تاریخ شائع کریں2018 26 February گھنٹہ 16:28
خبر کا کوڈ : 314740

انسان ایک سماجی حیوان ہے

انسان ایک سماجی حیوان ہے
انسان تقریبا شروع سے ہی مل جل کررہتے آئے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان(Social animal) ہے۔
انسانوں کی ضروریات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس لئے وہ سماج کی شکل میں ہی رہتے ہیں۔ شروع مل جل کر رہنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ خوراک کی تلاش اور افراد انسانی کی حفاظت اکٹھے رہنے سے بہترانداز سے ہوسکتی تھی۔
لیکن انسان کے شعوری ارتقاء کے ساتھ انسان کے ذہنی و روحانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ اور اب سماج کی تشکیل کا واحد مقصد خوراک کی تلاش نہیں ۔ بلکہ اب انسانی فرد کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کی بہتر نشوونما بھی اس سماجی زندگی کا اہم مقصد ہے۔

سماج کی تشکیل اس انداز سے ہونی چاہئے کہ انسانی فرد اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بہتر پرورش دے سکے۔ لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں انسانی فرد اپنی ذات کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ سماج منافع کے محور پر گھومتا ہے۔ ہر چیز کی قدر وقیمت اس کی منافع دینے کی صلاحیت سے وابستہ ہوجاتی ہے۔

اس سماج میں فرد پس کر رہ جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ مثلا ایک فرد حصول علم کا شوق رکھتا ہے۔ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں تعلیم تو سرمایہ سے حاصل ہوتی ہے۔ جس کے پاس سرمایہ ہے وہ اعلی تعلیم حاصل کرسکتا ہے جس کے پاس نہیں وہ اپنی ذات کی تکمیل سے محروم رہے گا۔ یا ایک فرد تعلیم کے میدان میں کام کرنا چاہتا ہے۔

سرمایہ دارانہ سماج میں تعلیم کے مادی فوائد تو اسے تعلیم مکمل ہونے پر ہی ملیں گے ۔ اس دوران وہ مادی ضروریات کیسے پوری کرے۔بساو اوقات دوران تعلیم اس پر خاندان کی ذمہ داری بھی آجاتی ہے تو اب وہ کیا کریں۔ معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہوجائے تو اپنی ذات کی تکمیل سے محروم رہ جائے گا۔ اسی طرح ایک فرد آرٹ میں کمال حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ایک فرد سائنس کے کسی خاص شعبے میں کمال تک پہنچنا چاہتا ہے۔ ایک فرد اپنی روحانی صلاحیتوں کی جلا کے لئے فلسفہ پڑھنا چاہتا ہے۔  لیکن سرمایہ دارانہ سماج کے اندر موجود منافع کی دوڑ انسانی فرد کو ذہنی و فکری دلچسپیوں سے دور کردیتی ہے۔

انسانی فرد کے روحانئ ارتقاء کے راستے میں یہ نظام رکاوٹ بن جاتا ہے۔ انسان پیسہ کمانے کی ایک مشین بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد صرف سرمائے کاحصول رہ جاتا ہے۔ کیا ہمارا سماج اس وقت اسی سرمائے کی دوڑ کا عملی تناظر پیش نہیں کررہا؟ یہاں تعلیم تکمیل ذات کا ذریعہ نہیں بلکہ صرف ایک کاروبار ہے ، دولت کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔ انسانوں میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے ڈگریوں کے حصول کی ۔ اسکولز و کالجز اور یونیورسٹیز جانے کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے ڈگری حاصل کرو۔ تاکہ اس ڈگری کی بنیاد پر کوئی اونچی سیٹ حاصل ہوسکے۔ چاہے اسکے لئے ناجائز ذرائع ہی کیوں نہ اختیار کرنے پڑیں!!

لوگوں کی اس خواہش سےواقف سرمایہ دار طبقہ اسکول و کالج بنا کر بھاری فیسوں وصول کررہا ہے۔ تعلیمی ادارے دولت کے حصول کے لئے بنائے جارہے ہیں ۔فرد کی تکمیل ذات کے لئے نہیں۔ علم طب یا میڈیکل سائنس کا مقصد انسان کی جان اور صحت کی حفاظت ہے۔ ایک صحت مند انسانی فرد تکمیل ذات کے لئے بہتر کوششیں کرسکتا ہے۔

لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں صحت کا شعبہ بھی سرمائے کے حصول کا ذریعہ ہے۔ پرائیویٹ ہاسپیٹلز ، دوائیں بنانے والی نجی کمپنیاں روز بروز زیادہ ہوتی جارہی ہیں ، اور سرکاری اسپتالوں سے دوا اور علاج ناپید ہوتا جارہا ہے۔ ڈرگز کا شعبہ منافع بخش ترین شعبوں میں شامل ہے۔ اس کے اندر جو بلیک مارکیٹنگ ہے وہ الگ ہے۔ ڈاکٹرز اس کمپنی کی دوائیں تجویز کرتے ہیں جو انہیں زیادہ کمیشن سے فیضیاب کریں۔ مریض کو ضرورت ہو یا نہ ہو دوا لکھ دی جاتی ہے۔ یہی حال زندگی کے ہر شعبے کا ہے۔

حصول زر کی اندھی دوڑ نے انسانی فرد کو تکمیل ذات سے دور کرکے صرف پیسہ کمانے والی ایک مشین بنا دیا ہے۔ انسانی فرد احساسات سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ انسانی فرد ذہنی و روحانی سرگرمیوں سے محروم ہوکر اپنے انسانی مقام سے گرتا جارہا ہے۔

ذہنی و روحانی دلچسپی رکھنے والا فرد اس سماج میں خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے اور وہ مولانا رومی کے الفاظ میں پکار اٹھتا ہے۔

*کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست*
میں کیڑے مکوڑوں سے تنگ آچکاہوں۔ میں انسان ڈھونڈتا ہوں
لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں انسان کہاں سے ملے؟!
یہاں تو صرف سرمایہ کمانے کی مشینیں ہیں!

انسان اس دوڑ سے تبھی بچ سکتا ہے جب اسکی بنیادی ضروریات بآسانی پوری ہوسکیں۔ جب تعلیم اس لئے نہ ہو کہ وہ روٹی ، کپڑا ،مکان اورصحت کی سہولیات کے لئے حاصل نہ کرنی پڑے۔ بلکہ یہ بنیادی ضروریات فرد کو ہر حال میں دستیاب ہوں۔ ہمیں ایک ایسا سماج بنانے کی جدوجہد کرنی چاہئے جس میں انسانی فرد کی بنیادی نیچرل ضروریات اس طرح پوری ہوسکیں کہ انسان سرمائے کی دوڑ سے بے پرواہ ہوکر اپنی ذات کی تکمیل کی کوشش کرسکے۔
وہ بے فکر ہو کر اپنا علمی و روحانی سفر جاری رکھ سکے۔
اسی کا نام سوشلزم ہے۔
اور یہی ہمارا انسانی فریضہ ہے۔

تحریر؛ اعجاز نقوی ۔۔۔ 
https://taghribnews.com/vdci55aput1azy2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ