تاریخ شائع کریں2024 7 April گھنٹہ 21:38
خبر کا کوڈ : 630956

ایران امریکہ دشمنی

ایران تو پینتالیس برس سے پابندیوں کا عادی ہے، انہی پابندیوں میں اس نے اپنی فوجی و دفاعی ترقی کے مینار کھڑے کیے، جس کے باعث امریکہ و اسرائیل کو اس پر ڈائریکٹ حملہ کی جرات کبھی نہیں ہوسکی۔
ایران امریکہ دشمنی
تحریر: ارشاد حسین ناصر
بشکریہ:اسلامی ٹائمز


ایران امریکہ دشمنی ایک ایسا موضوع ہے، جسے اس وقت بھی سوشل میڈیا کے بہت سے ذرائع پر بہت ہی عمومی انداز اور منفی پراپیگنڈا کے طور پر لیا جاتا ہے۔ خصوصی طور پر جب سے حماس نے اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے تو بہت سے نیٹ ورکس سے تسلسل سے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، اس میں وہ لوگ ملوث ہیں کہ جن کا اپنا کردار ہمیشہ امریکی و اسرائیلی مقاصد کی تکمیل اور ان کی آرزوئوں کو پورا کرنے کا باعث چلا آرہا ہے اور ان کے اقدامات حماس، فلسطینی مقاومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں اور کن مقاصد کے تحت پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ ایران اور ایران سے مربوط مقاومتی گروہوں کو تسلسل سے نشانہ بنایا ہوا ہے، ان کا تعلق کسی خاص جماعت، مکتب فکر یا ایران دشمن ممالک سے ہے؟ کیا یہ لوگ جہاد و ایثار گری اور اسلام کو عالم گیر مذہب کے طور پر نفاذ کیلئے ایسا کرتے ہیں یا پس پردہ کچھ اور ہے۔؟

حماس نے سات اکتوبر کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں گھس کر جو تاریخی کارروائی کی، اس کے بعد حماس کو جس ردعمل کا سامنا کرنا تھا، اس میں حماس و فلسطینیوں کو دنیا بھر میں مختلف فورمز پر مدد، تعاون اور نصرت کی ضرورت تھی، لہذا وہ تمام ممالک اور گروہ جن سے اس مدد کی توقع تھی، ان کی طرف سے شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، جیسے ترکیہ میں صدر اردوان کو فلسطینیوں کا مدد گار و اخوان کے رہنماء کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، جس سے حماس کے تانے بانے ملائے جاتے ہیں، مگر اردوان نے حماس کی کسی قسم کی مدد نہیں کی۔ اب تک کا ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے کہ ترکیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کا واضح ثبوت ترکیہ میں اپوزیشن جماعت کے رہنماوں نے صدر اردوان کو اس حوالے سے سخت سنائیں ہیں۔

اسی طرح فلسطین کیساتھ جن مسلم مالک بالخصوص مصر، اردن اور لبنان کی سرحدیں ملتی ہیں، ان کی طرف سے جو رویہ اختیار کیا گیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہاں البتہ لبنان سے حزب اللہ نے حماس کے ساتھ ساتھ لبنان کے مختلف سرحدی مقامات پر فرنٹ کھول رکھے ہیں، جو مسلسل اپنے جوانوں کو قربان کر رہے ہیں اور ممکنہ حد تک اسرائیل کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ ادھر شام جہاں اسرائیل کی جانب سے اس کی جولان کی پہاڑیوں پہ قبضہ چلا آرہا ہے، اس طرف سے شام میں موجود مقاومتی گروہوں نے بھی کئی ایک کارروائیاں کیں اور اسرائیل کو الجھانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ شام سے ہونے والی کوئی بھی کارروائی شامی حکومت سے زیادہ ایرانی سپاہ پاسداران کی کارروائی ہی متصور ہوگی۔

جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل نے شام میں جتنے بھی فضائی حملے کیے، ان میں شامی حکومتی اہلکاروں کو نہیں بلکہ شام میں موجود ایرانی مفادات کے نگران مراکز، ایرانی سپاہ پاسداران کے کمانڈرز اور حالیہ حملہ قونصلیٹ جس میں ایران کے اعلیٰ کمانڈرز جو شہید سلیمانی کے قریبی ساتھی تھے، انہیں نشانہ بنایا ہے، لہذا شام میں شام پر حملہ نہیں ہوتا، بلکہ شام میں ایران پر حملہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے اس سوال کی طرف آئیں کہ آخر ایران منفی پراپیگنڈہ کا شکار کیوں، تو اس کی واحد وجہ جمہوری اسلامی ایران کا مظلومین غزہ و فلسطین کی کھل کر حمایت، مدد اور اعلانیہ امداد ہے۔ یہ امداد مالی، طبی، اخلاقی سے بڑھ کے فوجی بھی ہے، جس کا کوئی اظہار نہیں کرتا کہ عالمی سطح پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔

ایران تو پینتالیس برس سے پابندیوں کا عادی ہے، انہی پابندیوں میں اس نے اپنی فوجی و دفاعی ترقی کے مینار کھڑے کیے، جس کے باعث امریکہ و اسرائیل کو اس پر ڈائریکٹ حملہ کی جرات کبھی نہیں ہوسکی، مگر امریکہ اپنے اتحادی ممالک کیساتھ مل کر اسرائیل کی مکمل سرپرستی کرتا آرہا ہے، اسرائیل کے ہر ناجائز اقدام کے پیچھے امریکہ ہی ہوتا ہے۔ ایک لمحہ کیلئے یہ تصور کر لیں کہ ایران امریکہ، ایران اسرائیل اندر سے ملے ہوئے ہیں تو پھر ہزاروں سوالوں کے جواب کون دے گا۔ بالخصوص جب سے انقلاب آیا ہے ایران مسلسل امریکی پابندیوں کا شکار رہا ہے، اس کی شخصیات پر سفری پابندیاں ہیں، اس کے بینکوں سے لین دین نہیں ہوسکتا، اس کے ساتھ تجارت کرنے والی کمپنیوں اور ممالک کو بھی پابندیوں کا شکار کیا جاتا ہے۔

اس کو کسی بھی قسم کا فوجی ساز و سامان دینے والے کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے، جبکہ اس کے مدمقابل ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دہشت گرد تنظیمیں جو کوئی مملکت نہیں رکھتیں، جن کی قیادتیں خفیہ ہیں، ان کے لڑاکوں کو جدید اسلحہ، بہترین یونیفارمز، تربیتی مراکز، ذرائع رسل و رسائل اور کھل کر اپنے دہشت گردانہ اقدامات اٹھانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس وقت بھی آپ دیکھیں کہ امریکہ شام میں کن پر حملے کر رہا ہے۔ شام میں ایران کی حمایت یافتہ مقاومتی بلاک کی قوت جنہوں نے شام کو داعش کے ہاتھوں سے چھینا اور اسرائیل و امریکہ کی بھاری انوسیٹمنٹ پر پانی پھر دیا۔ یہی تو آئے روز نشانہ بن رہے ہیں، جبکہ اسی شام میں ادلب اور دیگر بہت سے ایریاز میں تحریر الشام، جو القاعدہ کا ایک متبادل ہے اور اس سے وابستہ گروہ جن کا تعلق شیشان، ازبکستان، چین، افغانستان سے ہے، ان کے مراکز بھی چل رہے ہیں۔

ان کے پاس بھی جدید اسلحہ ہے، جنگجو ہیں، جو اپنے ممالک سے بڑی آسانی کیساتھ یہاں پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں جب ایران نے فلسطینیوں کی بھرپور مدد و سرپرستی کا بیرا اٹھا رکھا ہے، یہ لوگ آزاد ہیں، ایران و شامی حکومت کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اقدامات اٹھانے میں ان کو کوئی روک ٹوک نہیں۔ امریکہ و اسرائیل کو ان سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں، جبکہ داعش بھی اپنی تمام تر قوت کیساتھ ان علاقوں میں اپنے وجود کا اظہار کرتی آرہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہی داعش نے تحریر الشام کا ایک اہم کمانڈر بم دھماکے میں مارا ہے، گویا ان کے قبضہ کی باہمی لڑائی جاری ہے، مگر ایران، شام، حزب اللہ کے خلاف انکے اقدامات میں اشتراک بھی ہو جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ایک صیہونی کے مقابل ایک شیعہ کا قتل زیادہ اہم ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اسرائیل کو چھوڑ کر شامی حکومت، ایرانی مفادات، حزب اللہ، مقاومت عراق کیساتھ مسلسل الجھاو رکھتے ہیں۔ داعش، جیش العدل نامی گروہ نے انہی چھ مہینوں میں ایران میں داخلی طور پر بھی کئی ایک منصوبوں پر عمل کیا ہے، تاکہ ایران کو داخلی محاذ پر ہی مصروف رکھا جائے اور وہ اپنا عالمگیر کردارا ادا نہ کرسکے۔ سیستان و بلوچستان، کرمان اور ایران کے دیگر مقامات پر بعض تخریبی کارروائیاں دراصل اسرائیلی خفیہ تنظیم اور اس کے کارندوں کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایران و اسرائیل ملے ہوئے ہیں تو پھر اسرائیل کو ایسے اقدامات کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ اسی طرح شام میں تسلسل سے اسرائیلی فضائیہ نے ایرانی سپاہ پاسداران کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے، جو بطور فوجی مشیر شام میں موجود ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دہشت گرد گروہ اور ان کے سرپرست ممالک کو سخت مایوسی کا سامنا ہے، اس لیے کہ اہل فلسطین، حماس، جہاد اسلامی و دیگر اہم گروہ ہمیشہ ایران کا شکریہ ادا کرتے ہیں، ہر ایک اہم موقعہ پر فلسطینیوں کی جانب سے ایرانی قیادت و حکومت کا شکریہ ادا کیا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ حماس و جہاد اسلامی مسلسل ایرانی و مقاومتی قیادت سے رابطوں کے ذریعے مکمل رہنمائی لیتے ہیں، مشترک منصوبہ بندی اور باہمی اعتماد کرتے ہیں، یہ عمل تکفیری مائنڈ سیٹ اور اس کے سرپرست ممالک و اداروں کو قطعاً نہیں بھاتا، جس کے باعث ایران، حزب اللہ، یمنی انصاراللہ، مقاومت عرہ کے خلاف جھوٹ و افترا ء پر مبنی پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے، حد تو یہ ے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے، جو اپنے تئیں جہاد کی برکات کا نتیجہ ہے، مگر طالبان کے کسی ایک اہم رہنماء کی جانب سے ان چھ مہینوں میں کوئی خاص اقدام یا بیان بھی سامنے نہیں آیا۔

اسی طرح تحریر الشام جو القاعدہ کا نیا نام ہے، اس کی طرف سے بھی اہل فلسطین کی مدد و اسرائیل کے خلاف عملی جہاد کا اعلان کرنے کا اب تک انتظار ہے۔ ایران اور اس سے وابستہ جہادی تنظیموں کی جانب سے ان چھ مہینوں میں ایسے ایسے اقدامات و قربانیاں پیش کی گئی ہیں، جن سے اسرائیل کو شدید ترین نقصان اٹھانا پڑا ہے، بالخصوص یمنیوں کے جرات مندانہ اقدامات نے اسرائیل و امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اگر ایران و امریکہ و اسرائیل ملے ہوئے ہیں تو امریکہ و اسرائیل کے اقدامات، پابندیاں ایران کے خلاف کیوں ہیں۔ یہ اقدامات و پابندیاں تو ترکیہ، سعودیہ، امارات، قطر، اردن، مصر، بحرین کے خلاف ہونے چاہیئے تھے، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ لہذا اس متعصابہ سوچ کو حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہیئے، جو پینتالیس برس سے پابندیوں کے شکار مملکت کو اپنے منفی پراپیگنڈا کا شکار کرتے آرہے ہیں۔ اس پراپیگنڈا کے ذریعے ایران کو فتح کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، جو کبھی نہیں ہوگا۔
https://taghribnews.com/vdciwuaqqt1ap32.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ