تاریخ شائع کریں2018 13 April گھنٹہ 14:19
خبر کا کوڈ : 324445

امریکہ کا شام میں کیمیائی حملوں کا نیا ڈرامہ

امریکی حکومت نے برطانوی استعمار اور یورپی ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے بضد ہے کہ شام پر حملہ کرے۔
امریکہ کا شام میں کیمیائی حملوں کا نیا ڈرامہ
شام سمیت عراق اور یمن اور بالخصوص فلسطینیوں کی استقامت و مزاحمت کے سامنے امریکہ کے یکے بعد دیگر تمام منصوبے ناکامیوں کا شکار ہوچکے ہیں، امریکی حکومت نے شام اور عراق میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور داعش کو اس لئے پروان چڑھایا تھا کہ دونوں ممالک کو تقسیم کیا جائے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبہ پر نئی طرز سے عمل درآمد کیا جائے، جس کے نتیجہ میں مشرق وسطٰی کے متعدد ممالک کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرکے براہ راست امریکی و صیہونی تسلط میں لانا تھا۔

بہرحال کئی سال کی خون ریزی انجام دینے کے بعد امریکی حکومت کو شکست کا سامنا اس وقت کرنا پڑا، جب پورے کا پورا عراق وہاں کی اعلٰی مذہبی قیادت آیت اللہ سیستانی کے ایک فتوے کے بعد متحد ہو گیا اور داعش سمیت امریکی منصوبوں کو ناکام کر دیا، اب امریکہ کے لئے عراقیوں کا اتحاد درد سر بنا ہوا ہے، اسی طرح شام کی بات کریں تو یہاں بھی شامی عوام کا اتحاد اور افواج کی پائیدار استقامت نے نہ صرف شام کا دفاع کیا بلکہ شام میں موجود ستر ممالک سے لائے گئے دہشت گرد گروہوں کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا۔

دراصل شام و عراق کے عوام اور فورسز نے نہ صرف امریکہ کا مقابلہ کیا بلکہ امریکی بلاک میں موجود خطے کی تمام ریاستوں بشمول صیہونی غاصب ریاست اسرائیل اور قطر و ترکی سمیت سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کا مقابلہ بھی کیا ہے، کیونکہ شام اور عراق میں موجود دہشت گرد گروہوں کا تعلق امریکہ و اسرائیل سمیت خطے کی ان عرب و خلیجی ریاستوں کے ساتھ تھا، جن کو باقاعدہ مالی و مسلح معاونت دی جا رہی تھی۔

امریکہ نے شام و عراق میں جہاں ایک طرف دہشت گرد گروہوں کی مالی و مسلح معاونت کی، وہاں چند ایک مسلمان ممالک میں اسلام کے لبادے میں چھپے گروہوں کو بھی مالی وسائل سے نواز کے شام و عراق کے مسائل کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھڑکانے کا ٹھیکہ بھی دیا تھا، جس میں پاکستان کی مثال بھی موجود ہے کہ یہاں پر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی موصل یا حلب یا پھر شرق غوطہ جیسے علاقوں میں کہ جہاں دہشت گردوں کا کنٹرول تھا، اور ان کے خلاف بڑی کاروائیاں شروع ہوئیں تو امریکی پے رول پر کام کرنے والے نام نہاد اسلامی گروہوں کے آلہ کاروں نے آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام شروع کیا اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی اور پھر یہ آگ آہستہ آہستہ دہشت گردوں کے خاتمہ کے ساتھ ہی تھم گئی۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ گذشتہ ماہ شامی دارالحکومت کے نزدیکی علاقہ مشرقی غوطہ کے بارے میں خبریں آ رہی تھی کہ جس کی حقیقت یوں تھی کہ چند ایک دہشت گرد گروہوں نے علاقے کی بڑی آبادی کو انسانی ڈھال بنا رکھا تھا اور حکومت سے جاری مذاکرات کے عمل کو بھی سبوتاژ کیا تھا، جس کے بعد شامی افواج نے بڑے پیمانے پر کارروائی کی اور اب تازہ اطلاعات کے مطابق ان تمام علاقوں سے دسیوں ہزار لوگوں کو کہ جن کو ڈھال بنایا گیا تھا آزاد کروایا گیا ہے اور بڑی تعداد میں دہشت گرد مارے گئے ہیں اور جو اب باقی بچے ہیں انہوں نے معافی کی اپیل کی ہے، جس پر شرائط کے ساتھ حکومت معافی کے عمل پر کام کر رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی امریکہ اپنی اس بدترین شکست کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔

ایک طرف امریکہ کا منصوبہ ناکام ہوا ہے تو دوسری طرف فلسطین میں فلسطینی عوام نے امریکی فیصلہ برائے سفارتخانہ کی منتقلی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کئے ہیں اور ان کا حالیہ احتجاج جو کہ یوم الارض فلسطین کے دن سے شروع ہوا ہے اور تاحال جاری ہے جس کو روکنے کے لئے امریکی ایماء پر صیہونی جعلی ریاست نے اب تک پینتیس فلسطینیوں کو شہید جبکہ دو ہزار کے قریب زخمی کئے ہیں، بہرحال یہ احتجاج گریٹ ریٹرن مارچ کی صورت میں پندرہ مئی یوم نکبہ تک جاری ہے، اور امریکی ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے فلسطین کے غیور عوام سینہ سپر ہیں۔ اسی طرح اگر افغانستان کی بات کریں تو یہاں بھی امریکی حکومت کو تاحال کسی قسم کی کامیابی نہیں ملی، جس کا ثبوت امریکی بوکھلاہٹ کے نتیجہ میں معصوم انسانوں کو مدرسہ پر حملہ کر کے قتل کیا گیا ہے۔ 

ہر طرف سے امریکی منصوبوں کی ناکامی کے بعد ہمیشہ کی طرح امریکہ ایک مرتبہ پھر نت نئے ڈراموں کے ساتھ خطے میں خون ریزی کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ دراصل امریکہ ایک بدمست ہاتھی ہے اور جب چاروں شانہ چت ہو جاتا ہے تو پھر بلبلاہٹ میں کبھی ادھر سر مارنا اور کبھی اُ دھر سر پٹختے رہنا ہی اس کا کام ہے۔

حالیہ دنوں امریکہ نے شام میں ایک نیا ڈرامہ رچایا ہے، بلکہ پرانا ہی ہے جیسا کہ پہلے شام میں کیمیائی حملوں کا الزام شامی حکومت پر عائد کیا گیا تھا، بعد ازاں تحقیقات میں ثابت ہوا تھا کہ امریکی اداروں نے ہی خطرناک زہریلی گیس دہشت گرد گروہوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا جسے استعمال کیا گیا تھا لیکن اس مرتبہ دوما نامی علاقے میں من گھڑت قسم کا کیمیائی حملہ کیا گیا ہے جس پر روس نے علی الاعلان کہا ہے کہ عالمی برادری روس کی ضمانت میں اس علاقے میں آ کر تحقیقات کرے، جبکہ قریبی ترین کسی ایک بھی اسپتال میں ابھی تک ایک متاثرہ شخص بھی رپورٹ نہیں ہوا لیکن امریکی حکومت نے برطانوی استعمار اور یورپی ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہاں پر کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں اور امریکی حکومت بضد ہے کہ شام پر حملہ کرے۔

دراصل امریکہ شام پر حملہ کیوں کرنا چاہتا ہے جبکہ امریکہ پہلے ہی کئی ایک فوجی اڈے شام میں قائم کر چکا ہے، اور ہمیشہ کی طرح جیسا کہ عراق پر حملہ کے وقت دنیا کو بے وقوف بنایا گیا تھا، آج ایک مرتبہ پھر شام کے معاملے پر بھی دنیا کو جھوٹ بیان کرکے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے بھی چند روز قبل شامی حدود میں ٹی فور بیس کو نشانہ بنایا جہاں بڑی تعداد میں ایرانی و شامی افواج کے کمانڈر شہید ہوئے ہیں۔ 

خطے بھر میں امریکی و صیہونی منصوبوں کی ناکامی اس بات کا پیش خیمہ بن چکی ہے کہ اب امریکہ اور اسرائیل کے تمام مہرے جو کہ داعش، النصرہ، فری سیرین آرمی، فلیق الرحمان اور نہ جانے کس کس نام سے دہشت گرد گروہ موجود تھے سب خاتمہ کے قریب ہیں اب امریکہ و اسرائیل کے پاس ان مہروں کے خاتمہ کے بعد براہ راست خطے پر حملہ آور ہونے کا راستہ باقی ہے جس کی طرف امریکہ تیزی سے سفر کر رہا ہے جبکہ شام و عراق میں امریکی و اسرائیلی و عرب حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنے والی فورسز نے روز اول سے ہی نعرہ لگایا تھا کہ یہ جنگ عارضی جنگ ہے اور اصل جنگ اب فلسطین کی آزادی کی جنگ ہے کیونکہ سرزمین فلسطین کے نزدیک اب امریکی و صیہونی حکومت مخالف فورسز پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہیں اور یہ کہا جا چکا ہے کہ اس معرکہ کا اختتام اسرائیل کی نابودی پر ہی ہونا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل کی پریشانی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اب شام میں کیمیائی حملوں کا راگ الاپ کر امریکہ کوشش میں ہے کہ شام کے علاقوں پر حملے کرے اور پورے شام کو تقسیم کرنے کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جائے لیکن دوسری طرف شامی اتحاد کہ جس میں روس اور ایران بھی شامل ہیں، دونوں نے امریکی حملوں کا جواب سختی سے دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہےکہ کسی صورت حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ شام کا درد رکھنے والے اسلامی لبادے میں چھپے پاکستان کے سوشل میڈیا کے جہادی اب امریکہ کے شام پر حملہ کی خبریں سن کر نہیں تلملا رہے لیکن جب دہشت گردوں کے خلاف شامی افواج کارروائی کرتی ہیں تو یہ تلملا اٹھتے ہیں، تو بس ثابت ہوتا ہے کہ ان کے تانے بانے بھی امریکی سرکار ہی ہلا رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے موقف سامنے آ چکا ہے کہ پاکستان شام میں کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت اور حملوں کا مخالف ہے۔ بہرحال امریکی حکومت اس وقت شدید کرب کے عالم سے گزر رہی ہے اور انشاءاللہ امریکی و صیہونی غاصب حکومت کا یہ کرب ان کی بربادی و اسرائیل کی نابودی اور فلسطین و القدس کی آزادی پر ہی ختم ہو گا۔

تحریر: صابر ابو مریم 
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
https://taghribnews.com/vdcbaabfsrhb5ap.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ