تاریخ شائع کریں2017 17 October گھنٹہ 01:05
خبر کا کوڈ : 289007

سادہ سا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو رہا کرو،ایم ڈبلیو ایم

سادہ سا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو رہا کرو،ایم ڈبلیو ایم
ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ مسنگ پرنسز کے حوالے سے چلائی گئی تحریک واضح ہے، اس میں پوری ملت شامل ہے، تمام نتظیمیں اور انجمنیں اس تحریک میں شامل ہیں، سادہ سا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو رہا کرو، اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کرو۔ دنیا میں کہیں ایسا قانون نہیں کہ آپ اپنے شہریوں کو لاپتہ کر دیں۔ چھ ماہ، ایک سال، تین سال اور حتٰی کچھ کو تو چھ سے سات سال ہوگئے ہیں۔
 
علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، انہوں نے بہت ہی کم عرصہ میں قیام کرکے پاکستان میں ملت تشیع کے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی اور کافی عرصہ سے ملت میں پائی جانیوالی عدم فعالیت اور سکوت کو توڑا۔ علامہ ناصر عباس جہاں ملت تشیع کو میدان عمل اور سڑکوں پر لیکر آئے، وہیں سیاسی حوالے سے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اسکے علاوہ شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے عملی کوششیں کر رہے ہیں۔ 

سوال: ایسا لگتا ہے کہ حکومت ریاستی اداروں سے ٹکراو چاہتی ہے، آپ کی نگاہ میں وزراء کی مسلسل براہ راست بیان بازی کیا ظاہر کر رہی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جی بالکل، اس وقت پاکستان میں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ موجودہ سیاسی حکومت اور اسکی لیڈر شپ کا اداروں کے ساتھ ٹکراو ہے، عدلیہ اور فوج کے ساتھ باقاعدہ ٹکراو شروع کر دیا ہے۔ نواز شریف کو چاہیے تھا کہ وہ قانونی راستہ اختیار کرتا، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ نااہلی کا فیصلہ دینے والے پانچوں ججز پنجابی ہیں، ان ججز نے انکو (شریف خاندان) گارڈ فادر تک کہا، شریف خاندان نے عدلیہ کو پریشر میں لانے کی کوشش کی اور جب جے آئی ٹی بنی تو دن رات اس کام پر لگا دیا، ان کو اپنے دفاع کیلئے بھرپور وقت ملا، ایک سال دیا گیا، یہ اپنا دفاع کرسکتے تھے لیکن نہیں کر پائے، کیونکہ جعلی چیزوں کا دفاع نہیں ہوتا، جب یہ حکومت میں آئے تھے، ان کے وسائل کم تھے اور اب پوری دنیا میں ان کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ ان لوگوں نے کرپشن نہ کی ہو، اب یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست ہی واحد راستہ ہے، جس سے زیادہ سے زیادہ کرپشن کرسکتے ہیں، کرپشن ان کے منہ کو لگ چکی ہے، لہٰذا اب ان لوگوں نے مقابلہ کرنا شروع کر دیا ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ اپنے نقصانات کو کم کرسکتے ہیں، جس کی وجہ سے ٹکراو شروع کر دیا گیا ہے، اب جس طرح دنیا اور پاکستان کے حالات جا رہے ہیں، پاکستان کو مشرقی اور مغربی بارڈر پر جو چیلجز ہیں اور جو تبدیلی افغانستان میں آ رہی ہے، اس کے ساتھ داعش آچکی ہے اور امریکہ کی حکمت عملی میں بھی تبدیلی آئی ہے، ان چاروں چیزوں کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کے اندر بڑے خطرات وجود میں آچکے ہیں۔

سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی کہے چکے ہیں کہ پاکستان کو بڑے خطرے لاحق ہیں، چنانچہ اس حالت میں اندرونی ٹکراو چلے گا تو یہ صورت حال زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی۔ پاکستان اس وقت اقتصادی بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے، جو عالمی قرضے لئے ہوئے ہیں، ان کو واپس کرنے کا وقت آ رہا ہے، حکومت کی معاشی پالیسی ناکام ہوچکی ہے، یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو ملک اور مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ اس صورتحال کا کوئی نہ کوئی حل نکلنا چاہیے اور میرے خیال میں اس وقت ملک میں جہموریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ان لوگوں کی گردن پر بیگناہوں کا خون ہے، یہ ماضی کی غلط پالیسیوں کا حصہ رہے ہیں، نواز شریف 1981ء سے ضیاء الحق کے ساتھ رہا ہے، یہ ضیائی پالیسی کا حصہ دار ہے، یہ ملک کی بربادی کا شروع سے حصہ رہے ہیں، اس لئے ساری برائیوں میں نواز شریف برابر کے شریک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے، لیکن یہ ٹکراو ملک کیلئے ٹھیک نہیں ہے، نواز شریف ایک کرپٹ آدمی ہے، لہٰذا جو نظر آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ چیزیں زیادہ عرصہ چلنے والی نہیں ہیں، عدلیہ کو فیصلہ کرنا ہوگا، ان کو اور کتنی چھوٹ دینی ہے، چھوٹ یعنی گالم گلوچ دینے کیلئے، گارڈ فادر کو شو آف پاور کرنے کیلئے۔ اگر انہیں نہ روکا گیا تو ملک مزید بحران کی طرف جائیگا۔ ان کی خواہش یہی ہے۔ اس لئے ان چیزوں کا جلدی فیصلہ کرنا ہوگا۔

سوال: اب تو امریکہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے کہ سی پیک ایک متنازعہ خطے سے گزر رہا ہے۔ اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: چین کا گودار تک جانا قابل برداشت نہیں ہے اور سی پیک پاکستان کو اقتصادی خطرات سے نکالے گا اور اس طرح پاکستان کی اہمیت اور بڑھ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس کو کنٹین رکھنا چاہتا ہے، ظاہر ہے کہ چین کو روکنے کیلئے خطے کو ڈسٹرپ رکھنا ہوگا، پاکستان، چین اور انڈیا تینوں ہمسائے ملک ہیں اور تینوں ایٹمی طاقتیں ہیں، امریکہ اس خطے میں دہشتگردی کے اڈے بنائے گا، آپ نے دیکھا کہ طالبان کے اپنے ملک کے علاوہ کوئی اہداف نہیں تھے اور وہ ملکوں کی بات نہیں کرتے تھے، وہ صرف افغانستان کی بات کرتے تھے، لیکن اب امریکہ داعش کو افغانستان میں لا رہا ہے، داعش خلافت کی بات کرتی ہے، پورے خطے کو ڈسٹرب کرنا چاہتے ہیں، داعش امریکنز کی بات کرتی ہے، امریکہ لاکھوں فوجی لایا، لیکن انہوں نے افغانستان میں کیا کیا۔؟ یہ سب کچھ چین کو روکنے کیلئے کیا جا رہا ہے، داعش کو امریکہ اور بھارت مدد کر رہا ہے۔ پورے خطے کو ڈسٹرب رکھنا ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

سوال: اس صورتحال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی گورنمنٹ چین، روس، ایران کو اعتماد میں لے اور افغانستان کو بتائے کہ آپ کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان، چین، روس، ایران اور ترکی اتحاد بنائیں اور افغانستان کو اس دلدل سے نکالیں، اس صورتحال میں ہی امریکہ افغانستان سے دفعہ ہوسکتا ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستان کو اس طرف جانا پڑے گا۔ اگر پاکستان چلا جائے تو 70 سال بعد حقیقی آزادی کی طرف بڑھے گا۔

سوال: آرمی چیف ڈی جی آئی ایس پی آر کو لیکر افغانستان گئے اور افغان قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ اس کاوش کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہ بہت اچھا ہوا ہے کہ افغانستان کو اعتماد میں لینا چاہیئے۔ پاکستان افغانستان کو باور کرائے کہ وہ پاکستان کی دشمنی میں دعش کو نہ آنے دے، اسی طرح شمالی اتحاد سے بات کرنی چاہیئے کہ وہ پاکستان دشمنی میں امریکہ کی طرف نہ جائے اور امریکی کاز کو کامیاب نہ ہونے دے۔ ورنہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والی بات ہو جائے گی۔

سوال: مسنگ پرنسز تحریک پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: مسنگ پرنسز کے حوالے سے چلائی گئی تحریک واضح ہے، اس میں پوری ملت شامل ہے، تمام نتظیمیں اور انجمنیں اس تحریک میں شامل ہیں، سادہ سا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو رہا کرو، اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کرو۔ دنیا میں کہیں ایسا قانون نہیں کہ آپ اپنے شہریوں کو لاپتہ کر دیں۔ چھ ماہ، ایک سال، تین سال اور حتٰی کچھ کو تو چھ سے سات سال ہوگئے ہیں، ڈیرہ کی ایک فیملی کے چھ افراد شہید ہیں، ان کا بھی ایک بندہ لاپتہ ہے، میں نے اس معاملے پر حکومتی سطح پر بات کی، حتٰی آرمی چیف سے ملاقات میں اس ایشو کو اٹھایا اور مجھے یقین دہانی کروائی گئی کہ جلد اس معاملے پر آپ کو خوشخبری ملے گی، اب تک چھ افراد کی رہائی ممکن ہوسکی، لیکن ابھی تک بہت سارے شیعہ افراد لاپتہ ہیں۔
باشکریہ: اسلام ٹائمز 
https://taghribnews.com/vdcfx1d0ew6dcxa.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ