تاریخ شائع کریں2018 14 December گھنٹہ 14:22
خبر کا کوڈ : 386360

مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے قم المقدس میں سیاسی نشست کا اہتمام

اس سیاسی نشست میں علماء اور طلاب کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔
نشست یمن سے متعلق تھی کے مقرر ،معروف سیاسی تجزیہ نگار اور کیہان اخبار کے مستقل کالمسٹ آقا سعد اللہ زارعی تھے اس سیاسی نشست میں علماء اور طلاب کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی
مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے قم المقدس میں سیاسی نشست کا اہتمام
مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے قم المقدس میں سیاسی نشست کا اہتمام

سیاسی نشست"
(میڈیا رپورٹ) بروز جمعرات ۵ ربیع الثانی کو مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کی جانب سے مسجد اھل بیت میں ھفتہ وار نشست کے سلسلے میں ایک سیاسی نشست کا اہتمام کیا گیا۔اس نشست جو کہ یمن سے متعلق تھی کے مقرر ،معروف سیاسی تجزیہ نگار اور کیہان اخبار کے مستقل کالمسٹ آقا سعد اللہ زارعی تھے۔
مشہور تجزیہ نگار نے اپنی گفتگو کی ابتداء میں حاضرین سے کچھ سوالات پوچھنے کو کہا تاکہ وہ گفتگو کا محور مشخص کر سکیں۔۔

جو سوالات آقا زارعی کے سامنے رکھے گئے وہ یہ تھے کہ:
1-آخر یہ جنگ کیوں شروع ہوئی؟ سعودیہ کا ہدف کیا ہے؟۔۔۔۔
2-مزاکرات کہاں تک پہنچے ہیں؟
3-موجودہ صورت حال کیا ہے؟
4-ایران، یمن کی مدد کر رہا ہے یا نہیں؟....

ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے آقا زارعی نے تفصیلی گفتگو کی۔
استاد زارعی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو یہ خطرہ ہے کہ اس کے خلاف ایک شیعہ چین بن رہی ہے علاقے کی جغرافیائی سرحدیں بھی ظاھرا ایسی ہی ہیں۔ایک طرف عراق،دوسری طرف بحرین اور ایک طرف ایران۔
 
اب تک یمن کے خلاف جنگ کو چار مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1- دشمن یمنی انقلابیوں انصار اللہ کو بالکل کچلنا چاہتے تھے تاکہ سب کو ختم کر دیا جائے۔
2-  جب یہ کام نہ کر سکے تو کہا کہ انصار اللہ کو اسلحہ رکھ دینا چاہیے۔
3- جب یہ بھی نہ کر سکے تو کہا گیا کہ دارالحکومت میں منصور ہادی کی حکومت قبول کی جائے۔انصاراللہ بھی اس میں شریک رہے۔
4- جب اس میں بھی کامیاب نہ ہوئے تو آخر میں اس بات پر زور تھا کہ ایک صوبہ حدیدیہ کو ہی کنٹرول کر لیا جائے چونکہ اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ اگر حدیدیہ پر سعودی تسلط قائم کرتے ہیں تو انصار اللہ کمزور پڑ سکتی یے۔۔۔مگر اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔

جہاں تک مذاکرات کی بات ہے تو کئی کوششیں ہو چکی ہیں مگر اس میں بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔
ایران کی امداد کے متعلق سوال کی تفصیل میں ماہر تجزیہ نگار کا کہنا تھا چونکہ جنگ طلبی اور اس میں توسیع کے حق میں کوئی بھی نہیں اور نہ ایران کے اقتصادی حالات ایسے ہیں کہ کسی جنگ میں براہ راست گھسا جائے اور نہ ہی حتی اقوام متحدہ کسی قسم کی امداد چاہے وہ خوراک کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو کسی صورت یمن پہنچانے نہیں دے رہی تو بس ایک حالت بچ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انصار اللہ کو نئی ٹیکنالوجی سکھائی جائے تاکہ دشمن کے خلاف ہتھیار خود بنا سکے۔۔
یہی کام اب ہو رہا ہے کہ انصار اللہ ساڑھے تین سو کلومیٹر مار کرنے والے میزائل بنا چکی ہے ۔۔البتہ یہ کچھ پرانی معلومات تھیں شاید اب دو برابر بہتر مار کرنے والے میزائل بنا رہی ہو گی۔
ان شاءاللہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ سعودیہ عرب کو یمن میں عنقریب بڑی شکست ہو گی۔۔
اس سیاسی نشست میں علماء اور طلاب کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔
https://taghribnews.com/vdcfvvdmxw6dcma.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ