تاریخ شائع کریں2020 30 May گھنٹہ 14:07
خبر کا کوڈ : 464274

انہدام جنت البقیع سے بے گناہوں کے خون کی ہولی تک

١٢١٧ھ؁ میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیا تو چھوٹے، بڑے، سردار و مزدور سب کوقتل کر ڈالا ،بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پاسکا ، یہاں تک مائوں کی آغوش میں ان کے شیرخواربچوں کے سرتن سے جداکردیئے
انہدام جنت البقیع سے بے گناہوں کے خون کی ہولی تک
تحریر: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی
دنیا بھر میں موجود حریت پسند ہر سال  جنت البقیع کے انہدام کے جانگداز المیہ پر اس دن کی یاد میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں مختلف پروگرامز اور احتجاجی جلسوں میں شریک ہو کر اپنا احتجاج درج کراتے ہیں  گرچہ کرونا کی وبا کے پیش نظر اس بار یہ احتجاج نہ سڑکوں پر ہو سکتا ہے نہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہم کسی اجتماع کا حصہ بن سکتے ہیں  لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ انہدام جنت البقیع کے خلاف  احتجاج نہ ہو  ، احتجاج اس بار بھی ہوگا لیکن اسکا انداز بدل جائے گا  تمام تر حریت پسندوں کی کوشش ہوگی مذہب و مسلک سے ماوراء ہو کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس بار بھی پرزور طریقے سے اپنی بات کو دنیا تک پہنچا سکیں  اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے اپنے  بیدار ضمیر ہونے کی گواہی دیں ،ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس بار احتجاج کا پلیٹ فارم بدل جائے گا اور زیادہ تر احتجاج  کا حصہ ا س مجازی فضا میں ہوگا   جو اس وقت اتنی پر اثر ہے کہ حقیقی پلیٹ فارم  سے زیادہ  لوگ مجازی پلیٹ فارم  یعنی سوشل میڈیا ، ویب ،اور مجازی ذرائع ابلاغ پر متحرک نظر آتے ہیں ۔
احتجاج کیوں ؟
ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں سوال ہو آخر ہر سال اس احتجاج کی ضرورت  کیا ہے اور اس سے کیا فائدہ ہے تو ایسے لوگوں کو اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ  فرض کریں کسی کی پشتینی  ایسی زمین پر کوئی قبضہ کر لے جس سے خاندانی یادیں وابستہ ہوں خاندان کی کوئی نشانی ہو   اور ایسی زمین پر قائم عمارت کو منہد م کر دیا جائے تو انسان کا رد عمل کیا ہوگا ؟ کیا وہ چیخ چلا کر خاموش بیٹھ جائے گا یا پھر جب تک دوبارہ اسکی زمین اسے نہیں مل جاتی دوبارہ عمارت کی تعمیر نہیں ہو جاتی تب تک وہ احتجاج کرتا رہے گا ؟ کیا کسی کا حق مار لینےوالے بدکرادار و شاطر انسان کے سامنے یہ سوچ کر انسان خاموش بیٹھ جائے تو بہتر ہے کہ اب جو جانا تھا چلا گیا ا ب ہاتھ پیر مارنے سے کیا فائدہ یا پھر جب تک جان میں جان ہے انسان کو اپنے حق کے حصول کے لئے کوشش کرنا چاہیے ؟
یقینا انسان کا ضمیر بیدار ہے تو وہ یہی کہے گا اگر ناحق کسی جگہ پر قبضہ کیا گیا ہے اگر ناحق کی عمارت کو ڈھایا گیا ہے اگر ناحق کسی یادگار کو مٹایا گیا ہے تو انسانی ضمیر کی آواز یہی ہے کہ جب تک  اسکی بھرپائی نہ ہو جب تک حق نہ ملے تب تک احتجاج ہونا چاہیے ۔


۸ شوال کو کیا ہوا ؟
 ۸ شوال کی تاریخ اس دردناک واقعہ کی یاد کو تازہ کرتی ہے جب ۹۰ سال زیادہ عرصہ ہونے آیا وہابیت و تکفیریت نے اس تاریخی قبرستان کو منہدم کر کے آنے والے کل کے لئے اپنے خون خرابے کی سیاست کا اعلان کر دیا تھا۔
یوں تو ایک صدی ہونے آئی لیکن جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم کر دینے کا غم آج بھی تازہ ہے وہ قبرستان جس میں رسول رحمت کی بیٹی شہزادی کونین (بروایتے)[1] اور ان کے ان فرزندوں کے مزارات مقدسہ تھے[2] جنہوں نے بشریت کو علمی ارتقاء و تکامل کا وہ وسیع و عظیم افق عطا کیا جس پر پہنچ کر آج انسان ان کے شاگردوں کے سامنے جھکا نظر آ رہا ہے کہ قال الباقر و قال الصادق کے موجزن علم کے ٹھاٹھے مارتے سمندر کے کچھ قطرے جابر ابن حیان و ہشام ابن الحکم نے بشریت کے حلقوم تشنہ میں ٹپکا دئیے تھے ۔
کتنے عجیب خشک فکر اور کوڑھ مغز لوگ تھے جنہوں نے ان عظیم شخصیتوں کے مزارات مقدسہ کو زمیں بوس کر دیا جن سے کسی ایک مسلک و مذہب نے نہیں بلکہ بشریت نے استفادہ کیا اور آج تک کر رہی ہے ۔
بقیع محض ایک قبرستان نہ تھا 
بقیع محض ایک قبرستان نہیں تھا جو ویران ہوا بلکہ ایک تاریخی دستاویز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر کے کچھ لوگوں نے اپنی نابودی کی سطریں رقم کی تھیں اور آج مذہبی و تکفیریت کے جنون میں بے گناہوں کو مار کر بہشت میں جانے کی آرزو اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے وہابیت و تکفیریت نے یہ چند مزارات مقدسہ کو مسمار نہیں کیا تھا انسانیت و شرافت کے تاج کو اپنے پیروں تلے روند کر دنیا کو بتلایا تھا کہ پہچانو ہم کون ہیں؟ ہمارا تعلق کس فکر سے ہے؟

جسطرح شیطان ہونے کے باوجود رحمان کے سامنے نابودہے ویسے ہی یہ تکفیریت و وہابیت کے پتلے تعلیمات اھلبیت اطہار علیھم السلام اور بی بی زہرا سلام اللہ علیھا کے دئے گئے دربار ِ خلافت میں تاریخی خطبہ کے سامنے نابود و نابود ہیں انکا وجود ویسے ہی ہے جیسے شیطان کا یہ ہر اس جگہ گرجتے ملیں گے جہاں شیطان گرجتا ہے  جہاں ہواو ہوس کے میلے ہو جہاں خواہشات نفسانی  کے سجے بازار ہوں جبکہ یہ ہر اس جگہ سے بھاگتے ملیں گے جہاں شیطان بھاگتا ہے  جہاں عبودیت کی بات ہو یہ جہاں توحید کی بات ہوگی جہاں سجدوں کی پاسداری کی بات ہوگی مشرکین سے برات کے اظہار کی بات ہوگی وہاں یہ  دم دبائے بھاگتے نظر آئیں گے لیکن جہاں مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہوگی ، معصوم بچوں پر بارود کی بارش کی بات ہوگی، نہتے لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بات ہوگی انکے قدموں کے نشان نظر آئیں گے ۔

یقین نہ آئے تو دیکھیں شیطان کہاں ہنس اور گرج رہا ہے؟ کہیں یمنیوں کے سروں پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر، کہیں انسانوں کی کھوپڑیوں سے فوٹبال کھیلتے ہوئے ،کہیں عراق کی زمیں کو لہو لہو کر کے کہیں شام کو ویرانے میں بدل کر کہیں نائجیریا میں انصاف وعدالت کا گلا گھونٹ کر کہیں سعودی عرب میں شیخ النمر کا سر قلم کر کے کہیں پاکستان و افغانستان کی زمینوں کو خون سے سیراب کر کے ، کہیں معصوم پھولوں کو مسل کر  کہیں ننھی کلیوں کو کچل کر کہیں دھماکوں کے درمیان کہیں شعلوں کے درمیاں کہیں لاش کے بکھرے ٹکڑوں کے درمیان تو کہیں کٹے ہوئے سروں کی نمائش کے درمیان کہیں مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے تو کہیں امام بارگاہوں میں خوںچکا ہاتھوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے حال ہی میں افغانستان  میں بچوں کے ایک ہاسپٹل پر جو حملہ ہوا اسے آپ کیا نام دیں گے کیا وہ لوگ انسان تھے جنہوں نے معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا یا وہ شیطان کے چیلے تھے جو مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل کر رہے ہیں انسانیت شرمسار تھی اور شیطان کے قہقوں کو  صاف سنا جا سکتا تھا ۔ یقینا جب کبھی بھی اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں کلاشنکوف و مشین گنوں سے جب بھی موت برستی ہے تو  شیطان ڈگڈگی بجا کر اپنے چیلوں کو داد تحسین دیتا نظر آتا ہے اسکے اس کے قہقہہ بڑھتے ہیں اس کی ٹولیاں آباد ہوتی ہیں کہیں یہ  داعش کا ہاتھ تھامے نظر آتا ہے  کہیں النصرہ کا کہیں القاعدہ و طالبان تو کہیں بوکو حرام و الاحرار و جند اللہ سب کی آوازیں ایک جیسی سب کے رنگ ایک جیسے سب کا انداز ایک جیسا یہ عصبیت کے پتلے یہ نفرتوں کی آگ میں دہکتے آتشیں گولے یہ عدم تحمل و برداشت کے دھویں میں کالے کالے سیاہ سایے شیطان کے کارندے یہ ابلیس کے ہم جولی نہیں تو کون ہیں؟ جنہوں نے انسانیت پر وہ ظلم ڈھایا کہ بس… وہ ستم ڈھائے کہ الامآں …یہ جدھر نکلے آگ اور دہشت کا ماحول لیکر نکلے جدھر پہنچے حیوانیت کا بھانگڑا کرتے پہنچے درندگی کا ناچ ناچتے پہنچے ۔
وہابیت کی جانب سے قتل و غارتگری امت مصطفے کی غفلت کا نتیجہ 
شک نہیں کہ  اگر امت مصطفی  صلی  اللہ علیہ وا آلہ وسلم اگر بیدار ہوتی تو کبھی یہ لوگ  دنیا میں اتنی ناامنی نہیں پیدا کر سکتے تھے ،اگر بقیع کی ویرانی پر ساری امت محمدی ایک ساتھ کھڑی ہو گئی ہوتی تو اسلامی تعلیمات کو تار تار کرنے کی ہمت اس ٹولے میں نہ ہوتی جس کے رسول رحمت بہت پہلے پیشین گوئی کر گئے تھے : چنانچہ اہل سنت کی معتبر کتب کے اندر پیغمبر ۖ سے ایسی روایات نقل کی گئی ہیں جن میں آنحضرت ۖنے وھابی فرقہ کے ظاہر ہونے کی طرف اشارہ فرمایا تھا  :جیسا کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیاگیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :"آنحضرت ۖنے فرمایا : اے اللہ !ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت ۖنے پھر فرمایا: اے اللہ!ہمیں ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا خیال ہے کہ آنحضرت ۖنے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ایجاد ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا"[3] اہل سنت کے بہت بڑے عالم" عینی  "جنہوں  نے صحیح بخاری کی شرح لکھی  ہے اس حدیث کے ذیل میں کہتے ہیں : شیطان کی شاخ سے مراد اس کا گروہ اورٹولہ ہے[4]اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کے واسطے سے پیغمبر ۖ کا فرمان نقل کیا ہے کہ آپ ۖنے فرمایا:مشرق سے کچھ لوگ خروج کریں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نہ اترے گا، یہ لوگ دین سے اسی طرح خارج ہوجائیں گے جس طرح تیر کمان سے خارج ہوتا ہے اور پھر دین کی طرف پلٹ کرنہ آئیں گے جس طرح تیر پلٹ کر نہیں آتا۔عرض کیاگیا: ان کی نشانی کیا ہوگی؟ فرمایا: وہ اپنے سر کے بال صاف کرتے ہوں گے۔
زینی دحلان سابق مفتی مکہ مکرمہ اس حدیث کی طرف اشارہ کرنے کے ضمن میں لکھتے ہیں :پیغمبر اکرم ۖ کے فرمان میں اس گروہ کی آشکار ترین نشانی (سرمنڈوانا) ہے اوریہ فرقہ وھابیت کی طرف واضح اشارہ ہے ، اس لئے کہ یہی وہ تنہا فرقہ ہے جو اپنے پیروکا روں کو سرمنڈوانے کا حکم دیتا ہے اوریہ صفت وہابیوں سے پہلے خوارج یا بدعت گزار فرقوں میں سے کسی ایک کے اندر نہیں دیکھی گئی ہے [5]۔
مزید مفتی  سید عبدالرحمن اہدل  سے نقل کرتے ہوئے وہ صاف طور پر کہتے ہیں : زبید کے خطے کے مفتی  سید عبدالرحمن اہدل کہا کرتے کہ وہابیوں کے عقائد کو رد کرنے کے لئے کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہی حدیث پیغمبر ۖ جس میں اس فرقہ کی پہچان (سرمنڈوانا )بیان کی گئی ہے ان کے عقید ہ کے باطل ہونے پر کافی ہے اس لئے کہ وہابیوں کے سواکسی بھی بدعت گزار فرقے میں یہ صفت نہیں پائی جاتی[6] کیا افسوس کا مقام نہیں ہے اتنی واضح علامتوں کے باوجود جسے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بیان کیا اور علماء اہلسنت نے اسکی تطبیق بھی وہابیت پر دی  اسکے باوجود کسی نے اس فرقے پر لگام کسنے کی کوشش نہ کی بلکہ سعودی ریالوں کی جھنکاروں میں قلم چلے تو اس فرقے کی حمایت میں زبان کھلی تو اس فرقے کو سچا اسلامی پیرو ثابت کرنے کے سلسلہ سے جسکا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ، کہیں ویران بقیع کی صورت کہیں دہشت و خوف کے مہیب سایوں کی صورت، کہیں اسکول کے معصوم بچوں کی فریادوں کی صورت کہیں ، بچوں کے ہاسپٹل میں مجبور ماوں کی چیخوں کی صورت ۔

کسی زمانہ میں کہیں پڑھا تھا شاید کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں لکھا تھا ’’زر اگر دنیا میں اپنے ایک گال پر خون کا دھبہ لے کر آتا ہے تو سرمایہ، سامراجیت کی شکل میں سر سے پیر تک، اپنے ہر ایک مسام سے خون ٹپکاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے۔‘‘ بات صحیح ہے سامراجیت کی پوری تاریخ جارحیت، دوسرے ممالک پر قبضوں اور تسلط، لوٹ مار اور قتل عام سے عبارت ہے لیکن آج مطلع کارزار بدلا ہوا ہے سامراج اپنے مہروں کو قتل و غارت گری کا ننگا ناچ نچوانے کے لئے جو کچھ ان کی ضرورت ہے اسے پورا بھی کر رہا ہے اور پھر گول میز کانفرنسوں میں دنیا میں امن و امان کی باتیں بھی ۔آج سرمایہ داری کا مکھوٹا ضرور دنیا کی سپر پاور نے پہنا ہوا ہے لیکن حقیقت میں سرمایہ دارانہ نظام نے  جان بوجھ کرشریعہ کے  نظام  کا مکھوٹا لگا کر شاہنشاہی کی صورت سعودی عرب کے حوالہ کیا ہوا ہے جس کی تاریخ ہی خون خرابے سے عبارت ہے وہ آج حرم امن الہی کا رکھوالا ہے جسنے اپنی بے بضاعتی سے مسجد النبی و بیت اللہ کو کشتوں سے پاٹ پاٹ دیا ہے ۔جس نے قرآنی تعلیمات کا گلا گھوٹنے میں کبھی دقیقہ فروگزار نہ کیا و ہ قرآن ساری دنیا میں بانٹ کر وحی الہی کا دنیا میں نشر کرنے والا بن رہا ہے ۔

اگر بقول مارکس پیسہ نوع بشر کے ایک گال پر خون کا دھبہ اور سرمایہ اس کے مساموں سے ٹپکتا لہو ہے تو آج کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جو نہ کر سکا وہ آج سعودی ریالوں کی جھنکار کر رہی ہے اور تکفیریت و وہابیت سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اپنے پورے تاریخی ظلم کے تجربات کے سایہ میں انسانیت کے سینہ پر بیٹھی اس گا گلا ریت رہی ہے اور اس کی پور پور سے خون ٹپک رہا ہے اور کوئی اس کے خلاف بولے تو کیا بولے ؟ ۔

حقوق بشر و انسانیت کے نعروں کو بلند کرنے والی تنظیمیں اس کے خونی ناچ کے ساتھ خود بھی شیطان کے ہمراہ  ڈگڈگی بجا بجا کر محظوظ ہو رہی ہیں کہ کل تو امیر شام کا باپ اذان سے محمد رسول اللہ کا نام نہ نکال سکا لیکن آج ہماری ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ ڈگ اور تکفیریت کے ننگے ناچ میں ضرور محمد رسول اللہ کا نام دہشت و ویرانی کا ترجماں بن جائگا جو نعرہ اللہ اکبر جو نعرہ محمد رسول اللہ جانوں کی حفاظت کے لئے بلند ہوتا تھا وہ جب جانوں کو لینے کے لئیے بلند ہوگا تو کوئی خوش ہو نہ ہو امیر شام کے باپ کی تمنا ضرور مچل مچل کر اعلٰ ھبل و اعلا ھبل کے نعرہ لگا رہی ہوگی۔

ایسے میں ضروری ہے کہ ہم دنیا کو پہچنوائیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور انسانیت کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟ان کے سیاہ کارنامے تو دیکھیں جو عالمی استکبار و سامراج کی پشت پناہی میں اس تکفیری ٹولے نے انجام دئیے بقیع تو محض ایک قبرستان تھا جس سے مسلمانوں کی قلبی وابستگی تھی جو انسانی عظمتوں کے محافظ عظیم خاکی پیکر میں ڈھلے انوار الہیہ کی پاکیزہ تربتوں کو اپنے دل میں سموئے تھا ، انہوں نے محض اسے ہی مسمار نہیں کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اور بھی تاریخی و ثقافتی یادگاروں کو تباہ و برباد کیا حتی اسلام کا مرکز جانے والے شہر مدینہ تک کو نہیں بخشا چنانچہ تاریخ بتاتی ہے وہابیوں نے مکہ مکرمہ پرقبضہ کے بعد مدینہ منورہ کارخ کیا ، شہرکامحاصرہ کیا اور مدافعینِ شہر سے جنگ کے بعد اس پرقبضہ کرلیا ، جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبور اوراسی طرح باقی قبروں جیسے قبر ابراھیم فرزندپیغمبر ۖ ، ازواج آنحضرت کی قبور ، قبرحضرت ام البنین مادرحضرت عباس ، قبہ جناب عبداللہ والد گرامی رسول خدا ۖ، قبہ اسماعیل بن جعفرصادق علیہ السلام اور تمام اصحاب وتابعین کی تمام کے تمام قبور کو مسمار کر دیا اور اس فولادی ضریح کو بھی اکھاڑ دیا جسے اصفہان سے خاص طور پر بنا کر مدینہ لایا گیا تھا اور جسے امام مجتبی علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر و صادق علیھما السلام کی قبور مطہر پر نصب کیا گیا تھا ان لوگوں نے نہ صرف اس ضریح کو وہاں سے اکھاڑا بلکہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس اور فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی امیر المومنین علیہ السلام کو بھی ویران کر دیا جو ائمہ اربعہ علیھم السلام کے ساتھ ایک ہی قبے میں تھی[7] ۔

اسی طرح مدینہ منورہ میں امام حسن اورامام حسین علیہماالسلام کے محل ولادت ، شہدائے بدرکی قبور نیز حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا وہ گھر بھی انہوں نے مسمار کر دیا جسے آپ نے حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے لئیے مدینہ میں بنایا تھا [8]۔

بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہابیوں نے محض شیعہ آبادی کے علاقوں کو ہی تاراج کیا جب کہ حجاز اور شام میں ان کے کارناموں کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ کہ اہل سنت آبادی کے علاقے بھی ان کے حملات سے محفوظ نہ رہ سکے ۔

زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں 

١٢١٧ھ؁ میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیا تو چھوٹے، بڑے، سردار و مزدور سب کوقتل کر ڈالا ،بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پاسکا ، یہاں تک مائوں کی آغوش میں ان کے شیرخواربچوں کے سرتن سے جداکردیئے ، لوگوں کامال لوٹا اورعورتوں کوقیدی بنالیا[9] … انکی داستان ظلم رقم کرنے کے لئے کتابیں درکار ہیں ،کل انہوں نے مدینہ وحجاز و طائف نہیں چھوڑا آج یمن کو نابود کر دینے کے درپے ہیں ایسے میں جنت البقیع کے انہدام کے سلسلہ سے ہونے والے پروگراموں میں انکی جارحیت و ظلم سے پردہ اٹھانا ہمارا دینی ہی نہیں انسانی فریضہ ہے ،وہ دن دور نہیں جب عالمی سامراج و اسکتبار کے شانہ بشانہ ان ظالموں کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی :
[1]  ۔اختلفت الروايات في موضع قبر فاطمة سيدة نساء العالمين عليها‌السلام ، فمنهم من روى أنها دفنت في البقيع
من لا يحضره الفقيه نویسنده : الشيخ الصدوق    جلد : 2  صفحه : 572
[2]  ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ه‍، ج۲، ص۴۴ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸.،شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ۱۴۲۳ق، ص۱۴۳.
[3]  ۔ "ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اللھم بارک لنا فی شامنا ، اللھم بارک لنا فی یمننا قالوا:وفی نجدنا،قال اللھم بارک لنا فی شامنا، اللھم بارک لنا فی یمننا،قالوا :وفی نجدنا ، قال اللھم بارک لنا فی شامنااللھم بارک لنا فی یمننا ، قالوا یارسول اللہ وفی نجدنا ؟فاظنہ قال فی الثالثة :ھناک الزلازل والفتن وبھا یطلع قرن الشیطان." صحیح بخاری٨:٧٠٩٤٩٥۔ کتاب الفتن ،باب ١٦، باب قول النبی ۖ :الفتنُ من قبل المشرق . قزوینی ، وہابیت از منظر عقل و شرع
[4]  ۔ وبنجد یطلع قرن الشیطان ایء :امتہ وحزبہ ، عمدة القاری شرح صحیح بخاری ٧:٥٩۔ قزوینی ، وہابیت از منظر عقل و شرع
[5]  ۔ ففی قولہ سیماھم التحلیق تصریح بھذہ الطائفة لانھم کانوا یامرون کل من اتبعھم ان یحلق راسہ ولم یکن ھذا الوصف لاحد من طوائف الخوارج والمبتدعة الذین کانوا قبل زمن ھئولاء ۔ فتنة الوھابیة ١٩
[6]  ۔ وکان السیدعبدالرحمن الاھدل مفتی زبید یقول :لاحاجة الی التالیف فی الرد علی الوھابیة بل یکفی فی الرد علیھم قولہ صلی اللہ علیہ وسلم سیما ھم التحلیق ، فانہ لم یفعلہ احد من المبتدعة غیرھم۔ ایضا قزوینی ، وہابیت از منظر عقل و شرع
[7]  ۔ دوانی، مقدمہ۔فرقہ وہابی ،ص: ۵۶محسن امین ،کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥
[8]  ۔ قزوینی ، وہابیت از منظر عقل و شرع ص ۱۱۹
[9]  ۔ ولما ملکواالطائف فی الذیقعدة سنة ١٢١٧، الف ومائتین وسبعة عشرقتلوا الکبیر والصغیر والمامور والامر ولم ینج الامن طال عمرہ ، وکانوایذبحون الصغیر علی صدرامہ ونھبوا الاموال وسبواالنساء زینی دحلان ۔ الدررالسنیة :ص،٤٥
/۹۸۸/ن
https://taghribnews.com/vdcgut9ttak93x4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ