QR codeQR code

افغانشتان و طالبان کی موجودہ صورتحال

25 Jul 2021 گھنٹہ 22:54

جنگ کے نتیجے میں اکھٹا ہونے والا ملبہ نہ اس وقت کسی نے اٹھایا نہ بعد کے برسوں میں۔ لہٰذا جب میں وہاں پہنچا تو یہ وادی اور آس پاس کا علاقہ ایسے لگتا تھا جیسے اوپن ائیر میوزیم ہو جو افغانستان کی حالیہ تاریخ کے اہم واقعات کی عکاسی کر رہا ہو۔


تحریر:یٹرک کوک برن 
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو


جب 2001 میں القاعدہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کو طیاروں کی ٹکر سے تباہ کیا اس وقت میں بطور رپورٹر ماسکو میں موجود تھا۔ یہ فوراً واضح ہو گیا کہ امریکہ طالبان کو اقتدار سے زبردستی اتارنے کے لیے جوابی کارروائی کرے گا جنہوں نے اسامہ بن لادن کو اپنے پاس ٹھہرایا اور القاعدہ کو افغانستان میں اپنا ہیڈکوارٹر بنانے کی اجازت دی تھی۔

میں نے اس امید کے ساتھ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ پہنچنے کے لیے پرواز پکڑی کہ وہاں سے دریائے آمو پار کرتے ہوئے افغانستان کے شمال مشرقی حصے میں داخل ہو جاؤں گا جو طالبان مخالف شمالی اتحاد کے قبضے میں تھا۔ تاجکستانی حکام نے اس کی اجازت نہ دی اور میں دریا کو غیر قانونی طریقے سے پار کر کے کوہ ِ ہندوکش کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا کابل کے جنوب میں واقع پنجشیر وادی پہنچنے کے رومانوی لیکن کافی حد تک غیر حقیقی منصوبے بنانے لگا۔

خوش قسمتی سے شمالی اتحاد کو ایک قدیم روسی ساختہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے مجھ سمیت چند صحافیوں کو پنجشیر لے جانے کی اجازت مل گئی جہاں میں نے اگلے 10 ہفتے گزارے۔

پنجشیر دنیا کے مضبوط ترین قدرتی قلعوں میں سے ایک ہے جس کے لش پش سرسبز میدانوں کے دونوں طرف پہاڑوں کے ایسے حصار ہیں جنہیں فتح کرنا بہت مشکل ہے۔ کابل سے 90 میل کے فاصلے پر جنوب کی سمت میں یہ واقع ہے اور کیوں کہ یہ دارالحکومت پر تیر کی طرح ترازو ہے اس لیے جس کے قبضے میں بھی ہو اس کی عسکری اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نتیجتاً کمیونسٹ حکومت سے تعاون کے لیے 1979میں روس کے افغانستان پر حملے سے لے کر یہ علاقہ اکثر و بیشتر میدان جنگ بنا رہا۔

جنگ کے نتیجے میں اکھٹا ہونے والا ملبہ نہ اس وقت کسی نے اٹھایا نہ بعد کے برسوں میں۔ لہٰذا جب میں وہاں پہنچا تو یہ وادی اور آس پاس کا علاقہ ایسے لگتا تھا جیسے اوپن ائیر میوزیم ہو جو افغانستان کی حالیہ تاریخ کے اہم واقعات کی عکاسی کر رہا ہو۔

وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ 1980 کی دہائی میں روس کی شکست کے بعد ان کا بچ جانے والا ملبہ روسی ٹینکوں کے ڈھانچوں کی صورت میں وادی کے میدانوں میں بکھرا پڑا تھا۔ بعض مقامات پر سڑکوں کے گہرے گڑھوں کو بھرنے کے لیے ان میں پرانے ٹینکوں کے ٹائر ڈال دئیے گئے تھے جس کے بعد محسوس ہوتا تھا جیسے کسی پتھریلے دریا کے اوپر گاڑی چل رہی ہو۔ میں نے ایک بکتر بند گاڑی کو ٹیکسی کے طور پر چلتے دیکھا جس کی چھت اتار دی گئی تھی اور اس کے یوں استعمال کی وجہ اس کی ناہموار مقامات  پار کرنے کی صلاحیت تھی۔

گر روزمرہ زندگی کی بات کی جائے تو افغانی قرون وسطیٰ کے عہدے میں واپس پہنچ چکے تھے۔ چھوٹے جنریٹروں سے میسر ہونی والی بجلی کے علاوہ اس کا کوئی انتظام نہیں تھا اور بہت کم ایسا ہوتا کہ ٹوٹے ہوئے پُلوں کو جھولتی لکڑی کے ڈھانچوں سے بدل دیا جاتا۔

پنجشیر کے داخلی مقام پر واقع گاؤں جبل سراج میں شمالی اتحاد کا ہیڈکوارٹر ہے جس پر قبضہ کرنے کے لیے طالبان نے جنگجو سرداروں سے لڑتے ہوئے کئی بار ناکام کوششیں کیں۔ یہ کمیونسٹ مخالفت مزاحمت کے سابقہ رہنما تھے لیکن ایک طرح سے ان میں اور ڈاکوؤں میں بہت کم فرق تھا۔

پسپا ہونے سے پہلے طالبان  جبل سراج پر قبضے میں تقریباً کامیاب ہو چکے تھے۔ گاؤں کے داخلی مقام پر ان کی شکست کی ایک شاندار یادگار طالبان سے چھینی گئی درجنوں بکتر بند گاڑیوں کو ایک گہری گھاٹی پر ایک دوسرے کے اوپر جوڑتے ہوئے پل کی صورت میں قائم کی گئی تھی۔

طالبان کے ساتھ لڑائی میں مرکزی اہمیت بگرام اڈے کو تھی جو بہت جلد امریکی فوج کا ہیڈکوارٹر اور حکمت عملی مرتب کرنے کا مرکزی مقام بن گیا اور بالآخر گذشتہ دنوں خالی کیا گیا۔ جب میں وہاں تھا تو افغانستان کے بہت سے دیگر علاقوں کی طرح وہاں بھی غیر اعلانیہ جنگ بندی چل رہی تھی۔ اپنے مورچوں کے باہر جنگجو افراد نے بالعموم جیرانیم گلاب (geraniums) لگا رکھے تھے جو افغانیوں کی پھولوں سے محبت کے ساتھ اس بات کی بھی علامت تھے کہ کوئی زیادہ خطرناک صورت حال نہیں چل رہی۔

اگر امریکی جنگی طیارے ان کا راستہ صاف کر سکتے ہوں تو پھر شمالی اتحاد کے کمانڈرز لڑنے کا کم ہی قصد کرتے تھے۔ افغانستان میں جاری جنگ کی فطرت میں یہ چیز رچی ہوئی تھی جو غیر ملکیوں کے لیے پیچیدگی کا باعث بنتی تھی۔ جنگ بندی کے بعد امن کا طویل دورانیہ ہوتا۔ تیز رفتار پیش قدمی اور پسپائی عسکری سرگرمی کا ثمر کم اور مرکزی کرداروں کے فریق  بدلنے یا اپنے دشمنوں سے کوئی معاہدے کرنے کا نتیجہ زیادہ ہوتی تھی۔ 

 ان کی مفاد پرستانہ سوچ کا عکس ایک افغانی کہاوت میں نظر آتا ہے کہ ’افغان کبھی جنگ نہیں ہارتے کیونکہ وہ ہمیشہ جنگ ختم ہونے سے پہلے فریق تبدیل کر لیتے ہیں ( مطلب جیتنے والے کے ساتھ جا شامل ہوتے ہیں)۔‘ 

وفاداری تبدیل کرنے کی ایسی غیر متوقع روش کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ 

پنجشیری  کے شمال میں بالکل قریب سالنگ سرنگ  Salang Tunnel تھی جو ہندوکش کے اندر سے ہوتی ہوئی ملک کے شمالی اور جنوبی حصے کو ملانے والا ہر وقت دستیاب واحد راستہ تھا۔ 1990 کی دہائی کے اواخر میں اس کی حفاظت کرنے والے جنگی سردار نے طالبان جوائن کرنے کا ڈھونگ رچایا اور جب ان کے ہزاروں جنگجو اس میں سے گزرنے لگے تو اس نے پیچھے سے سرنگ میں دھماکہ کر دیا جس کے نتیجے میں طالبان کے دستے موت کے گھاٹ اتر گئے۔

 امریکہ کی فضائی بمباری کافی موثر تھی جب اکتوبر 2001 میں اس کا آغاز ہوا۔ جب طالبان کے ہراول دستوں پر میزائل اور بم برسائے گئے تو میں نے فضا میں بلند ہوتے شعلے اور جہاز مار گرانے والی غیر موثر آگ کی چند باریک دھوئیں جیسی لکیریں کابل سے اٹھتی دیکھیں۔ امریکہ کی پشت پناہی سے شمالی اتحاد نے چند ہفتوں بعد ہی بغیر کسی مزاحمت دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔

تاثر دیا گیا کہ امریکہ بہت طاقتور اور مخالف افغان گروہ بہت کمزور ہیں لیکن یہ نہایت گمراہ کن تھا۔ طالبان بلاشبہ یہ جنگ ہار گئے تھے لیکن وہ لڑے ہی برائے نام تھے جن کی زیادہ تر تعداد اپنے گاؤں یا سرحد پار پاکستان چلی گئی جس نے اگرچہ پوشیدہ لیکن ہمیشہ ان کی مدد جاری رکھی۔

ایک بار جنوبی علاقوں کابل سے قندھار جاتے ہوئے حادثاتی طور پر میں طالبان کے مرکزی راستے سے گزرا۔ قندھار میں ایک مقامی گائیڈ ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں اس کی خدمات حاصل کر لوں سو اس سے جان چھڑانے کی خاطر میں نے کہہ دیا کہ میں مقامی طالبان سربراہ سے ملنا اور افیون کاشت کرنے والے کسانوں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے سوچا کہ وہ جتنی بھی کوشش کرے یہ انتظام کرنے میں اسے چند دن تو لگ جائیں گے لیکن گائیڈ نے کہا کہ ہم ابھی اسے کے گاؤں چلتے  ہیں۔

ہم افیون کے کاشت کار کسانوں سے پہلے ملے جن کے بقول انہوں نے سبزیاں اگائی ہیں کیونکہ طالبان نے سختی سے افیون کی جگہ یہ کاشت کرنے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف افیون سے وہ مناسب رقم حاصل کر سکتے ہیں جن سے ان کی گزر بسر ہو سکے۔

اس کے فوراً بعد مقامی طالبان سربراہ جن میں سے بعض کابل میں ضلعی پولیس آفیسر جیسی درمیانے درجے کی اہم پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے، وہ عسکری جتھوں کی شکل میں ایک عمارت میں داخل ہوئے جو پورے گاؤں کی نشست و برخاست کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اپنی چال ڈھال اور لہجے سے ناقابل شکست نظر آنے والے ان مقامی سربراہوں نے یہ بات واضح کی کہ اگر افغانستان میں نئی حکومت کا رویہ ان سے مناسب نہ ہوا تو وہ دوبارہ جنگ کریں گے۔  

افغانستان میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان میں سے بیشتر کا اندازہ 2-2001 میں لگایا جا سکتا تھا۔ امریکی پشت پناہی سے چلنے والی حکومت جنگجو سرداروں کو واپس لے آئی جو فریب سے کام لیتے رہے کہ ان کا مقصد امریکیوں سے پیسہ بٹورنا تھا۔ جہاں تک خود امریکیوں کا تعلق ہے ان کی مالی امداد ویسی بے لوث نہیں تھی جیسی سمجھی جاتی ہے جس کی بھاری مقدار کبھی امریکہ کے ہاتھوں سے نکلی نہیں یا مشیروں اور سیکیورٹی ٹیموں کے بھاری معاوضوں کی ادائیگی کی مد میں دوبارہ سیدھی وہیں جا پہنچی۔

صحت اور تعلیم کی حالت بہتر ہوئی لیکن دیہات میں غربت کی صورت حال  پہلے جیسی بھیانک رہی۔ غیر ملکیوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے افغان حکومت کی آئینی حیثیت کمزور تھی۔ طالبان سے تعاون میں پاکستان نے کبھی سستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دس سال بعد 2011 میں کابل کے اندر لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہ طالبان اور ان کے اقدامات پر کڑی تنقید کرنے والے لوگوں کی حکومت سے شدید نفرت پر میں حیران رہ گیا۔

افغانستان مختلف نسلوں، زبانوں، ثقافتوں اور قبائل پر مشتمل ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ اسے مستقل طور پر زیر تسلط رکھنا بہت مشکل ہے۔

طالبان کے کابل پر دوبارہ قبضے کی بات اب سفارت  کار دھڑا دھڑ کیے چلے جا رہے ہیں لیکن میرا نہیں خیال یہ اتنا آسان ہو گا۔ جن وجوہات کے سبب امریکی پشت پناہی سے چلنے والی حکومت 2001 کے بعد ناکام رہی بیشتر انہی وجوہات کی بنا پر طالبان کی نئی حکومت کے لیے اپنا تسلط قائم کرنا ویسا ہی مشکل ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 512888

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/news/512888/افغانشتان-طالبان-کی-موجودہ-صورتحال

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com