تاریخ شائع کریں2018 20 May گھنٹہ 12:33
خبر کا کوڈ : 331914

مشرق وسطیٰ آتش فشاں پر کھڑا ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے

آئی سی کچھ بھی نہیں کر پائے گی، کیونکہ او آئی سی خود تذبذب کا شکار ہے
بحیثیت قوم اور ملک ہمارا فلسطینی عوام کے ساتھ جو رشتہ ہے، اس کی بنیاد پر آواز اٹھاتے ہیں، اس لئے ہمارے عزم میں کمی نہیں آنی چاہیے، ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ او آئی سی میں موجودہ اختلاف کو کم کیا جائے
مشرق وسطیٰ آتش فشاں پر کھڑا ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے
پیپلزپارٹی کے رہنماء سینیٹر فرحت اللہ بابر ایک متحرک شخصیت ہیں۔ بائیں بازوں کی سوچ رکھتے ہیں، وہ ایک قانون ساز سیاست دان، صحافی اور حقوق انسانی کے کارکن ہیں۔ وہ مسلسل سماجی موضوعات پہ آواز اٹھانے کیوجہ سے ایک باعزت سیاستدان اور سماجی رہنماء کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ایک فلسفی کیطرح سوچتے ہیں اور اس پر عمل  کرتے ہیں۔

سوال: فلسطین میں ہونیوالے مظالم پر آپ اور آپکی جماعت کا کیا موقف ہے۔؟
 فرحت اللہ بابر: فلسطین پر جو ہوا ہے، اس پر میں اور میری جماعت شدید مذمت کرتے ہیں، یہ جو فیصلہ کیا گیا ہے کہ امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس شفٹ کیا جائے، ہم امریکی صدر کے اس فیصلے کو انتہائی غلط فیصلہ سمجھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے دور رس مضمرات ہوں گے، اسرائیلی مظالم سے 62 افراد شہید ہوگئے ہیں، اس کے بھی دور رس نتائج برآمد ہوں گے اور صورتحال مزید گھمبیر ہوگی۔ پہلے ہی مشرق وسطیٰ کی صورتحال خاص طور پر یمن کی وجہ سے اور امریکی صدر کی جانب سے ایران معاہدے سے نکلنے سے خراب ہے اور اب یہ واقعہ ہوگیا ہے تو ہم اس وقت آتش فشاں پر بیٹھے ہیں۔

سوال: اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اپنا رول کیوں ادا نہیں کر رہے۔؟
 فرحت اللہ بابر: دیکھیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مظالم کا نوٹس لیں اور ان ظالموں کے ہاتھوں کو روکیں، ورنہ مشرق وسطیٰ آتش فشاں پر کھڑا ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، جس سے ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال پر غور و خوض کی ضرورت ہے۔

سوال: مسلم دنیا کو کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
 فرحت اللہ بابر: عرب دنیا ذاتی مفادات کا شکار ہے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے یہ بات کس حد تک کرنی چاہیے، لیکن کچھ عرب ممالک کے سربراہان جنہوں نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا اور وہاں فلسطین کے حوالے سے جو باتیں کیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان رہنماوں کی فلسطین کے حوالے سے جو کمٹمنٹ ہے، وہ مضبوط نہیں ہے۔

سوال: او آئی سی کس مرض کی دوا ہے۔؟
 فرحت اللہ بابر: میں سمجھتا ہوں کہ او آئی سی بہت کچھ کرسکتی ہے، لیکن او آئی سی کچھ بھی نہیں کر پائے گی، کیونکہ او آئی سی خود تذبذب کا شکار ہے، اس لئے کچھ نہیں کر پائے گی اور اندرونی خلفشار ہونے کی وجہ سے او آئی سی سے امید نہیں لگانی چاہیں، اس صورتحال میں ایک ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے، جو مسلم امہ کو جوڑ اور مسائل کے گرداب سے نکال سکے۔ اسلامی دنیا ایک بڑے خطرے سے دوچار ہے، اس کی ذمہ دار او آئی سی ہے، او آئی سی کی ذمہ داری سے مراد کچھ رہنما ہیں، جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔

سوال: پاکستان کے عوام اور حکومت کیا کرسکتے ہیں۔؟
 فرحت اللہ بابر: بحیثیت قوم اور ملک ہمارا فلسطینی عوام کے ساتھ جو رشتہ ہے، اس کی بنیاد پر آواز اٹھاتے ہیں، اس لئے ہمارے عزم میں کمی نہیں آنی چاہیے، ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ او آئی سی میں موجودہ اختلاف کو کم کیا جائے، چند روز قبل جو ہوا، اسی طرح آپ کو یاد ہو کہ مسجد اقصیٰ جلانے پر اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تھی، اس پر بھی او آئی سی کا ایک غیر معمولی اجلاس بلانا چاہیے، جس میں محض اس ایک نکاتی ایجنڈے پر بات کرنی چاہیئے۔ تمام اسلامی دنیا میں اختلافات ہیں اور اگر ختم نہ ہوں تو اسے بڑھنے سے روکا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اور بھی مظلوم اور محروم قومیں ہیں، لیکن یقین کریں کہ فلسطینیوں کو سب سے زیادہ مظلوم اور محروم سمجھتا ہوں، اگر ان کی مظلومی اور محرومی کا ازالہ نہ کیا گیا تو جو لاوا پک رہا ہے، وہ ایک دن ضرور پھٹے گا، اس سے صرف فلسطینوں کو ہی نہیں پورے خطے کو نقصان ہوسکتا ہے۔
https://taghribnews.com/vdca66ney49neo1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ