تاریخ شائع کریں2022 24 June گھنٹہ 15:55
خبر کا کوڈ : 554740

علماء کو زندگی کے تمام شعبوں میں بھی مذہب کا مبلغ ہونا چاہیے

حوزہ علمیہ کے استاد نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ طلباء اور علماء کو "طَبیبٌ دَوّارٌ بِطِبِّه" کا مصداق یعنی ایک چلتا پھرتا طبیب ہونا چاہیے۔ علماء کو زندگی کے تمام شعبوں میں بھی مذہب کا مبلغ ہونا چاہیے۔
علماء کو زندگی کے تمام شعبوں میں بھی مذہب کا مبلغ ہونا چاہیے
حجۃ الاسلام عبدالکریم کشکولی نے اصفہان میں تبلیغ کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم مبلغین کے لئے قرآن کریم کی آیات میں سے ایک آیت کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۳۹ انتخاب کریں گے جس میں خدا وند متعال ارشاد فرماتا ہے: «الَّذِینَ یُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَیَخْشَوْنَهُ وَلَا یَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَکَفَیٰ بِاللَّهِ حَسِیبًا» وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے ‘‘۔

اس آیت کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ لفظ یُبَلِّغُونَ تبلیغ کے لئے استعمال ہوا ہے اور فعل مضارع ہے اور فعل مضارع استمرار کا معنی دیتا ہے، لہٰذا یہ لفظ اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ تبلیغ کوئی موقت چیز نہیں ہے کہ آج ہے اور کل نہیں ہے۔

حوزہ علمیہ کے استاد نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ طلباء اور علماء کو "طَبیبٌ دَوّارٌ بِطِبِّه" کا مصداق یعنی ایک چلتا پھرتا طبیب ہونا چاہیے۔ علماء کو زندگی کے تمام شعبوں میں بھی مذہب کا مبلغ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا: دوسرا نکتہ یہ کہ آیہ کریمہ میں لفظ رِسَالَاتِ اللَّهِ آیا ہے، یعنی تبلیغ خدا کے لئے ہونا چاہئے۔ اپنی ذات کے لئے نہیں۔ یقیناً اگر ہمارا تبلیغی انداز لا الہ الا اللہ کی طرف جائے گا تب ہم کمال کی جانب گامزن ہوں گے۔

حجۃ الاسلام و المسلمین کشکولی نے کہا: آیت سے جو تیسرا نکتہ حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ رسالات اللہ عام ہے اور کسی خاص موسم یا مہینے سے مخصوص نہیں ہے، لوگوں کا دین صرف خاص مناسبتوں تک محدود ہے اور انہیں مناسبتوں میں یعنی محرم اورصفر میں لوگوں کا دین اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ لہٰذا مبلغ کوشش کرے کہ خود اپنے دین اور لوگوں کے دین کو بھی ہمیشہ عروج پر رکھے۔

انہوں نے مزید کہا: چوتھا نکتہ یہ ہے نکلتا ہے کہ تبلیغ میں تواضع سے کام لے تا کہ راہ تبلیغ میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ ہمیں الوہیت کی طرف جانا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مقام پر پہنچے جہاں انہوں نے خدا کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔

حوزہ علمیہ کے استاد نے کہا : اگلا نکتہ خشیت الہی ہے جس کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ خوف خدا سے مراد خدا تک پہنچنے کی فکر ہے کہ مبلغ کو اس صفت حسنہ سے آراستہ ہونا چاہئے۔
https://taghribnews.com/vdceee8n7jh8nfi.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ