تاریخ شائع کریں2021 4 June گھنٹہ 17:37
خبر کا کوڈ : 506645

افغانستان میں مترجم اپنی زندگیوں کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں

ایسے میں مغربی ممالک کے سفارت خانوں نے افغان مترجمین اور ان کے قریبی اہل خانہ کو ہزاروں ویزے جاری کردیے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کی درخواستیں کسی وضاحت کے بغیر مسترد بھی کر دی گئی ہیں۔
افغانستان میں مترجم اپنی زندگیوں کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں
ایک ایسے وقت جب امریکہ دو دہائیوں بعد افغانستان سے انخلا کے لیے معاملات سمیٹ رہا ہے یہاں غیر ملکی افواج کے لیے کام کرنے والے مترجم اپنی زندگیوں کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔

امریکہ اور نیٹو فورسز کے مکمل انخلا میں چند ہی ہفتے باقی ہیں۔ ایسے میں مغربی ممالک کے سفارت خانوں نے افغان مترجمین اور ان کے قریبی اہل خانہ کو ہزاروں ویزے جاری کردیے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کی درخواستیں کسی وضاحت کے بغیر مسترد بھی کر دی گئی ہیں۔

ایسے ہی افراد میں امید محمودی بھی شامل ہیں جو 2018 سے 2020 کے درمیان امریکی افواج سے وابستہ رہے اور ترجمانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔

 محمودی کا کہنا تھا ’جب اس ملک میں ایک امام مسجد کے اندر اور 10 سالہ بچی اپنے سکول میں محفوظ نہیں ہیں تو ہم یہاں کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟‘

امریکی فوج کے لیے کابل اور قندھار میں کام کے دوران معمول کے پولی گراف ٹیسٹ میں ناکام ہونے کے بعد ان کی ملازمت ختم ہو گئی اور اس کے بعد انہیں امریکی ویزا بھی نہیں دیا جا رہا۔

اگرچہ سائنسدانوں کے خیال میں اس بات کے بہت ہی کم ثبوت موجود ہیں کہ پولی گراف یا جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ قابل اعتماد طور پر درست ہوتے ہیں لیکن پھر بھی امریکہ انہیں استعمال کرتا ہے خاص طور پر حساس پوسٹس پر بھرتی کے لیے۔

خطرے سے گھرے ایسے افراد کے لیے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ غیرملکی افواج کی جانب سے برخاست کیے جانے والے ملازمین کے ویزا معاملات پر ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ طالبان ان سب کو مغربی ممالک کے ساتھی سمجھیں گے۔

جیسا کہ امید محمودی کا کہنا ہے کہ ’وہ (طالبان) ہمارا کھوج لگارہے ہیں۔ طالبان ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ وہ ہمیں ماریں گے اور ہمارے سر قلم کردیں گے۔‘

امریکی سفارت خانے میں لگ بھگ 10 سال کام کرنے والے عمر کو بھی یہی خوف ستائے جا رہا ہے کہ ملک میں رہنے کی صورت میں طالبان انہیں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہنے دیں گے۔

عمر بھی پولی گراف ٹیسٹ میں ناکام ہونے کے بعد امریکی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اپنا پورا نام استعمال نہ کرنے کے وعدے کے بعد عمر نے بتایا: ’مجھے امریکہ کے لیے کام کرنے پر افسوس ہے۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔‘

عسکریت پسندوں نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران درجنوں ترجمانوں کو ہلاک اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس کے علاوہ انہیں اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جیسا کہ عمر نے کہا: ’میرے اپنے چچا اور کزنز مجھے امریکہ کا ایجنٹ کہتے ہیں۔‘

ایک اور سابق ترجمہ کار 32 سالہ وحید اللہ حنیفی نے کہا کہ فرانسیسی عہدیداروں نے ان کی سیاسی پناہ درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردی ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہے۔ اس کے علاوہ ان کی 2019 میں دائر اپیل کا فیصلہ بھی نہیں کیا گیا۔

انہوں نے 2010 اور 2012 کے درمیان اس وقت فرانسیسی فوج کے ساتھ کام کیا تھا جب پیرس اپنے فوجی دستے افغانستان سے نکال رہا تھا۔

وحید اللہ جو دو بچوں کے والد ہیں، نے مزید کہا: ’ہم افغانستان میں فرانسیسی فوجیوں کی آواز تھے اور اب انہوں نے ہمیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگر میں اس ملک میں رہوں تو میرے لیے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ فرانسیسی فوج نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے۔‘

دوسری جانب ان لوگوں کے لیے جو افغانستان سے نکل چکے ہیں، پیچھے رہ جانے والے اپنے پیاروں کی زندگیوں کے لیے پریشان ہیں۔

برطانوی افواج کے ترجمان رہنے والے 29 سالہ جمال کو 2015 میں برطانیہ میں رہائش کی اجازت ملنے سے قبل افغانستان میں دو بار گولیوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

کوونٹری میں مقیم جمال کا خاندان خطرات سے گھرا رہا اور برطانوی وزارت دفاع نے صرف ان کی اہلیہ کو چھ سال بعد برطانیہ میں رہائش کی اجازت دی جب کہ ان کے والد، جو برطانوی فوجی اڈے پر بطور گراؤنڈ کیپر کام کرتے تھے، اب بھی افغان شہر لشکرگاہ میں موجود ہیں جہاں حالیہ مہینوں میں طالبان اور سرکاری فوج کے مابین شدید لڑائی کا مرکز رہا۔

جمال کا کہنا تھا ’جب آپ برطانوی فوج کے لیے کام کرتے ہیں، جب آپ برطانوی فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کو ان سے بھلائی کی توقع بھی ہوتی ہے۔‘
 
https://taghribnews.com/vdcfjvdttw6dxva.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ