تاریخ شائع کریں2018 29 October گھنٹہ 16:38
خبر کا کوڈ : 372967

جمال خاشقجی قتل،

جمال خاشقجی قتل،
مغربی میڈیا تصویر کا فقط ایک ہی رخ دنیا کے سامنے پیش کئے جا رہا ہے کہ جمال خاشقجی ایک نامور صحافی تھا کہ جسکے قلمی انقلاب سے دہل کر آل سعود حکومت نے اپنے قونصل خانے میں اسکے ٹکڑ ے ٹکرے کر دیئے۔ کیا جمال خاشقجی فقط ایک صحافی تھا۔؟ تو اسکا جواب انکار میں ہے۔ سوویت یونین کیخلاف امریکی افغان جہاد سے لیکر یمن جنگ تک جمال خاشقجی سعودی انٹیلی جنس، جی آئی پی اور امریکی سی آئی اے کیساتھ منسلک رہا۔

شاہی خاندان سے تعلق نہ ہونیکے باوجود جمال خاشقجی وہ واحد شخصیت تھی کہ جو نائن الیون کے بعد القاعدہ اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان طے پانیوالے معاملات سے نہ صرف آگاہ بلکہ اس میں شریک بھی رہا۔ جمال خاشقجی ان تمام ممالک میں دوران شورش موجود رہا کہ جہاں جہاں سعودی عرب اور امریکہ کی مشترکہ اندرونی مداخلت جاری تھی، جیسا کہ افغانستان، سوڈان، الجیریا، شام، تیونس، مصر، اردن وغیرہ

 
جمال خاشقجی کے قتل سے یہ بات تو عیاں ہے کہ نہ صرف محمد بن سلمان بلکہ پوری سعودی حکومت کو دشمنوں نے نہیں بلکہ نام نہاد دوستوں نے کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے اور ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ یہ امتحان مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ یہ امتحان ولی عہد بن سلمان کی برطرفی، نائن الیون سانحہ کے متاثرین کو بھاری معاوضے کی ادائیگی، شام میں دہشتگرد گروہوں کو کیمیائی ہتھیاروں کی سپلائی کے شواہد اور اس کی وضاحت کے ساتھ ساتھ ان ہتھیاروں سے جڑے نیٹ ورک کی حوالگی، افغانستان میں تعمیر کے نام پہ القاعدہ یا داعش کی طالبان طرز کی مستقل سرپرستی کے ساتھ ساتھ سستے ہتھیاروں کی مہنگے داموں خریداری جیسے نقصان معاہدوں پہ یا اس سے بڑھ کر بھی منتج ہوسکتا ہے۔ بظاہر تو یہ ناقابل یقین ہے کہ ایک مقتول جمال خاشقجی سعودی عرب پہ اتنے شدید اثرات مرتب کرسکتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اس قتل کو لیکر شاہ سلمان اور ولی عہد بن سلمان ایک طرف خود کو کمزور اور بے بس محسوس کر رہے ہیں تو دوسری جانب اس قتل کے ممکنہ خوفناک اثرات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ جبھی تو اس قتل کا راز فاش ہوتے ہی انٹیلی جنس نائب چیف احمد العسیری اور مشیر خاص سعود القحطانی کو برطرف کرکے 18 افراد کی گرفتاری کا اعلان بھی کر دیا ہے۔(جو اقدامات امریکہ، ترکی، مغرب یا اقوام متحدہ کے شدید دباؤ کے بعد آخر میں اٹھانے چاہیئے تھے، وہ ابتدا میں ہی اٹھائے گئے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا)۔

اس کے ساتھ ساتھ بادشاہ اور ولی عہد دونوں نے جمال خاشقجی کے بیٹے کے ساتھ فوری طور پر خصوصی ملاقات کے ذریعے ’’سب اچھا ہے‘‘ اور ’’مصالحت بذریعہ دیت‘‘ کا تاثر دینے کی کوشش کی۔ تاہم اس ملاقات کے تیسرے ہی دن جمال خاشقفجی کے بیٹے اپنی تمام فیملی کے ہمراہ سعودی عرب سے امریکہ منتقل ہوگئے، یعنی دیت والے جملہ حقوق بھی امریکہ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ جمال خاشقجی کو کس نے، کیسے، کہاں، کب، کیوں قتل کیا، قتل میں کن ہتھیاروں کا استعمال ہوا، کتنے لوگ سعودی عرب سے ترکی آئے، واپس براہ راست سعودی عرب جانے کے عرب امارات اور مصر کیوں گئے۔؟ یہ معلومات میڈیا اتنی تفصیل اور ڈرامائی انداز میں بیان کر رہا ہے کہ دنیا بھر میں بچے بچے کو یہ ازبر ہوگیا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے ہی ایک شہری کو جو صحافی تھا، اسے دھوکے سے قونصل خانے میں بلاکر قتل کیا، لاش کے ٹکڑے کرنے کے بعد اسکی باقیات کو ٹھکانے لگا دیا۔ اس ضمن میں روزانہ کی بنیاد پہ ہونے والے انکشافات سعودی عرب کے خلاف عالمی سطح پہ خاص قسم کا شدید منفی ماحول بنا رہے ہیں، جو سعودی حکومت کو مسلسل بیک فٹ پہ دھکیل رہا ہے۔

حیران کن امر یہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ یا مغربی ممالک جنہیں سعودی عرب اپنا دوست اور محسن مانتا ہے، وہ یہ دباؤ بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ دوسری جانب وہ ممالک کہ جنہیں سعودی حکومت اپنے بقول کردار سے دشمن قرار دیتی ہے، دشمن سمجھتی ہے، جیسے ایران، قطر یا کسی حد تک ترکی وہ اس معاملے میں انتہائی احتیاط کے ساتھ ردعمل دے رہے ہیں۔ جیسا کہ ترکی کہ جس ملک میں یہ قتل ہوا، اس کے سربراہ اردغان نے ابھی تک سعودی ولی عہد یا بادشاہ کا نام لیکر انہیں اس قتل کا ذمہ دار قرار نہیں دیا، تاہم امریکی صدر نے ولی عہد بن سلمان کا باقاعدہ نام لیکر یہ کہا کہ وہ اس قتل سے بے خبر نہیں ہوسکتے۔ ایران نے امریکہ کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرا کر ایک طرف سعودی حکومت کو آکسیجن فراہم کی ہے تو دوسری طرف امریکہ کیلئے سعودی خدمات کی مزید ضرورت کا جواز بھی فراہم کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سعودی حکومت اس غیر اعلانیہ ایرانی مدد کا اعتراف اور شکریہ ادا کرے یا نہ کرے۔
 
مغربی میڈیا تصویر کا فقط ایک ہی رخ دنیا کے سامنے پیش کئے جا رہا ہے کہ جمال خاشقجی ایک نامور صحافی تھا کہ جس کے قلمی انقلاب سے دہل کر آل سعود حکومت نے اپنے قونصل خانے میں اس کے ٹکڑ ے ٹکرے کر دیئے۔ کیا جمال خاشقجی فقط ایک صحافی تھا۔؟ تو اس کا جواب انکار میں ہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکی افغان جہاد سے لیکر یمن جنگ تک جمال خاشقجی سعودی انٹیلی جنس، جی آئی پی اور امریکی سی آئی اے کے ساتھ منسلک رہا۔ شاہی خاندان سے تعلق نہ ہونے کے باوجود جمال خاشقجی وہ واحد شخصیت تھی کہ جو نائن الیون کے بعد القاعدہ اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان طے پانے والے معاملات سے نہ صرف آگاہ بلکہ اس میں شریک بھی رہی۔ جمال خاشقجی ان تمام ممالک میں دوران شورش موجود رہا کہ جہاں جہاں سعودی عرب اور امریکہ کی مشترکہ اندرونی مداخلت جاری تھی جیسا کہ افغانستان، سوڈان، الجیریا، شام، تیونس، مصر، اردن وغیرہ وغیرہ۔

میرا دل ٹوٹ گیا ہے، میں کچھ دیر پہلے یہ خبر جان کر روتے روتے گر گیا تھا، عبداللہ افغانستان میں وہ دن بہت خوبصورت تھے، تم بہت خوبصورت اور بہادر تھے۔ یہ جمال خاشقجی کی وہ ٹوئٹ ہے کہ جو اسامہ بن لادن کی موت کی خبر ملنے کے بعد اس نے کی تھی۔ جمال خاشقجی جو افغانستان میں اسامہ بن لادن کے قریب تھا، وہ شام میں حکومت مخالف دہشتگرد باغی گروہوں کے بھی انتہائی قریب تھا۔ اس دوران سعودی عرب اور امریکہ دونوں میں حکمران تبدیل ہوئے، تاہم جمال خاشقجی کے کام اور مقام پہ کوئی فرق نہیں آیا۔ امریکہ کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ وہ اپنے کارندوں کا استعمال نیپکن کی طرح کرتا ہے۔ بیرونی دنیا بالخصوص اسلامی دنیا سے جن شخصیات نے امریکہ کی جتنی زیادہ خدمت کی، ان کا انجام اتنا ہی بھیانک اور دردناک ہوا۔ ان میں شہنشاہ ایران، عراقی آمر صدام، جنرل ضیاء، اسامہ بن لادن، شہزادہ بندر بن سلطان، صدر پرویز مشرف نمایاں اور عرب سپرنگ کے نتیجے میں عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننے والے حکمران نمایاں ہیں۔

آج ولی عہد محمد بن سلمان خود کو امریکہ کیلئے جتنا لازم اور چہیتا تصور کرتے ہیں، سعودی انٹیلی جنس کے سابق چیف شہزادہ بندر بن سلطان اس سے کہیں زیادہ امریکی دوستی کے احساس تفاخر میں مبتلا تھے، تاہم آج وہ منظر عام سے غائب ہیں۔ انہیں حکومتی امور سے مکمل طور پر الگ کرکے غائب کرنے کا الزام بھی محمد بن سلمان پہ ہے، تاہم امریکہ نے اپنے اس چہیتے کے منظر عام سے ہٹنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جس طرح بن سلمان کی نگرانی میں آج یمنی مسلمانوں پہ دائرہ حیات تنگ ہے، اسی طرح بندر بن سلطان نے شام کی شورش میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہاں تک کہ شامی شہریوں پہ دہشتگردوں نے کئی مرتبہ کیمیائی ہتھیار وں کا استعمال کیا، جن میں سینکڑوں افراد بالخصوص بچے جاں بحق ہوئے ۔ شام میں پہلا کیمیائی حملہ 19 مارچ 2013ء کو خان العسل میں کیا گیا تھا کہ جس میں دو درجن سے زائد سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔ اس کے بعد کیمیائی حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ جب سرکاری افواج پہ کیمیائی حملوں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو بشارد حکومت کے خلاف عالمی کارروائی کی راہ ہموار کرنے کیلئے یہ سلسلہ شام کے عوام تک پھیلا دیا گیا۔
 
مغربی اور عرب میڈیا نے ان کیمیائی حملوں کا الزام بشارد حکومت کے سر ڈالنے کی بھرپور کوشش کی تھی، تاہم کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان دہشتگرد گروہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال انہوں نے خود کیا تھا اور یہ ہتھیار بندر بن سلطان نیٹ ورک کے ذریعے ان تک پہنچے تھے۔ بندر بن سلطان کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے جمال خاشقجی ان کیمیائی حملوں کے وقت بھی شام میں موجود تھے اور انتہائی متحرک تھے۔ بندر بن سلطان نیٹ ورک کوئی غیر ریاستی گروہ نہیں بلکہ اس سے مراد جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ یعنی سعودی انٹیلی جنس ہے، جس کے لئے جمال خاشقجی اہم ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔ شام میں کیمیائی حملوں کی تحقیقات کے دوران اس بات کے ناقابل تردید شواہد ملے کہ یہ حملے اور ہتھیار بندر بن سلطان نیٹ ورک کے ذریعے شام پہنچے اور بشارد حکومت کے خلاف ان کا دوطرفہ استعمال کیا گیا۔ جمال خاشقجی کے پاس نائن الیون، نائن الیون کے بعد القاعدہ کی حقیقت، دہشتگردی کے نام پہ امریکی جنگ کی حقیقت، مشرق وسطیٰ میں امریکی کھیل اور اس کھیل میں سعودی کردار، بالخصوص شام کے قضیئے سے متعلق اہم راز اور ثبوت دونوں موجود تھے۔
 
امریکی عدالت کی جانب سے نائن الیون متاثرین کو سعودی عرب سے معاوضہ لینے کا حق ملنے کے بعد سعودی عرب اور امریکہ میں معمولی تناو بھی پیدا ہوا۔ اوبامہ حکومت ایسی قانون سازی کی مخالف تھی، مگر ٹرمپ حکومت نے نائن الیون متاثرین کے معاوضے کا ذکر کیا۔ اگر سعودی عرب نائن الیون متاثرین کو معاوضے کی حامی بھرتا ہے تو بھی یہ سلسلہ یہیں پہ رکنے والا نہیں ہے بلکہ ان تمام ممالک کے متاثرین سعودی عرب سے معاوضہ وصول کرنے کے حقدار ہوں گے کہ جو یہ ثابت کر پائیں کہ ان پہ ٹوٹنے والی قیامت کا ذمہ دار سعودی عرب ہے۔ جیسا کہ شام میں کیمیائی حملے کے متاثرین۔ اسی طرح امریکی صدر نے تیل کی ارزاں نرخ پہ مانگ کرتے ہوئے سعودی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ ان کی حکومت امریکہ کی مرہون منت ہے، اگر آج امریکہ ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے تو ان کی حکومت دو ہفتے بھی نہیں ٹک پائے گی۔ بنیادی طور پہ شاہ سلمان اور ولی عہد کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ فقط ہمارے ساتھ تعاون کا راستہ ہی تمہارے دور اقتدار کی طوالت کا ضامن ہے، لہذا کہیں کوئی کمی نہ آنے پائے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جتنی ناز برداریاں ٹرمپ کی ہوئی ہیں، اتنی پیشتر صدور کو نصیب نہیں ہوئیں۔ شاہ سلمان اور ولی عہد کی یہی خدمت کیا کم ہے کہ اسلامی فوج کے نام پہ کثیر الملکی اتحاد ترتیب دیکر اسے امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ آج تک کسی امریکی صدر کو اسلامی کانفرنس کی صدارت کا اعزاز حاصل نہیں ہوا، ماسوائے ٹرمپ کے۔ یہی نہیں بلکہ اسلحہ سکیورٹی کے معاہدے کا اعزاز بھی فقط ٹرمپ کو ہی حاصل ہوا ہے۔ امریکی ہتھیاروں کی خریداری کے کئی معاہدے ایسے طے پائے ہیں کہ ہتھیاروں کی قیمت سعودی عرب ادا کرے گا، مگر ان ہتھیاروں کی ترسیل اس وقت عمل میں آئے گی، جب سعودی عرب کو اس کی ضرورت ہوگی۔ (یقیناً یہ فیصلہ بھی امریکہ نے کرنا ہے کہ سعودی عرب کو کون سے ہتھیار کی کس وقت ضرورت ہے اور کس وقت نہیں)۔ اقتدار کے معاملے میں سخت گیر ولی عہد محمد بن سلمان ایسی صورتحال میں اور کیا کرسکتے تھے۔؟ جب امریکہ ان کے اقتدار کو محض چند ہفتوں کی مرہون منت قرار دے رہا ہو۔

انتہائی اہم رازوں کا امین، سعودی انٹیلی جنس کیلئے اہم مشنز انجام دینے والا جمال خاشقجی امریکی شہریت رکھتا ہو اور خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہا ہو۔ بن سلمان کی خطے سے متعلق پالیسیسوں کا شدید ناقد بھی ہو، بالخصوص یمن جنگ کا۔ امریکہ نائن الیون متاثرین کے معاوضے کی تلوار لٹکائے ہو، جبکہ اسی نائن الیون کی ذمہ دار سمجھے جانی والی القاعدہ اور آل سعود کے مابین تعلقات کا چشم دید گواہ سعودی عرب سے ناراض ہو۔ یہی نہیں بلکہ شام میں ہونے والے کیمیائی حملوں کے بارے میں بھی حساس تفصیلات سے آگاہ ہو۔ کجا یمن میں جاری حملوں پہ روزانہ کی بنیاد پہ انسانی حقوق کے آزاد ادارے سعودی پالیسیوں کو دنیا بھر کیلئے خطرناک قرار دے رہے ہوں اور اسی دوران اگر شام کے بحران کی حقیقت، اس میں سعودی کردار بالخصوص کیمیائی حملوں کے حوالے سے آشکارا ہو تو کیا شاہ سلمان جو کہ خود گوشہ نشین ہوچکے ہیں یا بن سلمان عالمی اور عوامی دباو کا سامنا کر پائیں گے، ہرگز ہرگز نہیں۔ شائد کہ یہی وہ عوامل تھے کہ جو جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کا باعث بنے۔

خاشقجی قتل کی تحقیقات کا آغاز بھی سعودی انٹیلی جنس ادارے سے کیا گیا ہے اور اس میں بڑی پیمانے پہ تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ نیز سعودی وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس قتل کے مقدمے کی عدالتی کارروائی سعودی عرب میں ہی ہوگی۔ قتل کے اس مقدمے کی کارروائی جہاں بھی ہو، سوال یہ ہے کہ کیا اس مقدمے سے ایک فیصد بھی انصاف کی توقع کی جاسکتی ہے۔؟ تو اس کا جواب انکار میں ہے۔ امریکہ سمیت دیگر ممالک کو بھی جمال خاشقجی کے لواحقین کو فراہمی انصاف سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباو کے ذریعے زیادہ سے زیاہ فائدہ سمیٹ لو۔ اس قتل کے بعد سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے کہ سعودی عرب کو دھویا زیادہ جا رہا ہے یا نچوڑا زیادہ جا رہا ہے۔ دونوں صورتیں ولی عہد بن سلمان کے لئے خطرناک ہیں، کتنی خطرناک ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تحریر: آئی اے خان
https://taghribnews.com/vdcd9x0s5yt05n6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ