تاریخ شائع کریں2021 28 October گھنٹہ 14:44
خبر کا کوڈ : 524656

شہادت، روحانیت کی چوٹی ہے اور ہر چوٹی کو سر کرنے کے لیے اس پہاڑ کے دامن سے گزرنا چاہیے

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اخلاص، ایثار، صداقت اور مجاہدت کو شہادت کا راستہ بتایا اور انصاف کی کوشش، اللہ کی جانب توجہ، عوام کے لیے کام اور دین کی حاکمیت کے قیام کو، اس راہ کو طے کرنے کے اہم اور مؤثر اسباب قرار دیا۔
شہادت، روحانیت کی چوٹی ہے اور ہر چوٹی کو سر کرنے کے لیے اس پہاڑ کے دامن سے گزرنا چاہیے
،رہبر انقلاب اسلامی نے سنیچر ۱۶ اکتوبر 2021 کو صوبۂ زنجان کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد ہونے والی کانفرنس کے منتظمین اور شہداء کے بعض اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختصر سا خطاب بھی کیا جو جمعرات کو اس کانگریس کی افتتاحی تقریب میں منظر عام پر لایا گيا۔


اس ملاقات میں انھوں نے شہداء کے معزز اہل خانہ اور اسی طرح شہدائے زنجان کی کانگریس کا انعقاد کرنے والے افراد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ایران میں زنجان کی تاریخی حیثیت اور اس کے کردار پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد آيۃ اللہ خامنہ ای نے شہید اور شہادت کے اعلی مقام اور حیثیت کا ذکر کیا اور کہا: شہداء، منتخب شدہ ہیں، خداوند عالم کی جانب سے منتخب شدہ ہیں۔ شہیدوں نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے اور خدا نے منزل تک پہنچنے کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارے مادی اور دنیوی حساب کتاب اور معیارات سے شہیدوں کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جانا ممکن نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ شہادت، روحانیت کی چوٹی ہے اور ہر چوٹی کو سر کرنے کے لیے اس پہاڑ کے دامن سے گزرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا: ہم میں سے بہت سے لوگ (شہادت کی) اس چوٹی تک پہنچنے کی تمنا رکھتے ہیں، تو ہمیں اس کے دامن سے گزرنا ہوگا، اس چوٹی کے دامن میں راستہ تلاش کرنا ہوگا اور اس راستے پر چلنا ہوگا تاکہ ہم چوٹی تک پہنچ سکیں ورنہ دامن سے گزرے بغیر چوٹی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اخلاص، ایثار، صداقت اور مجاہدت کو شہادت کا راستہ بتایا اور انصاف کی کوشش، اللہ کی جانب توجہ، عوام کے لیے کام اور دین کی حاکمیت کے قیام کو، اس راہ کو طے کرنے کے اہم اور مؤثر اسباب قرار دیا۔

انھوں نے اپنی تقریر میں شہداء کی یاد اور ان کے ذکر کو باقی رکھنے کے لیے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں کے انعقاد کی اہمیت کا بھی تذکرہ کیا اور اسے مقدس دفاع کے اقدار کی بحالی کا ابتدائي مرحلہ قرار دیا جسے جدت طرازی کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔

انھوں نے شہداء اور مقدس دفاع کے قصوں سے کتاب، فلم اور دستاویزی فلم تیار کیے جانے جیسے ثقافتی کاموں کو سراہتے ہوئے کہا: ان کاموں کے ساتھ ہی کچھ دوسرے کام بھی ہونے چاہیے جیسے شہیدوں کی لکھی گئي ڈائریوں کا دین کے عنصر کی مضبوط موجودگي کی بنیاد پر سماجی اور نفسیاتی لحاظ سے تجزیہ کیا جانا چاہیے؛ یہ بہت اہم چیز ہے۔

انھوں نے دین کو، شہداء اور ان کے اہل خانہ کے جذبۂ شجاعت، ایثار اور قربانی کو ابھارنے والا اصل عنصر بتایا اور کہا کہ یہ محرکات بجائے خود قابل تحقیق و تجزیہ ہیں۔ شہیدوں کے کپڑے دھونا، ان کے لیے کھانا پکانا، ڈبہ بند اشیائے خوردونوش تیار کرنا اور زخمیوں کی تیمار داری سمیت خواتین کے ذریعے محاذ جنگ کے پیچھے کی جانے والی خدمت جیسے مسائل کی جانب بھی رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا اور اس طرح کے واقعات کو نقل کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کو گرانقدر کام بتایا۔ انھوں نے اسی کے ذیل میں محاذ جنگ کے پیچھے خواتین کے ایثار و فداکاری کے سلسلے میں اپنی کچھ یادوں کا ذکر کیا اور اسے حیرت انگیز بتایا۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مقدس دفاع کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی شہداء کے پاک جنازوں کو الوداع کہنے کے پروگراموں میں عوام کی شرکت کو ان باتوں میں قرار دیا جن کی جانب مقدس دفاع کے میدان میں غفلت برتی گئي ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں ہر شہر کی گلیوں، سڑکوں اور شاہراہوں کا نام اس شہر کے شہیدوں کے نام پر رکھے جانے کو اس شہر کے لیے ایک افتخار بتایا اور ذمہ داروں سے کہا کہ وہ ان چیزوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ایرانی قوم، جلد ہی اپنی مجاہدتوں کے نتائج یعنی ایرانی قوم کی کامیابی کا مشاہدہ کرے گی اور مشکلات پر غلبہ حاصل کر لے گي۔
 
https://taghribnews.com/vdchmknm-23ni-d.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ