تاریخ شائع کریں2020 9 August گھنٹہ 17:12
خبر کا کوڈ : 472033

دنیا کے پہلے ایٹم بم کا نشانہ بننے والا شہر "ہیروشیما"

’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ یہ دنیا کا واحد میوزیم ہے، جس کو کبھی بھی، کہیں بھی، دوبارہ کسی بھی ملک میں، کبھی نہیں بننا چاہیے۔
دنیا کے پہلے ایٹم بم کا نشانہ بننے والا شہر "ہیروشیما"
دوسری جنگِ عظیم میں ہیروشیما پر یہ دھماکہ کیوں کیا گیا، کیسے ہوا، پھر یکے بعد دیگرے ایک اور ایسا ہی ایٹمی دھماکا جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی میں ہوا، وہاں بھی لاکھوں افراد کی جان گئی۔ اس سانحہ کو 75 برس گزر چکے ہیں، لیکن اذیت کا کرب تاحال برقرار ہے۔

آج ہیروشیما اس راکھ کے ڈھیر سے نمودار ہوکر ایک نئے اور ترقی یافتہ شہر میں تبدیل ہوچکا ہے، جب اس کے اسٹیشن پر بلٹ ٹرین آکر رکتی ہے اور آپ اس میں سے اتر کر شہر میں داخل ہوتے ہیں تو یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کا نشانہ بننے والا شہر ہے۔

یہاں آج بھی لوگ اسی طرح اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں، سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں، چائے خانوں میں خوش گپیوں کے دور جاری ہیں، لیکن اس شہر میں، اس قیامت کے گزر جانے کی یادگار کے طور پر ’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ کی عمارت ایسی ہے،

اس شہر کے مختلف میئرز نے احتجاجی خط لکھے اور پوری دنیا سے اپیل کی، جن ممالک نے ایٹم بم بنا لیے، ان سب ملکوں کو ایٹمی قوت بننے اور اس کے استعمال کے ارادے سے باز رکھنے کی درخواست کی۔ حوالے کے طور پر ہیروشیما کے معصوم بچوں کے جلے ہوئے کپڑے، بدن سے پھسلتی ہوئی انسانی کھال، چہرے پر آنکھوں کی جگہ صرف سوراخ، لاکھوں لوگوں کے پگھلے ہوئے لاشے اور درد کی مجسم تصویر بننے والے ’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ کو دیکھنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس ایٹمی خبط کی ہولناک تباہی سے عبرت حاصل کریں اور بعض رہیں۔ یہ دنیا کا واحد میوزیم ہے، جس کو کبھی بھی، کہیں بھی، دوبارہ کسی بھی ملک میں، کبھی نہیں بننا چاہیے۔

عام جاپانیوں کی اکثریت کا بھی یہ خیال ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہ اگر اس جنگ میں ہتھیار نہ ڈالتے، تو مزید جانی نقصان ہوتا اور اگر ان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو شاید جواب میں استعمال کرتے، لیکن اب جنگ ختم ہوچکی، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ سب نفرتیں بھلا کر امن کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔

یہ جنگ نہ تھمتی تو مزید خون کی ندیاں بہتیں، کمال یہ ہے کہ اسی ایٹمی راکھ سے جدید جاپان نے جنم لیا۔ وہ جاپان جو دنیا کی نمبر وَن معیشت ہے، جس کا پاسپورٹ رواں سال کے ایک جائزے کے مطابق، دنیا کا سب سے محفوظ اور قیمتی پاسپورٹ ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، ثقافت و ادب اور دیگر شعبوں میں نوبیل انعامات سمیٹتا ہوا یہ ملک، جہاں آج بھی، پرائمری اور ہائی کلاس کے بچوں کو ’ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ کا دورہ کرایا جاتا ہے، تاکہ وہ جدید دنیا کا شعور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ اور قومی سانحہ سے واقف ہوسکیں۔
پرائمری اور ہائی کلاس کے بچوں کو میوزیم کا دورہ کرایا جاتا ہے تاکہ وہ جدید دنیا کا شعور حاصل کرنے کے ساتھ اپنی تاریخ اور قومی سانحہ سے واقف ہوسکیں
‘ہیروشیما میموریل پیس میوزیم’ میں ایک طرف تصاویر کے ذریعے ایٹم بم کے حملے سے پہلے شہر کے مناظر اور پھر بعد کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ جیسے ایک بینک کے باہر، بینک کھلنے کے انتظار میں بیٹھا شخص اس بم دھماکے بعد دھواں بن کر اڑ گیا، بینک کے دروازے کے سامنے پتھر پر بیٹھے ہوئے اس شخص کی صرف شبیہ باقی رہ گئی، وہ پتھر بھی اس میوزیم میں موجود ہے۔ اسکول کے بچوں کے پھٹے ہوئے یونیفارم اور دیگر اشیا، لاتعداد تصاویر بھی دل کو لرزا دیتی ہیں۔
اس قیامت کی گواہی دینے والوں کے لہجے درد سے لرزتے ہیں۔ اس میوزیم میں ایٹم بم سے ٹوٹنے والی قیامت کے مناظر آج بھی رُکے ہوئے ہیں۔ پاکستان و بھارت سمیت دیگر ایٹمی قوتوں کے حامل ممالک کے سربراہان کو لکھے ہوئے خطوط بھی میوزیم میں آویزاں ہیں۔
دنیا کی چند منتخب زبانوں میں میوزیم کے بارے میں جانا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اردو زبان بھی ان چند زبانوں میں شامل ہے، جس کی وجہ وہ جاپانی دوست ہیں، جو پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور جاپان میں اردو زبان کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کی کوششوں سے یہ ممکن ہوسکا کہ اردو بھی میوزیم میں شامل چند زبانوں میں سے ایک ہے۔
دنیا کی چند منتخب زبانوں میں میوزیم کے بارے میں جانا جاسکتا ہے اور اردو زبان بھی ان چند زبانوں میں شامل ہے
یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر جتنا لکھا، پڑھا اور بولا جائے کم ہے۔ ایک تشنگی اور خلا ہے، جس کا اظہار پوری طرح کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے جاپان کے ایک ادیب ’ماسوجی ایبوسے’ کے ناول ’کالی بارش’ کو پڑھیں تو اس سانحہ سے قبل اور بعد کے مناظر کو تفصیلی طور پر جاننے کا موقع ملتا ہے۔
اس ناول کا اردو ترجمہ پاکستان میں معروف مترجم اجمل کمال نے کیا اور مشعل بکس نے شائع کیا۔ اس ناول سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے، جو اس قیامت کی جامع تصویر پیش کرتا ہے۔ جاپانی ادیب نے اس ناول کو لکھنے کے لیے ایک متاثرہ بزرگ شخص کی روز لکھی جانے والی ڈائری سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے متن حقیقت سے قریب تر اور فکشن سے دُور ہے۔ اقتباس پڑھیے۔ ایٹم بم دھماکے کے فوری بعد کا ایک منظر ہے کہ
‘ایک بار یاسوکو نے کسی چیز سے ٹھوکر کھائی اور مجھے پکارتی ہوئی آگے کو گر پڑی۔ جب دھواں چھٹا تو ہمیں پتہ چلا کہ اس کے پیروں سے ٹکرانے والی چیز ایک عورت کی لاش تھی، جس کے بازوؤں میں ایک مردہ بچہ تھا۔ اس کے بعد سے میں آگے آگے چلنے لگا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا کہ کہیں کوئی سیاہ چیز تو راستے میں نہیں آرہی۔ اس کے باوجود کئی بار ہم لاشوں سے ٹھوکر کھا کر گرے۔ ہوا کا زور رفتہ رفتہ تھم گیا اور دھواں بھی ساکت ہوگیا، جس سے سانس لینا زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا گیا۔ شاید میری بے وقوفی تھی کہ میں اپنی بیوی اور بھتیجی کو لے کر اس حدّت میں نکل آیا۔ مجھے اس کا پورا یقین نہیں تھا کہ ہم زندہ وہاں سے نکل سکیں گے۔‘
https://taghribnews.com/vdcipra5pt1ayu2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ