تاریخ شائع کریں2017 27 November گھنٹہ 14:57
خبر کا کوڈ : 295952

تہران میں محبان اہل بیت کانفرنس، چند خصوصیات

اہل بیتؑ کی محبت پر کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ یہ تمام مسلمانوں کا مشترکہ سرمایہ اور اثاثہ ہے
آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کرکے جب کانفرنس کے شرکاء باہر نکل رہے تھے تو ان کے چہروں کی تمازت اور چمکتی پیشانیاں ان کے سینے میں موجود ایک نئے عزم کی حکایت کر رہی تھیں۔
تہران میں محبان اہل بیت کانفرنس، چند خصوصیات
22 اور 23 نومبر2017ء کو تہران میں عالمی ادارہ بیداری اسلامی کے زیر اہتمام محبان اہل بیت کی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کا عنوان تھا ’’محبان اہل بیت اور تکفیری۔‘‘ اس کانفرنس کا بنیادی تخیل یہ تھا کہ پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت اہل بیتؑ سے محبت رکھتی ہے، جبکہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کرنے والا وحشی گروہ چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو، اپنے علاوہ سارے مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے۔ جدید دور کے خارجی اور نواصب اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس گروہ نے مسلمانوں کا مختلف ممالک میں جس طرح سے قتل عام کیا ہے، اس نے ماضی کی خارجیت کو بھی شرما کے رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کی مساجد ہوں یا ان کے مقدس مقامات، صحابہ کرامؓ کی قبور ہوں یا اہل بیتؑ کے مزارات، اولیاء کرام کے آستانے ہوں یا ذکر اہل بیتؑ کے مراکز، جہاں اور جب اس گروہ کا بس چلا ہے، اس نے انہیں تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ تمام مسالکِ اسلامی کے علماء اور دانشوروں کا قتل اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرکے ان کی تصویریں اور فلمیں عام کرنا اور ڈھٹائی اور بے شرمی سے اسے اپنا کارنامہ قرار دینا، ان وحشیوں کا طرز عمل رہا ہے اور آج بھی ہے۔ اس صورت حال نے اس احساس کو جنم دیا کہ الگ الگ ان ستمگروں کے بارے میں سوچنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے اہل بیت رسولؐ سے محبت کرنے والے عالم اسلام کے نمائندے مل بیٹھیں اور ان وحشی درندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام پہلوؤں سے ایک اجتماعی حکمت عملی تیار کریں۔ محبان اہل بیتؑ کی یہ کانفرنس اسی فکر اور فلسفے کے تحت منعقد ہوئی۔

تہران ویسے تو مختلف موضوعات پر عالمی کانفرنسوں اور اجتماعات کا گذشتہ 38 برسوں سے مرکز چلا آرہا ہے، لیکن زیر بحث کانفرنس اپنی نوعیت کی ایک منفرد کانفرنس تھی۔ یہ کانفرنس اس امر کا اقرار اور اظہار بھی ہے کہ اہل بیتؑ کی محبت پر کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ یہ تمام مسلمانوں کا مشترکہ سرمایہ اور اثاثہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس میں علماء بھی تھے، دانشور بھی، صوفیاء کی درگاہوں کے مسند نشین بھی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد بھی۔ ہمیں کئی مرتبہ تہران میں عالمی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملا ہے، تاہم یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ اس میں ہم نے بیشتر نئے چہروں کو دیکھا، جن کے ماتھے پر ایک خاص طرح کی چمک اور ایک خاص طرح کا عزم جھلکتا تھا۔ ویسے تو بعض کانفرنسوں میں ہم نے پہلے بھی مشائخ اور اولیاء کرام کے آستانوں کے سجادہ نشینوں میں سے اکا دکا افراد کو دیکھا ہے، تاہم اس کانفرنس میں پوری دنیا سے بڑی تعداد میں صوفیاء اور عرفاء کی درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ افراد شریک تھے۔ مرکزی ایشیا، برصغیر پاک و ہند، مشرق وسطٰی اور دیگر علاقوں سے آنے والے مشائخ ایک بڑی تعداد میں کانفرنس میں دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستان سے بھی ممتاز درگاہوں کے نامور سجادہ نشین کانفرنس میں موجود تھے۔ ان میں حضرت سخی شہباز قلندرؒ کی درگاہ کے سید ولی محمد، حضرت بابا فریدؒ گنج شکر کی درگاہ کے نوجوان سجادہ نشین عثمان فرید، حضرت میاں میرؒ کے سجادہ نشین پیر سید ہارون علی گیلانی، درگاہ حضرت خواجہ فریدؒ کوٹ مٹھن کے سجادہ نشین خواجہ معین الدین کوریجہ، حضرت یار محمد فریدیؒ کی درگاہ کے سجادہ نشین حضرت غلام قطب الدین فریدی، حضرت سلطان باہوؒ کی درگاہ کے صاحبزادہ خالد سلطان اور دیگر صاحبزادگان شامل تھے۔

جہاں تک اہل بیتؑ سے مسلمانوں کی محبت کا تعلق ہے تو یہ انہیں پیغمبر اسلامؐ ہی سے ورثے میں ملی ہے۔ پیغمبر اسلامؐ سے عشق و محبت کا فطری نتیجہ آپ کے اہل بیتؑ سے محبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مسالک کے ممتاز علماء اور مشائخ نے اپنی تقریروں میں کانفرنس کے دوران میں اس بات پر زور دیا کہ قرآن حکیم میں اہل بیتؑ کی محبت کو تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بارہا اس آیت مجیدہ کا حوالہ دیا جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اے رسول! ان سے کہ دو کہ میں تم سے اپنی رسالت کا اس کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا کہ تم میرے قریبوں سے محبت رکھو۔‘‘ اس لحاظ سے اہل بیتؑ کرام سے محبت خود قرآن نے مسلمانوں پر فرض قرار دی ہے۔ بہت سے خطباء نے آنحضرتؐ کے اس فرمان کا حوالہ دیا کہ ’’میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اہل بیت، اگر تم ان سے وابستہ رہو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہو گے اور یہ دونوں آپس میں اکٹھے رہیں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آ پہنچیں گے۔" بہت سے علماء نے قرآن حکیم کی آیت تطہیر کو بھی اہل بیت ؑ رسالت کی عظمت و طہارت کا گواہ قرار دیا۔ کئی ایک خطباء نے اہل بیتؑ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آیہ مباہلہ کا ذکر کیا، جس میں نجران کے نصاریٰ کے مقابلے میں رسول اللہؐ سے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ ان علمائے نصاریٰ سے کہیں کہ اگر تم میرے دلائل نہیں مانتے تو پھر ’’آؤ ہم اپنے بیٹے لے آتے ہیں، تم اپنے بیٹے لے آؤ، ہم اپنی عورتوں کو لے آتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو لے آؤ اور ہم اپنے نفوس اور جانوں کو لے آتے ہیں اور تم اپنے نفوس کو لے آؤ اور پھر مباہلہ کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جھوٹوں پر لعنت کرے۔‘‘ اس پر عمل کرتے ہوئے اگلے روز صبح پیغمبر اسلام حسنین کریمین، حضرت فاطمۃ الزہرا اور حضرت علی کو ابناء نا، نساء نا اور انفسنا کے بالترتیب مصادیق کے طور پر اپنے ہمراہ لے کر نکلے۔

کانفرنس کے خطباء نے اس کے علاوہ بھی قرآن حکیم کی کئی ایک آیات اور احادیث نبویؐ سے استشہاد کرتے ہوئے اہل بیتؑ کی عظمت کو بیان کیا اور ان کی محبت کو جزو ایمان قرار دیا۔ اس لحاظ سے اس کانفرنس کو عالمی سطح کی اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کانفرنس قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں دہشت گردوں اور تکفیریوں کے مقابلے میں تمام عالم اسلام کے نمائندگان ایک جگہ جمع تھے اور دہشت گردوں کے نظریات سے بیزاری کا عملاً اظہار کر رہے تھے۔ وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ دہشت گرد تکفیریوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور مسلمان تو باہمی محبت اور یگانگت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ رسول اللہؐ اور ان کے اہل بیتؑ سے محبت پر ایمان رکھنے والے دنیا کو محبت ہی کا درس دینے کے لئے اکٹھے تھے۔ سب نے مل کر صحابہ کرامؓ کی عظمت کا ذکر بھی کیا اور ان کے احترام کو واجب قرار دیا۔ بہت سے شیعہ علماء اور نمائندوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کا احترام ساری امت پر واجب ہے اور جو لوگ ان کی توہین کرتے ہیں، وہ فعل حرام کے مرتکب ہوتے ہیں اور ساری امت کے علماء، فقہاء، دانشور اور مشائخ ان کے اس طرز عمل سے بیزار ہیں۔

یہ کانفرنس تہران میں ایسے موقع پر منعقد ہو رہی تھی، جب شام اور عراق میں داعشی تکفیریوں کی عبرتناک شکست کا اعلان ہو رہا تھا۔ داعش نے عصر حاضر میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں، ان کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان کی وحشی گری اور بربریت تاریخ میں ایک خوفناک افسانے کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام مسالک کے مسلمان شام اور عراق میں اکٹھے ہوگئے۔ انہوں نے اپنی ایمانی قوت اور شوق شہادت سے اس عفریت کا مقابلہ کیا اور بالآخر اسے شکست اور ہزیمت سے دوچار کر دیا۔ انہی دنوں میں عراق اور شام کی حکومتوں نے یکے بعد دیگرے اپنے اپنے ملک میں داعش کی مکمل شکست کا اعلان کر دیا۔ اس وقت دونوں ملکوں میں کوئی قابل ذکر قصبہ یا علاقہ داعش کے قبضے میں باقی نہیں رہا۔ اکا دکا بچے کھچے داعشی گروہوں کا صفایا بھی کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کا اس سے پہلے یہ کہنا تھا کہ داعش کو شکست دینے کے لئے بیس سال درکار ہوں گے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ چاہتا تھا کہ داعش کو مضبوط کرنے کے لئے اسے ایک طویل مدت مل جائے اور وہ آہستہ آہستہ اپنے طریقے سے ان ملکوں کی جغرافیائی حیثیت کو ختم کرکے اپنے بلڈ بارڈرز کے نظریئے کے مطابق انہیں مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دے۔ اللہ تعالٰی نے استعمار کے اس منحوس خواب کو چکنا چور کر دیا اور ایمان سے سرشار مسلمانوں نے ان دہشت گردوں کا اس انداز سے مقابلہ کیا کہ جس نے جذبۂ جہاد و شہادت کی ایک نئی تاریخ کو رقم کیا۔

اس کامیابی کی تاثیر پوری کانفرنس میں چھائی رہی۔ کانفرنس کے دوسرے روز تمام شرکاء کی ملاقات ایران کے روحانی پیشوا اور تمام مسلمانوں کی امیدوں کے محور آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے بھی کروائی گئی۔ ان کے ولولہ انگیز خطاب نے دلوں کو ایک نئے جوش اور ولولے سے آشنا کر دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دنیا میں جہاں بھی ہماری ضرورت ہوگی، ہم مسلمانوں کی مدد کے لئے حاضر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ عالمی استعمار، صہیونیت اور استبدادی قوتوں کی خواہش یہ ہے کہ قدس کا مسئلہ پس منظر میں چلا جائے، لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور وہ دن جلد آئے گا کہ جب فلسطین کے عوام کو اپنا ملک واپس مل جائے گا۔ انہوں نے داعش کی شکست پر جہاں تمام عالم اسلام کو مبارکباد پیش کی، وہاں اس امر سے خبردار بھی کیا کہ یہ گروہ مختلف ناموں سے کسی اور سرزمین سے بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ ہمیں اس سے باخبر رہنا ہوگا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کرکے جب کانفرنس کے شرکاء باہر نکل رہے تھے تو ان کے چہروں کی تمازت اور چمکتی پیشانیاں ان کے سینے میں موجود ایک نئے عزم کی حکایت کر رہی تھیں۔ اس کانفرنس کی اور بھی بہت سے جہتیں ہیں، لیکن آج ہم اپنی گفتگو کو اس احساس کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ یہ کانفرنس ضرور عالم اسلام میں ایک نئے عزم، حوصلے اور ایمان کی نئی لہروں کو جنم دے گی، جس کی تاثیر ہم ضرور دیکھیں گے۔ ان شاء اللہ

تحریر: ثاقب اکبر
https://taghribnews.com/vdcbssb55rhb99p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ