تاریخ شائع کریں2019 22 June گھنٹہ 16:09
خبر کا کوڈ : 426169

کانگریس کی اجازت کے بغیر کسی کو ایران کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں

واشنگٹن تہران کشیدگی میں کمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا
امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سربراہ نے واشنگٹن تہران کشیدگی میں کمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا
کانگریس کی اجازت کے بغیر کسی کو ایران کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں
امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سربراہ نے واشنگٹن تہران کشیدگی میں کمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کانگریس کی اجازت کے بغیر کسی کو ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے کا حق حاصل نہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ غیر مشروط مذکرات کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
 ایوان نمائندگان کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف نے سی بی ایس ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔
امریکی جاسوس طیارے کو مار گرائے جانے کے خلاف جوابی اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایڈم شیف کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کا اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے اقدامات کشیدگی میں اضافے کا باعث نہیں بنیں گے اور ہم حساب و کتاب کی غلطی کا شکار نہیں ہوں گے، اس لحاط سے امریکی عوام کو اپنے صدر سے اس بارے میں صبر و تحمل سے کام لینے اور سوچنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
 ایوان نمائندگان کے سینئیر ڈیموکریٹ رکن نے یہ بات زور دے کر کہی کہ  ہمیں موجودہ حالات میں کشیدگی میں کمی کی ضرورت ہے اور ہم غلطی سے بھی ایران کے ساتھ نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتے۔
 دوسری جانب امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے بھی کہا ہے کہ واشنگٹن تہران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ تاہم ایک بار پھر دعوی کیا کہ ایران نے امریکی ڈرون طیارے کو بین الاقوامی سمندری حدود میں نشانہ بنایا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
پینٹاگون کے مطابق امریکی فوج نے تباہ شدہ طیارے کا ملبہ تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کی تجزیاتی رپورٹ تیار کی جا سکے تاہم اعتراف کیا کہ فی الحال اس کے پاس ڈرون ملبے کے حوالے سے کوئی تجزیاتی رپورٹ موجود نہیں۔
 درایں اثنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ غیرمشروط بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے ساتھ ہی تضاد بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ہر قسم کے مذاکرات میں ایران کے میزائل پروگرام کا معاملہ زیر بحث آنا ضروری ہے۔
 امریکی صدر اور دیگر اعلی حکام پچھلے چند ماہ کے دوران کئی بار یہ دعوی کرچکے ہیں وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
 ٹرمپ اور دیگر امریکی حکام ایسے وقت میں ایران کے ساتھ مذاکرات کا راگ الاپ رہے ہیں جب امریکہ نے گزشتہ سال، ایران کے ساتھ ہونے والے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے غیر قانونی طور پر علیحدگی اختیار کر کے ایران کے خلاف تمام ایٹمی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں۔
 ایران کے سپریم لیڈر، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تیرہ جون کو جاپانی وزیر اعظم اور ان کے ہمراہ وفد سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکہ پر ذرہ برابر اعتماد نہیں اور وہ امریکہ کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ہونے والے تلخ مذاکرات کا تجربہ ہرگز نہیں دوہرایا جائے گا کیونکہ کوئی بھی خود مختار اور عاقل قوم، دباؤ میں مذاکرات نہیں کر سکتی۔
 آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا تھا کہ  امریکہ کے عہدیداروں میں صداقت کم یاب ہو چکی ہے کیونکہ ایٹمی معاہدے کے بعد سب سے پہلے جس نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے وہ خود اوباما ہی تھے، جنہوں نے ایران سے مذاکرات کی درخواست کی تھی اور کچھ لوگوں کو وساطت کے لیے بھیجا تھا۔
https://taghribnews.com/vdch--nkw23nizd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ