندگی گذارنے کے راہ حل بیان ہوتے ہیں اور ہم اپنے مختلف امور کو قرآن کے حوالے کرتے ہیں اور پھر قرآن کریم ہمیں اس کے راہ حل کو ان سوالوں کے جوابات بیان کرتا ہے، تفسیر موضوعی میں قرآن اپنے معنٰی کو پھیلاتا ہے اور بیان کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ، مفسروں کے تین گروہ ہیں، انبیاء علیہم السلام کہ جو قرآن کی یقینی اور قطعی تفسیرکرتے ہیں دوسرا گروہ اولیائے الہی کا ہے کہ حدیث ثقلین کی روشنی میں ان کی تفسیر بھی قطعی ہوتی ہے جبکہ تیسرا گروہ علماء کا ہے کہ جن کی تفسیر قطعی نہیں ہے  لیکن ایک توجہ ضرور ہے۔

انھوں نے تاکید کی کہ "ہمارے افکار دینی مطالب پر مبنی ہونے چاہیئں اور علماء کے نظریات جہاں تک ساتھ دیں ہدایت کے چراغ ہیں کیونکہ جو تفسیر کرتا ہے اس میں ایک خاص روح ہوتی ہے کہ جو خدا کے کلام سے رابطہ پیدا کرلیتی ہے۔

آیت اللہ تسخیری نے کہا کہ“ مفسر کے افکار بلند اور مایہ ناز بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ متقی پرہیزگار اور عالم ہو گا تو اپنے علم کی روشنی میں حقیقی مطالب تک پہنچ جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا شخص تفسیر کرے کہ جو نا تو  مقدمات سے آگاہ ہے اور نا ہی باتقویٰ ہے تو پھر اس کا نتیجہ تعصب اور تنگ نظری ہوگا اور ایسے شخص کو چراغ نہیں بناسکتے کیونکہ یہ شخص ایک معمولی فکر رکھنے والا فرد ہے اور قرآن اور اس کے آثار ایک امانت دینی ہے اور ایک امانتدار ہی اس کو نبھاسکتا ہے۔

 
https://taghribnews.com/vdcjyye8tuqeoaz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ