تاریخ شائع کریں2018 18 January گھنٹہ 15:56
خبر کا کوڈ : 306447

عالمی سیاست میں خمینی و خامنہ ای ڈاکٹرائن کا کردار

دنیا کے یہ بڑے بڑے دماغ جس ڈاکٹرائن کا جواب نہ لاسکے، میں اسے خمینی ڈاکٹرائن کہتا ہوں اور اس ڈاکٹرائن کا اپ ڈیٹڈ ورژن خامنہ ای ڈاکٹرائن ہے
اگر مائیکرو سطح پر بیان کروں تو خمینی و خامنہ ای ڈاکٹرائن کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مختصراً یہ کہ آج اگر عالم اسلام سر اٹھا کر عالمی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے، شام و عراق و یمن، بحرین، نائیجیریا سے لے کر کشمیر و میانمار کے مسلمانوں کے حق میں بلاخوف اسرائیلی بلاک کے خلاف متحد ہے، تو یہ اسی ڈاکٹرائن کا صدقہ ہے
عالمی سیاست میں خمینی و خامنہ ای ڈاکٹرائن کا کردار
او آئی سی رکن ممالک کی پارلیمانی تنظیم کی تیرہویں کانفرنس ایرانی دارالحکومت تہران میں بدھ کے روز اختتام پذیر ہوئی۔ اس پانچ روزہ کانفرنس کے حوالے سے بدھ (17جنوری) کی شب سحر اردو ٹی وی چینل پر حالات حاضرہ کے سیاسی ٹاک شو ’’انداز جہاں‘‘ میں اس حقیر کو بھی اظہار رائے کا موقع ملا تو عرض کیا کہ او آئی سی اور اس کے ذیلی ادارے کتنی بھی اچھی حکمت عملی پر متفق کیوں نہ ہو جائیں، جب تک سعودی عرب اور اس کے اتحادی رکن ممالک امریکی و اسرائیلی محور سے قطع تعلق کرکے امت اسلامی کے اس فورم کا عملی ساتھ نہیں دیں گے تو عالم اسلام کے مسائل، اختلافات و کشیدگی میں اضافہ ہی ہوگا۔ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی داخلہ و خارجہ پالیسی پر ایک غیر جانبدارانہ نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے فلسطین و کشمیر کے مسائل کے حل کے لئے وہ جامع عملی اقدامات نہیں کئے کہ جو ان مسائل کے حل کا باعث بن سکتے تھے۔ اگر سعودی عرب اور اس کے اتحادی مسلمان اور خاص طور عرب ممالک کی حکومتوں کا جائزہ لیں تو انہوں نے عالم اسلام و عرب کو یمن کی جنگ کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان کے مسلمان عرب ممالک کے خلاف عملی اقدامات (جیسا کہ ان کے شام مخالف اقدامات) سے دشمنوں کو حوصلہ ملا اور میانمار (برما) کے روھنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور بے وطنی کے عمل میں شدت آئی۔ نائن الیون کے بعد سے تو صورتحال بالکل واضح ہے کہ او آئی سی، عرب لیگ، خلیجی تعاون کاؤنسل کے رکن ممالک نے فلسطین و کشمیر کے مسائل پر سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی نہیں کیا۔ فلسطین و لبنان کی قومی مزاحمتی تحریکیں جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف لڑتی رہیں، لیکن سوائے ایران اور شام کے کسی ملک کو توفیق نہ ہوئی کہ مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی جنگ میں عملی مدد کرے۔

اگر سرسری نگاہ بھی ڈالیں، تب بھی یہ حقیقت چھپائے نہیں چھپتی کہ انہیں اسلام، شرع مقدس اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ شیطان رشدی نے توہین رسالت پر مبنی ناول لکھا، تب بھی یہ خاموش رہے۔ پاکستان میں تکفیریوں نے مساجد، امام بارگاہوں، مزارات میں دھماکے کرکے بدترین دہشت گردی کی، انہوں نے لفظی مذمت تک نہیں کی۔ قصہ مختصر یہ کہ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ یہ اپنے اپنے ملکوں کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اہلیت و صلاحیت سے ہی محروم ہیں، چہ جائیکہ عالم اسلام کی نمائندگی۔ یہ عشروں سے مسلسل حکمرانی کر رہے ہیں اور انکے طرز عمل میں ایک نکتہ مستقل ہے کہ یہ عالمی سامراج امریکہ کے دوست، اتحادی اور شراکت دار ہیں۔ عالم اسلام پر حکمران ٹولے کی کارکردگی کے تناظر میں او آئی سی کی پارلیمانی تنظیم کے پانچ روزہ تہران اجلاس پر میری رائے کا پہلا نکتہ یہی ہے کہ عالم اسلام پر حکمران یہ مخصوص ٹولہ جب تک نہیں سدھرے گا، جب تک عالمی سامراج اور اس کی علاقائی چوکیداری کے نظام سے تائب ہوکر اپنے اعمال کی اصلاح نہیں کرے گا، عالم اسلام کے بہت سارے مسائل، ایک تو یہ کہ حل نہیں ہوسکیں گے اور دوسرا یہ کہ ان میں روز بروز اضافہ ہوگا۔ میری گزارشات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے پاس دوسری راہ یہ ہے کہ وہ ماضی کی طرح کسی ایک ریاست کو اپنی مرکزی ریاست مان کر اپنی خارجہ و دفاع پالیسی کو نئے سرے سے وضع کریں۔ عملاً آج یہ ان نام نہاد آزاد ریاستوں کے لئے مشکل ہوگا کہ وہ کسی مسلمان ملک یا حکومت کو اپنا مرکز تسلیم کرلیں، لیکن جغرافیائی اور بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے نہ سہی، لیکن عملی طور مسلمان ممالک کو پہلی جنگ عظیم سے پہلے کے مسلمانوں کی صورتحال کو سامنے رکھ کر سوچنا ہوگا کہ ایک امت کے تصور کو عملی شکل کس طرح دی جاسکتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل ترک سلطنت عثمانیہ کی مرکزی حیثیت تھی اور زیادہ تر مسلمان علاقوں کے لئے سلطنت عثمانیہ خلافت کا درجہ رکھتی تھی۔ ایک دور میں ایران کی صفوی بادشاہت ایک الگ مرکز تھا۔ گو کہ اتحاد امت کے اصولوں کو ان دو مرکزی سلطنتوں نے بھی بعض مرتبہ ملحوظ نہیں رکھا اور آپس میں الجھتے بھی رہے، لیکن مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے لئے یہ مرکزی ریاست تھے۔ تہذیبوں کے تصادم کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں امریکی دانشور سیموئل ہنٹنگٹن نے اسی نکتے کو بیان کیا ہے کہ آج اسلام کی کوئی مرکزی ریاست نہیں ہے۔ سعودی حکمرانوں نے شروع سے خود کو برطانیہ اور امریکہ کی طفیلی ریاست بنا کر رکھا اور یہی طرز عمل آج تک جوں کا توں ہے۔

جب مسلمان ممالک کی حکومتوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو مختلف وجوہات کی بنیاد پر یہ کہنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں کہ بین الاقوامی سیاست میں اسلام کو ایک زندہ و جاوید حقیقت کے طور پر اپنے عمل سے پیش کرنے والی کوئی حکومت وجود نہیں رکھتی، سوائے ایران کے۔ جب شیطان رشدی نے توہین رسالت پر مبنی ناول لکھا تو ایرانی ریاست کے سربراہ امام خمینی نے اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا۔ رشدی ایران کا شہری نہیں تھا، عالمی قوانین کے تحت اس پر ایران کا قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا تھا، وہ برطانیہ کا بھارتی نژاد شہری تھا، اس کو عالمی تسلیم شدہ قوانین اور اصولوں کے تحت صرف اس ملک کی عدلیہ سزا سنا سکتی تھی، جس ملک کا وہ شہری تھا، لیکن عالمی سیاست میں اس ایک فتوے سے امام خمینی نے زلزلہ پیدا کر دیا، دنیا کو بتا دیا کہ ایران کی ریاست کا سربراہ اسلام کے قانون کو اہمیت دیتا ہے، نہ کہ اقوام متحدہ جیسے کٹھ پتلی کھوکھلے ادارے کے۔ دنیا کے بعض ممالک نے ایران سے روابط منقطع کر دیئے، لیکن امام خمینی کا فتویٰ آج تک برقرار ہے۔ انٹرنیشنل لاء، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ہوتے ہوئے ایران کی ریاست کے سربراہ نے اپنا فیصلہ سنایا، جو درحقیقت اسلام کا فیصلہ تھا۔ عالمی سیاست کے مدبرین و مفکرین آج تک حیران ہیں کہ یہ کیسا حکم صادر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے ایران نے ایک اسلامی انقلاب برپا کیا اور اپنی ریاست کی سربراہی کو ایک (جامع الشرائط) مجتہد و فقیہ عالم دین کے لئے مخصوص کر دیا، یہ اپنی جگہ ایک بڑا انقلاب تھا۔ دنیا میں حکمران طبقہ نیشن اسٹیٹ کے تصور پر ایمان رکھتا تھا اور اپنی حدود کے اندر اور دنیا کی سیاست و قوانین کے زیر اثر مقید تھا اور اس طبقے کی نظر میں اسٹیٹ کرافٹ کے لئے کہیں میکاولی، ایمانویل کانٹ، تو کہیں جان لاک اور کہیں ہوبز اور ان جیسے مغربی مفکرین کے نظریات یا بھارت کے لئے کوٹلیہ چانکیہ جیسے اسٹرٹیجیشن کے افکار پر عمل ضروری تھا، لیکن ان سب کے برعکس اسی قومی ریاست کے ویسٹ فالیہ ماڈل عالمی نظام (ورلڈ آرڈر) میں ولایت فقیہ کا نظریہ حکومت ایک جدید قومی ریاست کے لئے عوام کی تائید سے منتخب کرکے اسلامی نظام حکومت کا ایک ماڈل دنیا کے سامنے نافذ کر دیا گیا۔

دنیا کی سیاست میں نظریہ یہ تھا کہ کمزور ریاست اپنی بقاء کے لئے کسی دوسری بڑی طاقت سے اتحاد کرے اور دوسرا نظریہ طاقت کے توازن کا تھا اور آج تک یہ دنیا یونہی سمجھتی ہے۔ (اس کو سمجھنے کے لئے ریاستی امور پر مغربی مفکرین کی آراء کا مطالعہ کیجیے)۔ لیکن ایران نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات مانا، لا شرقی لا غربی کا نعرہ لگا کر مغرب اور مشرق دونوں کی مرکزی سامراجی ریاستوں سے اتحاد کو یکسر مسترد کر دیا۔ یعنی عالمی سامراج سے لاتعلقی، یہ خود اپنی ذات میں ایک انقلاب تھا اور اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ اقوم متحدہ کے قیام کے بعد کی سرد جنگ کے دور میں دنیا کے ممالک ان دو محوروں میں ہی تقسیم تھے، مشرق کا سامراج کمیونسٹ سوویت یونین اور مغرب کا سامراج عالمی سرمایہ دار امریکہ۔ پھر اس ملک ایران نے اپنی خارجہ پالیسی میں طاقتوروں کی سرپرستی قبول کرنے کی بجائے ان طاقتوروں کی سامراجی پالیسیوں کا شکار کمزور اور ستم رسیدہ مسلمانوں کی سرپرستی شروع کر دی، جیسے کہ فلسطین و لبنان کی قومی مزاحمتی تحریکیں۔ ایران کا انقلاب، نظام حکومت، رشدی کے خلاف فتویٰ اور اسٹیٹ کرافٹ، یہ سبھی کچھ منفرد ہے، عدیم النظیر ہے۔ دنیا کے یہ بڑے بڑے دماغ جس ڈاکٹرائن کا جواب نہ لاسکے، میں اسے خمینی ڈاکٹرائن کہتا ہوں اور اس ڈاکٹرائن کا اپ ڈیٹڈ ورژن خامنہ ای ڈاکٹرائن ہے، جس کے تحت ایران نے پے درپے قدم بہ قدم اپنے انقلابی اسلامی پن کو عمل سے ثابت کیا۔ آج ایران فلسطین و لبنان کی قومی مزاحمتی تحریکوں کی مدد سے بہت آگے بڑھ کر میانمار، کشمیر، یمن، بحرین اور نائیجیریا کے ستم رسیدہ مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے بیک وقت آواز بلند کرنے والا تنہا ملک ہے۔ سامراج مشرق وسطٰی میں یک نکاتی ایجنڈا کے تحت جعلی و نسل پرست ریاست اسرائیل کی بقاء کے لئے انتہائی عملی اقدامات پر اتر آیا ہے اور ایران کا یک نکاتی ایجنڈا اسی جعلی ریاست کی نابودی اور فلسطین کی آزادی ہے۔

میری نظر میں اس دور میں عالم اسلام کی ایک ہی مرکزی ریاست ہوسکتی ہے اور وہ ایران ہی ہے۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ علامہ اقبال نے تہران کے بارے میں یہ خواہش کیوں کی تھی کہ اسے عالم مشرق کا جنیوا ہونا چاہیے۔ صرف اس لئے کہ علامہ اقبال کے دور میں عالمی سیاست کا مرکزی ادارہ لیگ آف نیشنز تھی اور اس کا صدر مقام جنیوا تھا، یعنی دنیا کی سیاست کے فیصلے جنیوا میں ہوتے تھے۔ عالم اسلام اور پورے عالم مشرق کے جملہ مسائل کا حل اقبال کی نظر میں تقریباً ایک صدی قبل یہی تھا کہ ان کے فیصلے تہران کرے۔ آج جب اسلامی بیداری کانفرنس، فلسطین کانفرنس یا دیگر بین الاقوامی فورم کے اجلاس تہران میں ہوتے ہیں تو مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے۔ اقبال کو یقین تھا کہ عالم افرنگ نے جو خواب دیکھا ہے، ممکن ہے کہ اس کی تعبیر بدل جائے، یعنی عالمی سامراجیت کا جو خواب دیکھا گیا تھا، ایران اس کی تعبیر کو عالم انسانیت کے حق میں بدلنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ آج جب میں عالمی اور علاقائی سیاست، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی پر عالم اسلام کے اس عظیم قائد و رہبر امام خامنہ ای کے ارشادات پڑھتا ہوں، جب مسئلہ فلسطین کے منطقی و عادلانہ حل کے بارے میں انکی تجویز دیکھتا ہوں تو دلائل کی روشنی میں اسی نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ خامنہ ای ڈاکٹرائن پر عمل کئے بغیر عالم اسلام و انسانیت کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان کی رائے کی بنیاد قرآن و اہلبیت کی تعلیمات ہیں۔ عالم انسانیت دنیا کے موجودہ مسائل کے حل کے لئے اگر امام خامنہ ای کے تجویز کردہ عملی اقدامات کریں، تو صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسان عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور نسل پرست صہیونیوں اور ان کے اتحادیوں کی انسانیت دشمن سازشوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر مائیکرو سطح پر بیان کروں تو خمینی و خامنہ ای ڈاکٹرائن کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مختصراً یہ کہ آج اگر عالم اسلام سر اٹھا کر عالمی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے، شام و عراق و یمن، بحرین، نائیجیریا سے لے کر کشمیر و میانمار کے مسلمانوں کے حق میں بلاخوف اسرائیلی بلاک کے خلاف متحد ہے، تو یہ اسی ڈاکٹرائن کا صدقہ ہے، ورنہ امریکی پٹھو مسلمان نما حکمران تو کب کا مسلمان ملتوں کو بیچ کر کھا چکے تھے! یہ ایک کھلا مقابلہ تھا، عرب حکمران چاہتے تو وہ بھی اپنا حصہ ڈال سکتے تھے، لیکن تنہا ایران ڈٹا اور اس نے اپنی استقامت سے عالم اسلام میں یہ منفرد مقام حاصل کیا کہ آج تک پاکستانی یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک کو بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے۔

تحریر: عرفان علی
https://taghribnews.com/vdcdo90s5yt0zo6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ