تاریخ شائع کریں2018 27 February گھنٹہ 10:10
خبر کا کوڈ : 314825

یمن میں جاری سعودی جنگ اور بربریت

یمن میں سعودی عرب کی جانب سے محاصرے کو مزید سخت کرنے سے انسانی بحران میں مزید کشیدگی آئی ہے اور قحط کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے
یمن میں جاری سعودی جنگ اور بربریت
ایران کے سابق جوہری مذاکرات کار اور امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ یمن میں جاری بحران کے سفارتی حل سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کو کم کرنے میں مدد ملے گی.

سید حسین موسویان نے جرمن اخبار فرینکفرٹر آلگیمین (Frankfurter Allgemeine Zeitung) میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کہی ہے اور انہوں نے یہ تجویز دی ہے کہ مسئلہ یمن کو سفارتی طریقے سے حل کرنے سے ایران اور سعودیہ کے درمیان موجودہ اختلافات کو کیا جاسکتا ہے.

موسویان نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یمن میں جاری سعودی جنگ اور بربریت سے ہزاروں شہری اپنی قیمی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں اور وہاں ایک عجیب سے صورتحال بن گئی ہے.

سعودی عرب کی جانب سے محاصرے کو مزید سخت کرنے سے انسانی بحران میں مزید کشیدگی آئی ہے اور قحط کی سی صورتحال پیدا ہو چکی ہے اقوام متحدہ کو اس معاملے پر غور کرنا چاہیے اور یمن میں جاری اس کشیدگی کے حوالے سے 50' سالوں میں دنیا کے بدترین انسانی بحران' کے عنوان سے ایجنڈا بنانا چاہیے.

تاہم، مشرق وسطی کے بہت سے تنازعات میں سے یمن میں کشیدگی کا خاتمہ سیاسی حل سے ممکن ہے.

اس خطے میں کامیاب سفارتکاری کا ٹریک ریکارڈ ہمیشہ کم رہا ہے جبکہ اب حالیہ برسوں میں ایران کے جوہری معاہدے کو پرامن تنازعے کے حل کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے.

میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ کے نائب وزیر خارجہ نے یمن کے مسئلے کے حل کے حوالے سے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ مذاکرات کئے اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے بات چیت کی.

اگر یورپی ممالک امریکہ اور سعودی عرب کو بھی اس حوالے سے اپنے بورڈ میں شامل کر لیں تو یمن کے بحران کا سفارتی طور پر کامیاب حل ممکن نظر آتا ہے.

ایران اور سعودی عرب خلیج فارس خطے کی دو بڑی طاقتیں ہیں اور ان دونوں ممالک کے آپس میں روابط منقطع ہونے سے علاقائی بحرانوں کو مزید ہوا ملی ہے.

سعودی عرب کی جانب سے پہلے ایران جوہری معاہدے کو سراہا گیا اور اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران جوہری معاہدے کو ختم کرنے کی فیصلے پر بھی سعودی حمایت سامنے آ رہی ہے.

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی متوازی طور پر بڑھ رہی ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر کوئی دوسرا ٹریک موجود نہیں جس سے دونوں ممالک یا علاقائی کشیدگی کے حوالے سے کردار ادا کرنے میں مدد ملے.

علاقائی ریاستوں اور دیگر ممالک اور اداروں کی زمہ داری ہے کہ وہ علاقائی تنازعات کو فروغ دینے کے لئے پہلووں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ایسا نا ہو کہ اس کی وجہ سے ان سب کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑ جائے.

یمن میں جاری کشیدگی کے پرامن سفارتی حل اگر عالمی اتفاق رائے سے ممکن ہو جائے تو ایران اور سعودی عرب کے تنازعے اور امریکہ اور ایران کے تنازعے کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے.

اگر سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے تعاون سے یمن کے مسئلے کا پرامن حل تلاش کر لیتے ہیں تو یہ ایک تاریخی مثال ہو گی اور یمن میں جاری جنگ کو ختم کیا جا سکتا ہے اور اس سے کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں.

یمن کے خلاف سعودی فوجی مہم میں امریکہ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور اب امریکہ بھی اس دلدل میں پھنس گیا ہے جہاں سے نکلنا باآسانی ممکن نہیں ہے.

جرمنی میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یمن میں جاری جنگ میں شامل ممالک کو ہتھیاروں کی فراہمی منقطع کر دی جائے اور اس فیصلے کا یورپی یونین اور عالمی برادری کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا.

ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے سے خطے میں دیگر تنازعات کے حل میں بھی پیش رفت ہو گی اور اس سے بیرونی قوتوں کی جانب سے جو سازشیں تیار کی جا رہی ہیں ان کا بھی خاتمہ ہو گا اور سب سے بڑی بات خطے میں پائیدار امن و استحکام اور ترقی سامنے آئے گی.
https://taghribnews.com/vdcci0q1p2bqs48.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ