تاریخ شائع کریں2018 16 March گھنٹہ 17:35
خبر کا کوڈ : 318759

شام پر غیر ملکی جارحیت کے سات سال مکمل

شام کا بحران شام اور مشرق وسطی کو پھلانگ کر ایک عالمی بحران میں تبدیل ہوتا جارہا ہے
سعودی ولی عہد کے انٹرویو سے اس کی جھنجھلاہٹ کا اظہار صاف طور پر ہورہا ہے کہ جس نے مشرق وسطی میں ایران کی موجودگی کو لیکر ایران کے رہبر اعلی پر تنقید کی کوشش کی ہے
شام پر غیر ملکی جارحیت کے سات سال مکمل
شام پر جارحیت کو آج سات سال مکمل ہونے جارہے ہیں سات سال پہلے نئے مشرق وسطی کے خطوط کھنچنے کا آغاز شام میں پراکسی وار سے شروع کیا گیا تھا ۔

آج جبکہ کرائے کے مسلح شدت پسندوں کے زریعے شروع کی گئی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے تو شام کا بحران شام اور مشرق وسطی کو پھلانگ کر ایک عالمی بحران میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔

تجزیہ کار اس مسئلے کو لیکر کسی بھی وقت ایک بڑے تصادم کے خطرات کا تذکرہ مسلسل کرتے آرہے ہیں 

سات سال پہلے شام کے درعا شہر سے شروع کیا گیا بحران ان سات سالوں میں تقریبا پورے شام کو متاثر کرگیاباوجود اس کے کہ دنیا بھر سے جمع کئے گئے ہزاروں کی تعداد میں شدت پسندوں کو ہرقسم کے وسائل کی بہتات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر بھرپور حمایت بھی حاصل تھی لیکن شام کو تباہ و برباد کرنے کے باوجود اب تک نہ تو نیے مشرق وسطی کا جنم ہو پایا ہے اور نہ ہی خطے میں اسرائیل مخالف واحد سرکار یعنی بشار الاسد کی حکومت کو گرایا جاسکاہے ۔

جہاں ایک طرف مشرق غوطہ میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن اپنے آخری مراحل کو طے کررہا ہے وہیں پر شام سمیت متعدد دیگر مسائل کو لیکر دو بڑے بلاکوں میں موجود کھچاو میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔

متعدد ٹی وی چینلز کی جانب سے مشرقی غوطہ میں دہشتگردوں کے محاصرے کو توڑکر باہر نکلنے والے قافلوں کی براہ راست کوریج کی کہ جس میں ٹرکوں ٹریکٹروںگاڑیوں میں کھچاکھچا بھرے افراد کی خوشی دیدنی تھی 

یوں لگ رہا تھا کہ موت کے منہ سے نکل کر آنے والے غوطہ کے افراد خود کو شام کی افواج کے پروٹیکشن میں پا کر نئی زندگی کا احساس کررہے ہیں ۔

شامی کی فوج کے ہتھیاروں تک کو چومنے والے ان لوگوں نے مشرق غوطہ میں گذشتہ کئی سالوں تک ہر گذرتا لمحہ موت کو ہمیشہ اپنے قریب دیکھا ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے مشرقی غوطہ سے سویلن کے انخلا میں کسی بھی قسم کی انٹرنیشنل کسی بھی آرگنائزیشن کی کوئی مدد یا ثالثی شامل نہیں ہے اور صرف شام کی حکومت ہی تھی کہ جس نے آپریشن کے زریعے دباو میں لانے کے بعد دہشتگردوں کو گھٹنے ٹیکنے اور سویلین یرغمالیوں کو آزاد کرنےپر مجبور کردیا ہے ۔

کہا جارہا ہے کہ شام میں اب تک دہشتگردوں کی جانب سے بنائے گئے یرغمالی واقعات میں یہ سب سے بڑا واقعہ ہے کہ جسے شام کی حکومت اور افواج نے دہشتگردوں کے قبضے سے آزاد کرایا ہے ۔

واضح رہے کہ اس سے قبل غوطہ کے بہت سے علاقوں میں یرغمالی شہریوں نے بڑے پیمانے پر دہشتگردوں کیخلاف پرتشدد احتجاج شروع کیا ہوا تھا اور وہ بار بار شامی کی افواج سے مدد طلب کررہے تھے ۔

تازہ ترین میڈیا خبروں کے مطابق مشرقی غوطہ سے تازہ ترین انخلا میں بارہ ہزار سے زائد سویلین کو شدت پسندوں کے چنگل سے آزاد کرایا گیا ہے ۔

دہشتگردوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے یا پھر مرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ دیکھائی نہیں دیتا خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے چند دنوں میں مشرقی غوطہ کا آپریشن مکمل ہوگا اور اس کے مکمل ہوتے ہیں خطے میں امریکہ اور اس سے وابستہ قوتوں کا ایک اور بڑا پلان بری طرح ناکام ہوگا کہ جس کے اثرات خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں ان کے بہت سے ایجنڈوں پر بہت بری طرح پڑے گے ۔

دوسری جانب ترک افواج کی بمباری سے سرحدی علاقے عفرین سے بھی سویلین کے انخلا کے مناظر کو بھی دیکھاجاسکتا تھا کہ جس میں عوام سخت غم و غصہ کا اظہار کرتے دیکھائی دے رہے تھے اور عالمی و انسانی حقوق کے اداروں سے عفرین میں ترک افواج کی جانب سے کرد نسل کشی کو روکنے کی فریاد کرتے دیکھائی دے رہے تھے ۔

اسی اثنا میں اردگان کا کہنا ہے کہ وہ شام کے عفرین علاقے پر قبضے کے بعد شامی حکومت کے حوالے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتااور مزید ان علاقوں کی جانب اس کی افواج پیشقدمی جاری رکھے گی کہ جہاں وہ کرد موجود ہوں جیسے ترکی دہشتگردسمجھتا ہے ۔

ٹرمپ انتظامیہ میں قدرے حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک سمجھاجانا والا امریکی سیکرٹری خارجہ ٹیلرسن کو ایک ٹیویٹ کے زریعے ہٹاکر اس کی جگہ مائیک پومپیوجیسے انتہائی متنازعہ فرد کو خارجہ امور سونپنے کو تجزیہ کار ٹرمپ کے خطرناک ارادوں کا عکاس کہہ رہے ہیں ۔

مائیک پومپیو فوجی بیگ گرونڈ رکھتاہے وہ سی آئی اے کاچیف رہا ہے ،مائیک کو ٹرمپ کے انتہائی قریب سمجھاجاتا ہے اور وہ ہمیشہ سے ٹرمپ کی خارجہ پالیسیز کی حمایت کرتا آیا ہے ۔

یورپی زرائع ابلاغ کے مطابق پومپیو کا تعلق قدامت پسندوں کی اس ’ٹی پارٹی‘ سے ہے، جس کی وجہ سے کچھ سالوں کے دوران یہ جماعت مزید دائیں بازو کی جانب جھک گئی ہے۔

مائیک پومپیو کی شہرت کی ایک وجہ مسلمانوں کے بارے میں ان کا انتہائی سخت رویہ کے علاوہ تفتیشی عمل میں تشدت کی حمایت بھی ہے ۔

مائیک مشرق وسطی کے مسائل بھی جارحانہ پالیسی کا حامی ہےاس کے خیال میں مسلم شدت پسندی امریکہ کے لئے انتہائی خطرناک ہے،وہ سمجھتا ہے کہ شام میں امریکہ کو براہ راست فوجی مداخلت کرنی چاہیے انہوں نے ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کے خاتمے کی بات کی تھی جبکہ روس کی مشرق وسطی میں موجودگی کو بھی خطرناک کہا ،وہ کہتا آیا ہے کہ مشرق وسطی میں مزاحمتی بلاک یعنی ایران عراق شام لبنان اور روس کی موجودگی امریکی وجود کے لئے ایک خطرہ ہے ۔

وہ یہ بھی کہتا آیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کا مقابلہ کرنا چاہیے ،کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ امارات بھی مسلسل لابنگ کررہے تھے کہ ٹیلرسن کو ہٹایا جائے کہ جو قطر کے ساتھ بائیکاٹ کا مخالف تھا ۔

کہا جاتا ہے کہ مائیک نے معروف ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کو ایک خط میں عراق میں ایرانی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیاتھا کہ وہ عراق میں جارحانہ سرگرمیوں سے باز رہے۔

لیکن بعد میں خود مائیک پومپیو ہی کا کہنا تھا کہ ایرانی جرنیل سلیمانی نے اس خط کوکھولنا ہی گوارا نہیں کیا۔

مائیک نے سعودی عرب میں بادشاہ سلمان اور ولی عہد بن سلمان نے بھی متعدد با ر ملاقاتیں کیں ہیں ۔

یوں لگ رہا ہے کہ روس کو اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ امریکہ شام میں کسی بھی وقت تمام ریڈ لائنز کو کراس کرنے کی کوشش کرسکتا ہے ۔

پیوٹن کی جانب سے پیشگی خبردار کرنا کہ شام پر کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے اس بات کی غماز ی ہے کہ روس سمجھتا ہے کہ مشرقی غوطہ میں آپریشن کے بعد ان قوتوں کو ایک بار پھر بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جو دمشق کے مضافات میں متوازی حکومت کا اعلان کرنا چاہتے تھے ۔

پیوٹن اپنی سالانہ تقریر کے موقعے پر بھی واضح کرچکا ہے کہ روس یا روس کے کسی بھی اتحادی پر کسی بھی قسم کے ایٹمی حملے کا روس فورا جواب دے گا ۔

ادھر اسی اثنا میں روس نے اعلان کردیا ہے کہ بلیک سی میں موجود اس کا بحری بیڑہ بہت جلد ہی بحیرہ روم میں موجود روسی بحریہ میں شامل ہونے جارہا ہے 

روسی بیڑے میں شامل فریگیٹ "ایڈمرل ایسن"کلیبر جیسے بیلسٹک میزائلوں سے لیس ہے ،واضح رہے کہ اس سے پہلے متعدد بار روس نے ان شام میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر ان میزائلوں کا استعمال کیا ہے

ادھر ایک روسی ڈبل ایجنٹ اور اس کی بیٹی کی موقت کو لیکر برطانیہ اور روس کے درمیان شروع ہونے والی سفارتی کشمکش میں اب امریکہ ،فرانس اور جرمنی بھی شامل ہوچکے ہیں کہ تازہ ترین مشترکہ بیان میں ان ملکوں نے روس کو اس جاسوس کی موت کا ذمہ دار قراردیا ہے ۔

جس کے جواب میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخاروفاکا کہنا ہے کہ یور پی ممالک برطانیہ میں سابق امریکی ایجنٹ سکریپال کی موت اور غوطہ میں ممکنہ کیمکل حملے کو باہم جوڑنا چاہتے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کونسی منطق ہے جو پیش کی جارہی ہے کہ’’ دمشق نے کیمکل کا استعمال کیاہے اور روس اس کی حمایت کررہا ہے پس روس نے برطانیہ میں کیمکل کا استعمال کیا ہے ‘‘۔

آپ زرا ان کی اعلی قسم کی اس منطق کو دیکھ تو لیجئے کہ یہ کیا پیش کرنا چاہتے ہیں ،ان سارے معاملا ت کو باہم جوڑنے کے پچھے اصل مقصد جان بوجھ کر پلاننگ کے تحت روس اور شام پر کیمکل کے استعمال کا الزام لگانا ہے ۔

دوسری جانب سعودی ولی عہد بن سلمان نے سی بی ایس ٹی وی چینل کو اپنے ایک تازہ ترین انٹریومیں پاکستان میں ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر ظریف کی جانب سے سعودیہ پر کسی بھی ممکنہ حملے کی شکل میں دفاع کے لئے سب سے پہلے ایران آگے آئے گا کو لیکر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔

سعودی ولی عہد کے انٹرویو سے اس کی جھنجھلاہٹ کا اظہار صاف طور پر ہورہا ہے کہ جس نے مشرق وسطی میں ایران کی موجودگی کو لیکر ایران کے رہبر اعلی پر تنقید کی کوشش کی ہے ،اس بات سے بے خبر کہ ایران بھی مشرق وسطی ہی کا ایک ملک ہے اور اسے بھی اپنے مفادات کی حفاظت کا اتنا ہی حق ہے جتنا سعودیہ یا کسی دوسرے ملک کو ہے ۔

البتہ سعودی ولی عہد کی گفتگو ایک مستقل مضمون کی متقاضی ہے
https://taghribnews.com/vdccp4q1o2bqsm8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ