تاریخ شائع کریں2021 5 August گھنٹہ 17:05
خبر کا کوڈ : 514154

برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی اپنی حکومت پر تنقید

برطانیہ میں بین الاقوامی سفر کے لیے 'ٹریفک لائٹ' نظام نافذ ہے جس میں کم خطرہ والے ممالک کو قرنطینہ سے پاک سفر کے لیے گرین، درمیانے خطرہ والے ممالک کو 'امبر' کا درجہ دیا گیا ہے اور ریڈ لسٹ کے ممالک 10 روز ایک ہوٹل میں قرنطینہ میں گزارنے کی ضرورت ہے۔
برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی اپنی حکومت پر تنقید
برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے پاکستان کو بین الاقوامی سفر کے لیے اپنی 'ریڈ لسٹ' میں رکھنے اور کووڈ 19 کی صورت حال زیادہ سنگین ہونے کے باوجود بھارت کو 'امبر لسٹ' میں ترقی دینے پر اپنی حکومت کے ’گھنائونے' فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

برطانیہ میں بین الاقوامی سفر کے لیے 'ٹریفک لائٹ' نظام نافذ ہے جس میں کم خطرہ والے ممالک کو قرنطینہ سے پاک سفر کے لیے گرین، درمیانے خطرہ والے ممالک کو 'امبر' کا درجہ دیا گیا ہے اور ریڈ لسٹ کے ممالک 10 روز ایک ہوٹل میں قرنطینہ میں گزارنے کی ضرورت ہے۔

اپریل کے اوائل میں پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھا گیا تھا جس کے بعد 19 اپریل کو کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ڈیلٹا کی مختلف کیسز کے سامنے آنے کے بعد بھارت کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا۔۔

برطانوی حکومت کی طرف سے جاری کردہ سفری فہرستوں کی اپڈیٹ میں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھارت کو بھی 8 اگست (اتوار) سے امبر لسٹ میں منتقل کردیا جائے گا۔

بریڈ فورڈ ویسٹ کی ایم پی ناز شاہ نے کہا کہ وہ اس اقدام پر 'حیران' ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب برطانیہ نے اپنے قرنطینہ ٹریفک لائٹ سسٹم کے انتظامات میں 'گھناؤنے رویے' کا مظاہرہ کیا ہو۔

انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان ابھی تک ریڈ لسٹ میں کیوں ہے جب جہ اس کا سات روز کے انفیکشن کی شرح 14 فیصد ہے جبکہ بھارت 20 فیصد پر 'امبر لسٹ' میں ترقی پاچکا ہے جو اس فہرست میں شامل دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'آخری بار جب حکومت نے سائنس کے بجائے سیاسی پسندیدگی پر فیصلہ کیا تھا تو ہماری قوم کی کورونا سے جنگ میں مشکلات بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے ڈیلٹا قسم برطانیہ میں سب سے نمایاں کورونا قسم بن گیا'۔

اس فیصلے کو 'ناقابل قبول' قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس مسئلے کو اٹھانے کا عزم ظاہر کیا۔

بولٹن ساؤتھ ایسٹ کی رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے بھی نشاندہی کی کہ پاکستان 'کسی قسم کی تشویش نہ ہونے کے باوجود' ریڈ لسٹ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے حکومت سے سوال کیا تھا اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھا تاہم اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت پاکستان کو ممکنہ معاشی فوائد کے لیے سزا دینا چاہتی ہے، یہ پاکستان کے ساتھ واضح امتیازی سلوک ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ 'زخم پر نمک چھڑکنے کے لیے ہوٹل کی قرنطینہ لاگت میں 450 یورو سے 800 یورو کے درمیان اضافہ ہونے والا ہے جو 2200 یورو تک پہنچ جائے گی'۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر برطانیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ گرانٹ شپس کو خط لکھ رہی ہیں۔

لیٹن نارتھ کی لیبر ایم پی سارا اوون نے بھی کہا کہ تازہ ترین تبدیلیوں کے پیچھے وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جب آپ اس طرح کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو ٹوری وزراء کو بہت کچھ سمجھانا پڑتا ہے کہ بھارت کیوں امبر پر جا رہا ہے اور پاکستان اور دیگر ممالک اب بھی ریڈ لسٹ پر ہیں'۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ 'بغیر کسی جانچ پڑتال کے تنہائی میں لیے گئے فیصلے کبھی بھی ان لوگوں کے لیے اچھے نہیں ہوتے جن کی ہم نمائندگی کرنا چاہتے ہیں، ان فیصلوں کے بڑے صحت (اور) ذاتی نتائج سامنے آتے ہیں'۔

نئی تبدیلیوں میں برطانیہ انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے فرانس واپس آنے والے ویکسینیٹڈ مسافروں کے لیے قرنطینہ کو ختم کر دے گا۔

اس کے علاوہ آسٹریا، جرمنی، سلووینیا، سلوواکیہ، لٹویا، رومانیہ اور ناروے کو انگلینڈ کی گرین لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔

وزیر ٹرانسپورٹ نے کہا کہ قوانین میں نرمی سے جدوجہد کرنے والی ٹریول انڈسٹری پر دباؤ کم ہو جائے گا اور لوگوں کو دوستوں اور خاندان سے ملنے کا موقع ملے گا۔

'برطانیہ سیاست کر رہا ہے'
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی برطانیہ کی حکومت کے فیصلے کی مذمت کی اور اس پر 'سیاست کرنے' اور پاکستان کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے رواں سال اپریل میں کہا تھا کہ برطانیہ کووڈ 19 پابندیوں پر سیاست کھیل رہی ہے جب انہوں نے بھارت میں کووڈ مینجمنٹ کی تباہی کے باوجود پاکستان کو انڈیا سے دو ہفتے پہلے ریڈ لسٹ میں ڈال دیا تھا'۔

دونوں ممالک کے درمیان یکم اگست تک ہونے والے ایک ہفتے میں اموات کا موازنہ پوسٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اس امتیازی سلوک کی کوئی سائنسی وجہ نہیں ہے'۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ 'صرف سیاست دوبارہ عمل میں آ رہی ہے، برطانیہ کی کابینہ بھارت کے بارے میں بدقسمتی سے واضح سیاسی پیش گوئی کر رہی ہے'۔

شیریں مزاری نے کہا کہ 'پاکستان کے خلاف سیاسی امتیاز واضح اور 'ناقابل قبول' ہے کیونکہ ملک کی کووڈ 19 کی حکمت عملی کو اقوام متحدہ، ڈبلیو ایچ او اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھارت کی تباہ کن حکمت عملی کے مقابلے میں سراہا ہے'۔
 
https://taghribnews.com/vdcjixeixuqevvz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ