مارک کارنی نے امریکی صدر کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا، کیونکہ امریکی صدر نے کینیڈین کارکنوں، خاندانوں اور کاروباری اداروں پر حملے کا الزام عائد کیا تھا۔
شیئرینگ :
کینیڈا کی لبرل پارٹی نے 59 سالہ مارک کارنی کو اگلا وزیر اعظم نامزد کر دیا ہے، وہ کینیڈا اور انگلینڈ کے مرکزی بینکوں کے سابق سربراہ بھی رہ چکے ہیں، اپنے انتخاب کے بعد مارک کارنی نے خبردار کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کی جانب سے ’سیاہ دن‘ لائے جائیں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مارک کارنی نے امریکی صدر کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا، کیونکہ امریکی صدر نے کینیڈین کارکنوں، خاندانوں اور کاروباری اداروں پر حملے کا الزام عائد کیا تھا۔
آئندہ دنوں میں سبکدوش ہونے والے لبرل وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جگہ سنبھالنے والے 59 سالہ مارک کارنی نے کہا کہ ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دے سکتے۔
کینیڈا میں اکتوبر تک انتخابات کا انعقاد لازمی ہے، لیکن چند ہفتوں کے اندر اندر قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں، حالیہ جائزوں میں حزب اختلاف کی کنزرویٹو پارٹی کو معمولی فیورٹ قرار دیا گیا ہے۔
اوٹاوا میں پارٹی کے حامیوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مارک کارنی نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا، کینیڈا کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، امریکی ہمارے وسائل، پانی، زمین اور ہمارا ملک چاہتے ہیں، یہ سیاہ ’دن‘ ہیں، ایک ایسے ملک کی طرف سے لائے گئے سیاہ دن جن پر ہم اب بھروسہ نہیں کر سکتے۔
مارک کارنی جو پہلے بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کی قیادت کر چکے ہیں، انہوں نے اہم حریف ٹروڈو کی سابق نائب وزیر اعظم کرسٹیا فری لینڈ کو شکست دی، جو 2015 میں پہلی بار منتخب ہونے والی لبرل حکومت میں کابینہ کے کئی سینئر عہدوں پر فائز رہی تھیں۔
مارک کارنی نے ڈالے گئے تقریباً ایک لاکھ 52 ہزار ووٹوں میں سے 85.9 فیصد ووٹ حاصل کیے، فری لینڈ نے صرف 8 فیصد ووٹ حاصل کیے، کارنی نے ٹرمپ کے خلاف ’کھڑے ہونے‘ کے وعدے پر مہم چلائی تھی۔
کینیڈا کے نئے وزیراعظم مارک کارنی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی جنگ جیتنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے امریکا کے خلاف سخت تنقید کی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس لڑائی کا مطالبہ نہیں کیا تھا، جب کوئی اور ’دستانے اتارتا ہے‘ تو کینیڈین ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکیوں کو کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے، ہاکی کی طرح تجارت میں بھی کینیڈا جیت جائے گا۔
کینیڈا میں اکتوبر تک انتخابات کا انعقاد لازمی ہے لیکن چند ہفتوں کے اندر قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں، حالیہ جائزوں میں حزب اختلاف کی کنزرویٹو پارٹی کو معمولی فیورٹ قرار دیا گیا ہے۔
اپنی فتح کی تقریر میں مارک کارنی نے متنبہ کیا کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کینیڈا پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، امریکی ہمارے وسائل، پانی، اپنی زمین اور اپنا ملک چاہتے ہیں، یہ سیاہ دن ایک ایسے ملک کی طرف سے لائے گئے ہیں جس پر ہم اب بھروسہ نہیں کر سکتے۔
امریکی صدر نے بارہا کینیڈا کو ضم کرنے کی بات کی ہے اور دوطرفہ تجارت کو افراتفری سے دوچار کر دیا ہے جو کینیڈا کی معیشت کی جان ہے، اسی وجہ سے محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔
الوداعی خطاب کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈا کے عوام کو اپنے ہمسایہ ملک کی جانب سے ایک چیلنج کا سامنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسے شخص کا انتخاب کیا جو اگلے انتخابات میں ٹوری رہنما پیئر پوئیلیور کا مقابلہ کر سکے اور ڈونلڈ ٹرمپ سے نمٹ سکے۔
مارک کارنی نے دلیل دی ہے کہ ان کا تجربہ انہیں امریکی صدر کا ’مثالی جواب‘ بناتا ہے۔ انہوں نے خود کو ایک تجربہ کار معاشی بحران سے نمٹنے والے مینیجر کے طور پر پیش کیا ہے، جنہوں نے 9-2008 کے مالیاتی بحران میں بینک آف کینیڈا اور 2016 کے بریگزٹ ووٹ کے بعد پیدا ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران بینک آف انگلینڈ کی قیادت کر رکھی ہے۔
بدھ کے روز اینگس ریڈ پولنگ فرم سے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کینیڈین عوام کارنی کو ٹرمپ کے خلاف مقابلہ کرنے کے لیے پسندیدہ انتخاب کے طور پر دیکھتے ہیں، جس سے ممکنہ طور پر لبرلز کو حزب اختلاف کی کنزرویٹو پارٹی پر برتری حاصل ہو سکتی ہے۔
43 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ ٹرمپ سے نمٹنے کے لیے کارنی پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جبکہ 34 فیصد نے پوئیلیور کی حمایت کی۔
جنوری میں ٹروڈو کے مستعفی ہونے کے اعلان سے قبل لبرلز انتخابی صفایا کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن قیادت کی تبدیلی اور ٹرمپ کے اثر و رسوخ نے ڈرامائی طور پر دوڑ کو مزید سخت کر دیا ہے۔
مارک کارنی نے کینیڈین سول سروس میں داخل ہونے سے پہلے گولڈمین ساکس میں سرمایہ کاری بینکر کی حیثیت سے دولت کمائی۔
2020 میں بینک آف انگلینڈ چھوڑنے کے بعد سے، انہوں نے اقوام متحدہ کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں، جو نجی شعبے کو ماحول دوست ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور نجی شعبے کے کردار ادا کر چکے ہیں۔
انہوں نے کبھی پارلیمنٹ میں خدمات انجام نہیں دیں، اور نہ ہی کسی منتخب عوامی عہدے پر فائز رہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی انتخابی مہم کی مہارت کنزرویٹو پارٹی کے خلاف ’ذمہ داری‘ ثابت ہوسکتی ہے جو پہلے سے ہی حملے کے اشتہارات چلا رہی ہے، جس میں مارک کارنی پر عہدے تبدیل کرنے اور اپنے تجربے کو غلط انداز میں پیش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
اونٹاریو کی ویسٹرن یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنٹسٹ کیمرون اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’یہ بالکل ایک خطرہ ہے‘ وہ انتخابات کی دوڑ میں غیر ثابت شدہ ہیں، تاہم مارک کارنی کی ٹرمپ مخالف سخت بیان بازی ’وہی ہے جو کینیڈین اپنے رہنماؤں سے سننا چاہتے ہیں‘۔